اک افسانوی مگر مظلوم شہر ” غزہ”/منصور ندیم

دنیا میں شاذ ہی کسی شہر نے غزہ کے مختلف ادوار میں جتنی جدوجہد، کامیابیوں اور قسمت کی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ہوگا، یہ شہر چار ہزار سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا، دنیا کے مورخین اسے قدیم ترین آباد شہروں میں سے ایک تصور کرتے ہیں، اس کے ممتاز جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے اسے بہت زیادہ قیمت ادا کرنا پڑی، یہ براعظموں کا درمیان ہجرت کے لیے ایک ملاقات کی جگہ کی وجہ سے بھی مقبول رہا، قدیم مصریوں، بابلیوں، یونانیوں، فارسیوں اور رومیوں سے لے کر عربوں تک کے بہت سے فاتحین اس کی فتح کی کوشش میں رہے، اس کے کثیر نام ہیںاور اس کے ناموں کو اس کی فتوحات کی تعداد سے ضرب دیا جاتا رہا، اس لیے ماضی میں اسے Ioni، Minoa، Constantia، اور Gares کہا جاتا ہے۔ فارسیوں نے اسے “غزہ” یعنی شاہی خزانہ بھی کہا۔ یونانیوں نے اسے اسی طرح کا نام دیا، جس کا مطلب خزانہ یا دولت ہے۔

یاقوت الحموی نے اپنی لغت میں اس شہر کا نام فعل “غزہ” سے ماخوذ کیا ہے، جس کے معنی ہیں “ایک دوسرے سے الگ ہونا”، یعنی غزہ کو تعمیر کرنے والوں نے اسے بحیرہ روم پر موجود دیگر مقامات کے درمیان مخصوص کیا تھا۔ غزوہ کے معنی طاقت بھی ہیں۔ اس کے ناموں میں “غزہ ہاشم” کی نسبت بھی معروف ہے، یعنی یہ بھی معروف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پڑ دادا کے نام کی نسبت سے اس کا نام غزہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑ دادا گرمیوں کے موسم میں تجارت کے لیے اسی جگہ آیا کرتے تھے اور پھر وہیں بعد از انتقال دفن ہوئے۔ غزہ ہر عہد میں لالچی حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت جاری رکھی ہے،

اس لیے غزہ کے لیے یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی، وہ زمانہ قدیم سے ہی شاعروں کی توجہ حاصل کرتا رہا، غزہ ہمیشہ ان کے الہام کا سرچشمہ، ان کی توجہ کا مرکز اور ان کی آرزو کا منبع رہا، معروف فقہی امام شافعی، بھی یہیں پیدا ہوئے اور اس علاقے میں ایک مدت گزاری، یہاں تک کہ جب اسے چھوڑ بھی دیا، تب بھی غزہ کے لیے انہوں نے یہ کہا:

میں غزہ کی سرزمین کی آرزو رکھتا ہوں، خواہ علیحدگی کے بعد میرے رازوں نے مجھے دھوکہ دیا۔
خدا نے زمین کو سیراب کیا اور اگر مجھے اس کی مٹی تک رسائی مل جائے تو میری پلکیں شدت آرزو سے اس سے ڈھک جائیں گی۔

آج بھی سقوط فلسطین کے بعد غزہ نے ہی بغاوت اور نافرمانی کا پہلا نعرہ لگایا، اور خون کی سب سے زیادہ قربانیاں اسی شہر نے آزادی کے لئے دی. شہر کے زیرِ قبضہ یہ تنگ ساحلی پٹی، جسے زمین پر سب سے زیادہ پرہجوم مقامات میں سے ایک سمجھا جاسکتا ہے، اپنے لوگوں میں فلسطین کے اٹوٹ جذبے کا بہترین حصہ بننے میں بھی کامیاب رہی، جس نے ایک ہی وقت میں اسے استعاروں، وجدانوں اور تاثراتی حوالوں کے ساتھ شاعروں کے تخیلات کو ابھارا۔

نزار قبانی نے جب غزہ کے بچوں کی متت اور دشمن کے ساتھ شدید تصادم کی آگ میں ان کی ہمت کو دیکھا تھا تو لکھا کہ:

اے غزہ کے طلباء، جو کچھ تمہارے پاس ہے اس میں سے کچھ ہمیں سکھا دو، ہم بھول گئے ہیں۔
انہوں نے ہمیں مرد بننا سکھایا، کیونکہ ہمارے مرد آٹا بن گئے ہیں۔
انہوں نے ہمیں سکھایا کہ بچوں کے ہاتھوں میں پتھر کیسے قیمتی ہیرے بن جاتے ہیں۔

محمود درویش، سمیع القاسم نے اپنی کئی نظموں میں غزہ کی جدوجہد سے متاثر ہوکر غزہ شہر کی استقامت پر لکھا۔ شاعروں کی ایک بڑی تعداد کے باوجود جنہوں نے اپنی نظموں اور تحریروں کے ساتھ، بحیرہ روم کے شہر کی تاریخ کا ساتھ دیا، جو ڈیڑھ دہائی سے ایک دم گھٹنے والے محاصرے کا شکار ہیں، اس کے بارے میں معین بسیسو کی نظمیں ایک خاص ذائقے کی حامل تھیں، جن میں تناؤ تھا۔ غزہ کے ساتھ اپنے قریبی تعلق کی وجہ سے جہاں وہ سنہء 1926 میں پیدا ہوئے تھے، اور جہاں وہ اپنے بچپن اور جوانی کے دوران رہے تھے۔ اگر سنہء 1984 میں لندن میں دل کا دورہ پڑنے سے معین کی موت کے بعد ہونے والی تقریباً مکمل غفلت اور ابہام کا حوالہ انصاف پسندی کی سب سے کم وجہ ہے تو اس تناظر میں جو بات کہنے کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ “Trees Die Standing” کے مصنف اپنی زیادہ تر تحریریں مہاجر کیمپوں سے لکھتے رہے ہیں، اور جھونپڑیوں جیسے گھروں اور مقامات ان کے دل، یادداشت اور ضمیر کے قریب ہیں۔ مزاحمت کی پہلی علامات کے دوران، معین نے اپنی نظم “اسرائیلی قبضے کی رات کے وسط میں غزہ کی آنکھوں کی طرف” لکھی جس میں وہ کہتے ہیں:

دل اپنے پروں کو دور تک پھیلا کر اڑتا ہے۔

تیرے باغوں کے لیے، میرا سبز باغ، جہنم کی رات میں

اور تمہاری دیواریں سینوں کی طرح ابل رہی ہیں۔

میرا غرور، میرے خون کو اندھیروں میں زنگ نہیں لگا

چنانچہ آگ نے حملہ آوروں کے بھوسے کو جلا دیا۔

اور ہوا میں میرے خون کی چنگاریاں

غزہ صدیوں سے مختلف ادوار میں ظالم، استعمار، اور حملہ آوروں کو یکساں ملامت کرتا ہے۔ غزہ کے مکینوں کو حالات نے صرف جنگوں میں ہی دھکیلے رکھا ہے، وہاں خون کی جگہ پھول کی خوشبو بھی مہک سکتی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

الشرق الاوسط کے ایک مضمون کی مدد سے لکھی گئی پوسٹ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply