گلین میکس ویل آخری جنگجو/محمد وقاص رشید

فاتحِ عالم  بننے کی دوڑ کا بہت بڑا معرکہ جاری تھا۔ میدانِ جنگ سجا ہوا تھا۔ دشمن غیر متوقع طور پر حملہ آور ہوا تھا۔ موت و حیات کی ایک کشمکش تھی۔ شکست زندگی کے ساتھ عزت کا بھی جنازہ لے کر آتی۔ وہ آخری جنگجو تھا۔ زخمی حالت میں محاذ پر موجود۔ کبھی لڑکھڑانے لگتا کبھی لنگڑاتا ہوا گرتا۔ مگر تلوار ہاتھوں میں تھامے ایک ایک کر کے دشمن حملہ آوروں کو پچھاڑتا رہا۔ نئی نئی ابھرتی پوری مخالف فوج کے سامنے تنِ تنہا لڑتا لڑتا آخر فتح کے ہدف تک پہنچ کر میدان سر کر گیا۔ اور اپنی قوم کیا اس جنگ کے میدان کا فخر ٹھہرا۔

راقم وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ آپ جان چکے ہیں کہ یہ کس میدان جنگ کی بات ہو رہی ہے۔ جی ہاں۔ میدانِ جنگ کرکٹ کا میدان تھا۔ معرکہ سیمی فائینل کی دوڑ کا تھا ۔ تلوار کرکٹ بیٹ تھا۔ اور۔۔۔۔اور آخری جنگجو کوئی اور نہیں کرکٹ کی تاریخ کا فاتح “گلین میکس ویل” تھا۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ افغانستان نے آسٹریلیا کے خلاف معزرت، میکس ویل کے خلاف 291 رنز بنائے۔ میکس ویل کے نوے پر سات کھلاڑی آؤٹ ہو گئے۔ اور اسکا ساتھ دینے کے لیے کپتان پیٹ کمنز آ گیا۔ پیٹ کمنز کے سر میں موجود دماغ کے استعمال کے راستے میں قدرت کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے اس نے اڑسٹھ گیندوں پر محض تیرہ رنز بنائے لیکن یہ تیرہ ، ان ایک سو تیس سے زیادہ کارگر ہیں جو اپنی ذات کے لیے بنائے جائیں۔ کمنز کی کھیل کی جانکاری Game Awareness کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ایسا ٹیسٹ میچز میں تو دیکھا ہے لیکن ایک روزہ کرکٹ میں یہ منظر تاریخی تھا۔ اس ایک طرف کی عقلمندی اور دوسری طرف کی غیر معمولی جرات ، خوداعتمادی اور بہترین کارکردگی کی بدولت نوے پر سات، دو سو نوے پر بھی سات ہی رہے۔

گلین میکس ویل نے ایک سو تئیس گیندوں پر دو سو ایک رنز بنا کر یہ اننگز ایک پلڑے میں اور کرکٹ کی دنیا کی پوری تاریخ دوسرے پلڑے میں رکھ دی اور جنہوں نے یہ اننگز دیکھی ہے ان سے میکس ویل والا بھاری پکڑا بھلا کیسے چھپا رہ سکتا ہے۔

انیس سو اکہتر سے شروع ہونے والے ایک روزہ کرکٹ کی تاریخ میں ساچن ٹنڈولکردی گریٹ کی دوہزار دس میں ڈبل سینچری بنانے والے پہلے کھلاڑی تھے۔ انہیں ہی ہونا چاہیے تھا۔ اور اب تک کل تیرہ ڈبل سینچریاں بن چکیں جن میں سب سے زیادہ رنز دو سو چونسٹھ موجودہ بھارتی کپتان روہیت شرما کے ہیں۔

مگر میکس ویل نے دس چھکوں اور اکیس چوکوں کی مدد سے جو ڈبل سینچری سکور کی۔ اسے سب سے زیادہ خاص بنانے والی چیز یہ ہے کہ دنیا میں میکس ویل کے علاوہ اور کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ آسٹریلیا نوے پہ سات سے دو سو نوے پر سات کے ساتھ اسکی ڈبل سینچری کی بدولت پہنچ سکتا ہے۔

کرکٹ دیکھنے کھیلنے اور سمجھنے والے بہت سے نہیں بلکہ ہر کسی کو یہ کہتے سنا کہ ایسی اننگز نہیں دیکھی۔ واقعی یہ ایک معجزاتی اننگز تھی۔ جرات و بہادری ایک شاہکار ، خود اعتمادی کی ایک تمثیل اور حسنِ کارکردگی کا ایک ارفع ترین معیار۔ واقعی یہ ایک جادو تھا جادو۔

ہاں ایک بات ضرور ہے کہ کرکٹ کا ایک ادنی سا مشاہدہ کار ہونے کے ناطے میں یہ ضرور سمجھتا ہوں کہ اس میں جہاں افغانستان کی طرف سے غیر معیاری کیچنگ کا عمل دخل تھا وہیں آخر پہ باؤلنگ کا معیار بھی وہ نہیں تھا جو افغانستان کے جیتے گئے بڑے میچز میں نظر آیا۔

جب میکس ویل ایک مقام پر درد کی شدت سے زمین پر جا گرا تو سارے افغانی کھلاڑی اکٹھے تو ہوئے مگر اکٹھے ہو کر موثر حکمتِ عملی نہ بنا سکے جو کہ میری رائے میں یہ ہو سکتی تھی میکس ویل کیونکہ فٹ ورک سے بالکل معذور تھا تو اسے وہاں گیند کرائی جائے جہاں بغیر ہیروں کی حرکت کے ہٹ نہیں لگ سکتی اور وہ اسکی باڈی کی طرف اندر آتی ہوئی گڈ لینتھ ، تیز یا سلو باؤنسرز ہو سکتے تھے۔ سپنرز بھی ہوا میں تیز بال کر کے مکمل طور پر predictable ہو چکے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ راشد کے آخری دو اوورز ضائع گئے۔ پیٹ کمنز پر پریشر ڈالا ہی نہیں گیا کہ فیلڈر اوپر لا کر اسے ایریل روٹ پر مجبور کیا جاتا۔ راشد خان کی اپنے فیلڈر سے آخری اوور میں درشتگی بھی یہ بتاتی تھی کہ افغانستان پینک کر گئی ہے۔ زیادہ تر گیندیں میکس ویل لانگ ہینڈل ہیمرنگ سٹائل کے لیے عین موزوں تھیں یاد رہے کہ ایسے کھیلنے والے بلے باز ویسے ہی فٹ ورک کی بجائے کلائیوں سے باڈی ویٹ شفٹنگ بیلنس کے ذریعے سلاگنگ اور پاور ہٹنگ کرتے ہیں۔

میکس ویل کی اننگز کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ وہ افغانستان کی ٹیم کا پینک کرنا بھانپ گیا تھا اور اسکا ثبوت اسکا درد کے باوجود قہقہے لگا کر تیز باؤلرز کو ریورس سویپ پر چھکے مارنا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قصہ مختصر گلین میکس ویل نے کل تاریخ رقم کر دی اور ایک کرکٹ شائق ہونے کے ناطے طالبعلم کی خوش ہے کہ کرکٹ گراؤنڈ پر مورخ میکس ویل کی جانب سے جرات ، بہادری ، جانفشانی ، خود اعتمادی اور عظمت کی تاریخ رقم ہونے کا نا چیز عینی شاہد ہے۔ باقی ایکٹنگ میں میکس ویل ہمارے رضوان کا نمبر نہیں کاٹ سکتا۔ کیونکہ اس نے ٹانگ پر مکے نہیں مارے کیونکہ وہ یہ مکے افغانی باؤلرز کو مار رہا تھا۔ بھئی وہ ہے ہی Max………اور ۔۔۔۔۔۔۔Well

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply