متعدد افراد اپنا محل بنانے کا خواب دیکھتے ہیں مگر خود اسے تعمیر کرنے کا حوصلہ کسی میں نہیں ہوتا۔ مگر ایک شخص ایسا ہے جس نے اپنے خواب کو تعبیر دی اور 33 سال تک محنت کرکے اپنے ہاتھوں سے ایک محل کھڑا کر دیا۔
جی ہاں واقعی 19 ویں صدی میں فرانس سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکیے نے ایسا کیا اور اس کے تعمیر کردہ محل کو اب مسحور کن قرار دیا جاتا ہے۔ فرڈینینڈ شیوال نامی یہ ڈاکیا فرانس کے ایک چھوٹے سے گاؤں Hauterives سے تعلق رکھتا تھا اور اس کا تیار کردہ محل Le Palais Idéal (یا آئیڈیل پیلس) اب بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس محل کو تیار کرنے کا خیال فرڈینینڈ شیوال کو ایک ٹھوکر کی وجہ سے آیا۔ یہ اپریل 1879 کی بات ہے جب وہ جنوب مشرقی فرانس کے گاؤں میں ڈاک بانٹ رہے تھے اور راستے میں ایک پتھر سے ٹھوکر لگنے کے باعث گرتے گرتے بچے۔ اس سنگ ریزے کو دیکھ کر انہیں اپنا خواب یاد آیا جو وہ اس واقعے سے 15 سال قبل دیکھ چکے تھے۔ اس خواب میں بھی انہیں چلتے ہوئے ایک پتھر سے ٹھوکر لگتی ہے جس کے بعد وہ اپنا محل تعمیر کرتے ہیں۔
اپنی سوانح حیات میں فرڈینینڈ شیوال نے کہا کہ ‘میں نے کسی کو اپنے خواب کے بارے میں نہیں بتایا تھا کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ لوگ میرا مذاق اڑائیں گے’۔ انہوں نے کہا کہ ’15 سال بعد ایک پتھر کے باعث میں گرتے گرتے بچا، جب میں نے اسے دیکھا تو اس پتھر کی ساخت بہت عجیب تھی جس کے بعد میں نے اسے اپنی جیب میں ڈال لیا تاکہ فارغ وقت میں اس پر غور کر سکوں’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘میں اس جگہ دوبارہ گیا اور وہاں پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت پتھر دیکھے، جن کو دیکھ کر میں نے خود سے کہا کہ جب قدرت مجھ سے سنگ تراشی چاہتی ہے تو میں معمار بن کر عمارت تعمیر کروں گا’۔ اس وقت ان کی عمر 43 سال تھی اور انہوں نے اپنے منصوبے کو شروع کرنے سے قبل کسی قسم کی تربیت حاصل نہیں کی تھی اور اس عمارت کے اسٹرکچر سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اسے بنانے والا کوئی ماہر نہیں تھا۔ اپنا کام شروع کرنے کے بعد وہ روزانہ ہاتھ ریڑھی کے ذریعے پتھر اپنے گھر کے باغ میں لے کر آتے اور انہیں ایک جگہ اکٹھا کر دیتے۔ شروع میں اس عمارت کا نام انہوں نے ٹیمپل آف نیچر رکھا تھا اور اس کی تعمیر کا سلسلہ 33 سال تک جاری رہا۔ فرڈینینڈ شیوال کے مطابق جب میں نے محل بنانا شروع کیا تو میرے آبائی قصبے اور اردگرد کے علاقوں میں لوگوں نے مذاق اڑانا شروع کر دیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ‘لوگ کہتے تھے کہ میں ایک بوڑھا احمق ہوں اور اپنے باغ کو پتھروں سے بھر رہا ہوں’۔ مگر وہ اس تنقید سے دلبرداشتہ نہیں ہوئے اور ان کے محل کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہا۔ اس کی ایک دیوار پر انہوں نے اپنے عزم کا اظہار ان الفاظ کو نقش کرکے کیا ‘اس چٹان کے ذریعے میں ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ قوت ارادی سے کچھ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے’۔ جیسا اوپر درج جاچکا ہے کہ وہ تربیت یافتہ آرکیٹیکٹ یا آرٹسٹ نہیں تھے اور انہوں نے اپنے محل کی تعمیر خوابوں کے ذریعے مکمل کی، جن کی تفصیلات وہ بیدار ہونے کے بعد ایک جگہ لکھ لیتے تھے۔ اس جگہ مصری مقبروں، فوارے، معروف اقوال اور ایسے ہی دیگر چیزوں کا امتزاج دیکھنے میں آتا ہے۔ عمارت کے ایک حصے میں 3 عجیب بڑے مجسمے ہیں جو جولیس سیزر، ارشمیدس اور Vercingetorix کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ محل میں ایک مسجد، ایک سوئس chalet اور ٹاورز بھی موجود ہیں جن کا خیال فرڈینینڈ شیوال کو مختلف تصویری جرائد کو دیکھ کر آیا۔ ایک دیوار پر یہ بھی لکھا ہے کہ خود پر یقین کرنے سے ہی کامیابی ملتی ہے، ایک اور جگہ لکھا ہے کہ 10 ہزار دن، 93 ہزار گھنٹے اور 33 سال کی جدوجہد، کسی کا خیال ہے کہ وہ اس سے بہتر کر سکتا ہے تو کوشش کرے’۔ اس عمارت کی تعمیر 1912 میں مکمل ہوئی اور اس کے بعد سے وہ ایک مقبول سیاحتی مرکز ہے۔ فرڈینینڈ شیوال کی خواہش تھی کہ مرنے کے بعد ان کی تدفین اسی محل میں ہو مگر مقامی انتظامیہ نے اس کی اجازت نہیں دی۔ جس کے بعد وہ ایک دہائی تک مقامی قبرستان میں اپنا مقبرہ تعمیر کرتے رہے اور 1924 میں وہی ان کی تدفین بھی ہوئی۔ اب ایک صدی سے زائد عرصے بعد بھی اس محل کو دیکھنے ہر سال ہزاروں افراد آتے ہیں اور 2014 میں اس جگہ ایک میوزیم کا اضافہ بھی کیا گیا، جو فرڈینینڈ شیوال کی داستان بیان کرتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں