جبری گمشدگیوں کے داغ/حیدر جاوید سیّد

بلوچوں کی جبری گمشدگیوں کے کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ جبری گمشدگیاں ملک پر دھبہ ہیں۔ حکومت صورتحال کو سمجھے ایسا نہ ہو کہ معاملہ اقوام متحدہ میں چلا جائے۔

عدالت میں وفاقی حکومت کی جانب سے تین وزراء پر مشتمل کمیٹی کا نوٹیفکیشن بھی پیش کیا گیا۔

جسٹس کیانی کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ ریاستی ادارے جیسے احسان کررہے ہوں۔ حکومت نے کچھ نہیں کرنا تو پھر معاملے کو عدالت دیکھے گی۔

ادھر تین رکنی وزراء کمیٹی وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی سربراہی میں قائم کی گئی کمیٹی میں وزیر قانون اور وزیر دفاع بھی شامل ہیں۔ نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی سربراہی میں جبری گمشدگیوں کے معاملے پر کمیٹی کے قیام کو نرم سے نرم الفاظ میں بھونڈا مذاق ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔

حکومت سنجیدہ ہوتی تو کمیٹی کے قیام کے لئے سینیٹ سے رجوع کرتی۔ سرفراز بگٹی جبری گمشدگیوں اور مسخ نعشوں کے ملنے پر ایک ایسا موقف رکھتے ہیں جس سے سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ گمشدہ افراد کے ورثاء نے بھی کبھی اتفاق نہیں کیا بلکہ اس موقف کو اسٹیبلشمنٹ کی چاپلوسی سے عبارت ترجمانی قرار دیا گیا۔

اب ایک ایسے شخص کی سربراہی میں اس حساس معاملے کا جائزہ لینے کے لئے کمیٹی کے قیام سے مسئلہ حل ہوگا یا مزید الجھے گا اسے خود نگران وزیر داخلہ کے دیرینہ موقف کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ ہمیشہ اس معاملے پر یہ کہتے رہے ہیں کہ “یہ ایشو پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے اچھالا جاتا ہے”۔

دوسری جانب یہ امر بھی اپنی جگہ مبنی بر حقیقت ہے کہ جبری گشمدگیوں کا مسئلہ اب خالصتاً بلوچستان کا مسئلہ نہیں رہا سندھی قوم پرست اور پشتون بھی اس حوالے سے شاکی ہیں جبکہ پنجاب میں بھی مدثر نارو سمیت متعدد افراد کئی برسوں سے لاپتہ ہیں۔

جبری گمشدگیوں کی تعداد کے حوالے سے اگر مختلف الخیال قوم پرستوں کی دعویداری کو سوفیصد درست نہ بھی تسلیم کیا جائے تب بھی معاملے کی سنگینی کم نہیں ہوتی۔

یہ بجا ہے کہ اس سے سب سے زیادہ بلوچستان متاثر ہوا۔ یہاں تک پنجاب کی مختلف جامعات میں زیرتعلیم بلوچ طلباء کے اغوا کئے جانے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے حال ہی میں پنجاب یونیورسٹی سے اٹھائے گئے بلوچ طالب علم کے بار میں پہلے کچھ اور کہا گیا لیکن طلبا کے احتجاج اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو کے بعد پولیس نے موقف اپنایا کہ گرفتار کئے جانے والا طالب علم منشیات فروشی میں ملوث ہے۔

یہ بزور قوت طالب علم کو اٹھا لے جانے سے بھی زیادہ بھونڈا الزام تھا۔

جبری گمشدگیوں کے سلسلے کا آغاز چوتھے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور سے تسلسل کے ساتھ شروع ہوا۔ اس سے قبل بلوچستان میں اِکادُکا واقعات کا دعویٰ کیا جاتا تھا مگر مشرف دورمیں نواب اکبر بگٹی کے قتل سے قبل جنرل پرویز مشرف کے موقف اور پھر قتل کے بعد پیدا ہوئی صورتحال جسے ریاست دہشت گردی قرار دیتی ہے اور بلوچوں کا ایک بڑا طبقہ قومی مزاحمت کا نام دیتا ہے ہزاروں بلوچ نوجوانوں، چند بزرگوں اور خواتین کو اغوا کئے جانے کی دعویداری ہوتی رہی۔

ریاست سے ناراض بلوچوں کے ہم خیال یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ گزشتہ ڈیڑھ پونے دو عشروں میں 10 ہزار سے زائد بلوچوں کو اغوا کیا گیا ان میں سے سینکڑوں کی مسخ شدہ نعشیں ملیں۔ کچھ کو مختلف اوقات میں رہا بھی کیا گیا لیکن باقی ماندہ افراد اب بھی خفیہ قوتوں کی تحویل میں ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ اس موقف کو بعض واقعات میں کسی نہ کسی طرح کردار ادا کرنے والے بلوچ نوجوانوں کی شناخت سے نقصان بھی پہنچا جیسا کہ چند برس قبل کراچی سٹاک ایکسچینج پر حملے کے دوران جاں بحق ہونے والے بلوچ نوجوان کی شناخت کا معاملہ تھا اس جاں بحق ہونے والے نوجوان کی ساتھیوں سمیت جائے وقوعہ پر آمد اور کارروائی بعدازاں پولیس فائرنگ سے جاں بحق ہونے کے معاملہ پر بھی یہ کہا گیا کہ مرنے والا نوجوان جائے وقوعہ پر آیا نہیں بلکہ لایا گیا تھا حالانکہ وقوعہ کی ویڈیو اس موقف کو جھٹلارہی تھی۔

ماضی میں دو سے تین بار وفاقی حکومت نے خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ پر یہ موقف بھی اپنایا کہ جن بلوچ نوجوانوں کے اغوا کا الزام لگایا جارہا ہے ان میں سے زیادہ تر اپنی اصل یا تبدیل شدہ شناخت پر بیرون ملک مقیم ہیں۔ اصولی طور پر اس دعویداری کے حق میں شواہد پیش کرنا حکومت کا فرض تھا۔

جہاں تک اس معاملے کی جانچ کے لئے وفاقی وزراء کی تین رکنی کمیٹی کا تعلق ہے تو اولاً یہ کمیٹی متنازعہ موقف رکھنے والے نگران وزیر داخلہ کی وجہ سے قبولیت حاصل نہیں کرپائے گی ثانیاً یہ کہ کیا پچھلے ڈیڑھ پونے دو عشروں میں کیا پہلی بار اس طرح کی کمیٹی بنی ہے؟

ماضی میں تو جبری گمشدگیوں کے معاملے پر کمیشن بھی بنایا گیا جو ابھی تک تحلیل نہیں ہوا۔

سپریم کورٹ کے ایک سابق سینئر جج جسٹس جاوید اقبال اس کمیشن کے سربراہ مقرر کئے گئے تھے۔ بھاری بھرکم اخراجات والے اس کمیشن کی کوششوں سے یقیناً چند درجن افراد بازیاب ہوکر گھروں کو ضرور واپس گئے مگر کمیشن کے قیام سے جو عمومی توقعات تھیں وہ پوری نہ ہوپائیں۔

اسی طرح اس کیس میں عدالتی ریمارکس بھی پہلی بار سامنے نہیں آئے گزشتہ برس پی ڈی ایم حکومت بننے کے بعد بھی یہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہی اٹھایا گیا۔

اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف نے کچھ یقین دہانیاں بھی کرائی تھیں۔ اس سے قبل جبری گمشدگیوں کا معاملہ بعض عدالتی سماعتوں، ورثا کے لانگ مارچ اور طویل دھرنے کی وجہ سے سامنے آتا رہا۔

سوال یہ ہے کہ اصلاح احوال کے لئے سنجیدہ پیشرفت کیوں نہ ہوپائی؟ اس سوال کا جواب غالباً کسی کے پاس نہیں ہے۔ ایک سابق وزیراعظم عمران خان اپنے زمانہ اپوزیشن میں لاپتہ افراد کے ورثا کے دھرنے میں شرکت کرتے اور خطاب میں حمایت کے ساتھ بلندبانگ دعوے بھی کرتے رہے لیکن اپنی وزارت عظمیٰ کے پونے چار برسوں میں اس حوالے سے انہوں نے بات کرنا بھی گوارہ نہیں کی تھی۔

ادھر بلوچستان اور دوسرے صوبوں میں لاپتہ افراد کے خاندانوں کا شکوہ یہ ہے کہ وفاق پرست سیاسی جماعتیں ان کے بچوں کے معاملے پر بات اس لئے نہیں کرتیں کہ انہیں پتہ ہے کہ اقتدار اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی سے ملنا ہے اس لئے اسے ناراض کیوں کیا جائے۔ صوبائی سطح کی جماعتیں بھی ان کے مسئلے کو سیاسی مقاصد کے لئے اٹھاتی اور استعمال کرتی ہیں۔

ایک طرح سے یہ آراء حقیقت کے قریب تر محسوس ہوتی ہیں۔ گزشتہ روز بھی لاپتہ بلوچوں کے کیس کی سماعت کے دوران عدالت عالیہ کے معززجج نے جو ریمارکس دیئے وہ ہمارے نظام کی بے حسی کے ساتھ مختلف محکموں اور دیگر کے مجرمانہ طرزعمل کا پول کھولنے کے لئے کافی ہیں۔

اندریں حالات اہم بات یہ ہے کہ کیا لاپتہ افراد کے حوالے سے عدالتی سماعت اور احتجاج سے خبریں بنتی رہیں گی یا اس حوالے سے کوئی عملی پیشرفت بھی ہوگی؟

Advertisements
julia rana solicitors

ہماری دانست میں عملی پیشرفت بارے سوچنے کے ساتھ اس معاملہ پر بنائی گئی نئی وزارتی کمیٹی حکومت کے غیر سنجیدہ ہونے کو دوچند کردیتی ہے اس لئے فوری طور پ یہ کہنا درست ہوگا کہ اگر معاملہ اقوام متحدہ میں چلا گیا تو اس کے سنگین نتائج پیداہوں گے۔ مناسب ہوگا کہ اس مسئلہ کے حل کے لئے سنجیدہ اقدامات کئے جائیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply