شہوت کی بھوک اور چار شادیاں /ارشد خان آستِک

شادی شدہ زندگی اچھی ہوتی ہے یا بغیر شادی کے؟ کیا شادی ہی زنا کی لَت سے منع کرنے کا واحد کافی ذریعہ ہے؟ کیا اسلام میں شادی کا مقصد واحد صرف جنسی خواہش کی تسکین ہے؟ کیا چار شادیاں لازم ہے یا دراصل ایک شادی پر ہی زور دیا گیا ہے؟ محض چسکے کے لیے جلد ہی چارشادیوں کی سنت کا جواز پیش کرنے والے مردوں نے کبھی یہ بھی غور کیا ہے کہ پہلی بیوی کی حیات تک دوسری شادی نہ کرنا بھی سنت رہی ہے؟ بیویوں میں انصاف کرنے یعنی ان کے حقوق پورا کرنے سے تفصیلی مراد کیا ہے؟ کیا بڑھتی آبادی نقصان دہ ہے؟ کیا شہوت کی بھوک بجھانے سے بھجتی یا مزید بڑھتی ہے؟

بھئی جن کے لیے زنا کوئی مسئلہ نہیں ہے انہیں شادی نہ کرنے کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ بلکہ انہیں اُلٹا شادی سے پریشانی ہوتی ہے کیونکہ شریک حیات کی نگرانی اور  تمام یا اکثر وقت شریک حیات اور پھر بچوں کو دینے اور ان کی ذمہ داریاں نبھانے کی وجہ سے ایسوں کو ناجائز چکر چلانا مشکل ہوجاتا ہے۔ تو ایسے لوگ پھر پریشان  رہتے ہیں۔ چونکہ مختلف ذائقوں کے عادی ہوتے ہیں اس لیے ایک ہی شریک حیات کے ساتھ ہربار اور عمر بھر جنسی تعلق استوار رکھنے سے اُکتا بھی جاتے ہیں۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ شریک حیات ہر وقت خوبصورت رہ بھی نہیں پاتا نہ ہی ہر وقت ملاپ کے لیے  تیار  رہ سکتا ہے۔ ہر وقت حالات ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ ایسے لوگ بھی شادی شدہ زندگی سے بور ہوجاتے ہیں جو اپنے تئیں شادی کو محض جنسی خواہش پوری کرنے کا ہی ایک ذریعہ سمجھ کر اس توقع کے ساتھ شادی کرتے ہیں اور فحش موویزیکھ دیکھ کر یا فحش لٹریچر  پڑھ پڑھ کر یا بُری صحبت کی وجہ سے یا پھر غلط فہمی کی وجہ سے ان کی ذہنیت ایسی بنی ہوتی ہے تو ایک عام انسان کی نسبت ان میں جنسی خواہش کی لگن کہیں آگے بڑھ چکی ہوتی ہے۔ حالانکہ شادی ایک وسیع اصطلاح ہے یہ نسل انسانی کی بقاء اور تعلیم و تربیت اور ملک کی تعمیر و ترقی کا ذریعہ ہے ؛ ایک نئے خاندان کی تعمیر کا لانگ ٹرم پراجیکٹ ہے۔ ایک تعمیری مصروفیت ہے۔ صرف جنسی ذہنی عیاشی ہی پورا کرنا شادی کا ہر گز مقصد واحد نہیں ہے۔

جہاں تک دوسری طرح کے لوگوں کا تعلق ہے جو مذکورہ کیٹیگریز میں شامل نہیں ہیں تو ان لوگوں کو شادی نہ کرنے سے ٹنشن اور ڈیپریشن اور شدید اکتاہٹ کے مسائل پیش آتے ہیں۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ  پاگل ہونے لگتے ہیں ۔ یہ میں اکثریت کی بات کر رہا ہوں۔  اِکّا دُکّا  کیسز کی بات الگ ہے۔ ایسے سوپر ہیومن ہوسکتے ہیں جنہیں مذکورہ مسائل پیش نہ آتے ہوں مگر وہ ہزاروں بلکہ لاکھوں میں ایک آدھ ہوں گے۔ شادی سے پہلے جن کو زنا کی لت نہ پڑی ہو شادی کے بعد آسانی سے نہیں پڑ سکتی۔ ہاں رئیر کیسز میں تو کچھ بھی ہوسکتا ہے جیساکہ پہلے ہی بتایا۔ کچھ لوگ شادی کے بعد بھی زنا کا شکار ہوسکتے ہیں لیکن شادی کے بعد زنا کرتے رہنے والوں کی اکثریت انہی لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جو شادی سے پہلے ہی عادی ہوچکے ہوں ۔ زنا ایک عادت ہے ؛ نفس کو زیر کرنا ہی اس کا مکمل حل ہے نہ کہ شادی۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں شادی سے زناکاری کی عادت چھوٹ جائے گی حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ عادت سے لڑنا پڑتا ہے۔ دماغ کو ڈیٹاکسیفائی کرنا پڑتا ہے اور پھر نئے ٹریک یعنی متبادل نئی عادت پر ڈالتا ہوتا ہے۔

اس ضمن میں یہ بھی بات یاد رکھیں کہ اسلام میں چار شادیوں کی اجازت کا بھی ہرگز محض مرد کی جنسی آسودگی اور عیاشی کا  بندوبست کرنا ہی مقصد واحد نہیں ہے بلکہ چار شادیوں کی اجازت اس لیے ہے کہ ایک باروزگار اور صاحب استطاعت مرد معاشرے کا سہارا بنے کیونکہ اوورآل دنیا میں عورتوں کی تعداد مَردوں سے کئی گنا زیادہ چلی آرہی ہے۔ بعض عورتیں بیوہ ہوجاتی ہیں تو انہیں از سر نو شوہر کے سہارے کی ضرورت پیش آجاتی ہے۔ اسی طرح اگر ایک صاحب استطاعت بندے کے چار شادیوں کے نتیجے میں زیادہ بچے پیدا ہوجاتے ہیں اور وہ ان کی مناسب دیکھ بھال کرکے انہیں باروزگار اور کامیاب انسان بنالیتا ہے تو اس سے اوورآل ملک کی  افرادی قوت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور صحت مند معاشرے وجود میں آتے ہیں۔ چائنا اور انڈیا نے کارآمد منصوبوں کے ذریعے اپنی بڑھی ہوئی آبادی کو اپنے لیے بلیسنگ بنایا ہوا ہے۔ ویسٹرن  ممالک  میں آبادی کے  شدید فقدان کی وجہ سے روس کینیڈا اور کئی دیگر ممالک غیر ملکیوں کے لیے اپنے ٹھنڈے علاقوں جہاں کی آبادی کم ہے میں بسانے کے لیے نیشنلٹی کی  نرم شرائط رکھتے ہیں۔

بڑھتی آبادی اگر کسی ملک کے لیے مسئلہ بن رہی  ہے تو اس کا سیدھا سادھا مطلب وہاں کے صاحب اقتدار لوگوں کی غلط پالیسیاں ہیں۔ اکنامکس ریفارمز ڈیزائن کرنے کی نسبت یہ ایک آسان رستہ ہے کہ آبادی پر قابو پالیا جائے۔ حکومت کی تو اپنی  رعایہ کا خیال رکھنے کی ذمہ داری ہے ہی لیکن ایک حد تک قصور سربراہ خانہ کا بھی ہے جو کہ محض اللہ رازق ہے کے نعرے کے پیچھے اولاد کے حقوق سے نگاہیں چراتا ہے۔ اللہ بے شک رازق ہے مگر اولاد کے حقوق بھی اسی اللہ نے مقرر کیے ہیں اور وہ اللہ اولاد کے حقوق کے بارے میں آپ سے ٹھیک ٹھاک پوچھے گا۔ بچے صرف پیدا کرنا ہی نہیں ہوتے بلکہ آپ یہ بھی دیکھیں کہ آپ ذاتی طور پر خود کتنی استطاعت رکھتے ہیں ان کے حقوق پورے  کرنے کی یا مستقبل کے لیے اس حوالے سے آپ کے پاس کیا ٹھوس پلان ہے۔ انسان نے محض جانوروں کی طرح بچے نہیں پیدا کرنے ہوتے بلکہ انسان کی ذمہ داریوں میں نہ صرف ایک خاص وقت تک ان کی کفالت بلکہ بعد میں انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے حتٰی کہ ان کی شادیاں کرواکر انہیں مکمل کامیاب کرنے تک کی تمام تر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگر آپ استطاعت نہیں رکھتے چار بیویوں اور ان سے پیدا ہونے والی ممکنہ اولاد کے حقوق پورا کرنے کی تو سرکار پھر آپ زیادہ شادیاں کرکے ظلم ہی کر رہے ہیں۔ حقوق آپ پورے  کرنے کے پوزیشن میں اگر نہیں ہیں پھر چار تو کیا ایک بھی نہیں کرنی چاہیے۔ حقوق ایک وسیع اصطلاح ہے جس میں شریک حیات کی جنسی خواہش سے لے کر اسی شریک حیات کی اور پھر آگے پیدا ہونے والی اولاد کی نہ صرف معاشی ضروریات پوری کرنا بلکہ اس اولاد کو مکمل کامیابی دلانے تک کا سفر ہے۔ اگر آپ کوئی ذریعہ معاش یا کہیں سے بھی مطلب مالدار والدین کی طرف سے یا سسرال کی طرف سے یا پھر ہونے والے شریک حیات کی طرف سے کوئی مناسب اور قدرے مستقل معاشی سپورٹ نہیں رکھتے تو بھی میرا نہیں خیال کہ شادی کے لیے آپ کو آگے بڑھنا چاہیے۔ کیونکہ ظاہر ہے شریک حیات اور پھر اولاد کو آپ زندگی بھر بھیک مانگ کر تو نہیں پال سکتے۔ رسول کریم  ﷺ نے بھی جو شادیاں کی تھیں ان میں  معاشرے کی بقاء کی بیش بہا حکمتیں پوشیدہ  تھیں۔ ان کی ایک ایک شادی کے پیچھے معاشرتی فلاح کا پورا ایک فلسفہ چھپا ہے۔ غیر ضروری طور پر نعوذ بااللہ انہوں نے محض شادیاں ہی شادیاں نہیں کی ہیں۔ جس طرح کا رنگ آج کل کے مرد چار شادیوں کی اجازت کو دے رہے ہیں اگر ایسا ہوتا تو آپ  ﷺ  حضرت خدیجہ رض کی موجودگی میں چار کی چار بلکہ دیگر شادیاں بھی کرتے لیکن آپ دیکھیں کہ انہوں نے حضرت خدیجہ رض کی حیات تک دوسری شادی نہیں کی۔ اس لیے اگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ بیک وقت کئی عورتوں سے شادی سنت ہے تو پھر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ پہلی بیوی کی حیات تک دوسری شادی نہ کرنا بھی تو سنت رہی ہے۔ اس کا سادہ سا مطلب یہی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ غیر ضروری طور پر محض   جنسی خواہش کو بطور واحد مقصد لے کر کثیر شادیاں کرنے کی اسلام حوصلہ افزائی نہیں کرتا ۔اگر ایسا ہوتا تو پھر تو چار شادیوں سے بھی زیادہ کی اجازت ہوتی کیونکہ بدلتے  جنسی ذائقوں کے عادی مرد کو تو چارشادیوں سے بھی جنسی سکون ملنا نا ممکن ہے۔ ایسے مرد کے لیے کوئی عورت صرف تب تک خوبصورت ہوتی ہے جب تک وہ اس کی  دسترس میں نہ ہو ،جب آجاتی ہے تو اس کی ویلیو بھی ختم ہوجاتی ہے پھر ایسا مرد نئی ڈھونڈتا ہے۔ اور یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ دنیا میں ایک سے بڑھ کر ایک حسین موجود ہے۔ اگر نظر کی بھوک کی یہ لت پڑجائے تو سینکڑوں شادیاں کرنے کے باوجود بھی انسان بھوکا ہی رہے گا۔ جنسی سکون حاصل کرنے کا ایک ہی رستہ شہوت کو انڈرکنٹرول اور ایک پیٹرن میں رکھنا ہے اور شہوت وہ واحد کُتا ہے کہ اگر بے قابو ہوجائے تو محرم رشتے ؛ بچے ؛ جانور حتٰی کہ قبروں میں پڑی تازہ میتیں بھی پھر محفوظ نہیں رہتیں۔

ایک مولوی دوست کا کہنا تھا کہ دوسری شادی اس لیے ضروری ہے کہ ایک بیوی کو کبھی کبھار حیض کی وجہ سے تو کبھی بچے کی پیدائش کے آخری ایام میں خطرے یا تکلیف کی وجہ سے انسان جنسی خواہش کے لیے استعمال نہیں کرپاتا تو ہمارے ایک دوسرے دوست نے ان کو جواب دیا کہ عورت اپنے خاوند کے لیے کتنا برداشت کرتی ہے، تو خاوند اتنی کمزور قوت برداشت والا ہے کہ اس کی خاطر صرف چند مخصوص ایام تک شہوت نہیں دباسکتا؟ تو کُل مِلاکر بات یہ ہوئی کہ آپ کو بہرحال شہوت کے معاملے میں قناعت اختیار کرنی ہے۔ شہوت کو فری ہینڈ نہیں دینا۔ مولانا روم سے منسوب ایک قول ہے کہ شہوت وہ واحد بھوک ہے ،جو مٹانے سے نہیں بلکہ کنٹرول کرنے سے ختم ہوتی ہے۔ شہوت خاندانی سسٹم کی  شروعات اور برقرار رکھنے کے لیے اللہ کی جانب سے صرف بطور ایک ایگنئٹر انسان میں انٹروڈیوس کردیا گیا ہے اور بس اس کو یہی مقام دے نا  کہ زندگی کا مقصد ہی سمجھا جائے۔ ان فیکٹ زندگی کا کوئی بھی واحد مقصد نہیں ہے بلکہ ہر مقصد کو اپنے کردار کے حساب سے مناسب وقت اور انرجی دینی ہوتی ہے۔ دین اسلام اعتدال کا درس دیتا ہے نہ کہ کسی بھی ایک ہی مقصد یا کام کو انتہاء پسندی اور جنون کی حد تک اپنانے کا ۔ ہاں صرف   شہوت پوری کرنے کا مقصد نہ ہو بلکہ اور کوئی  جینوئن  پرابلم ہو تو میں ایک شاہ رخ خان کی  فلموں کے  ہیرو اور ہیروئن کی طرح جو آپس میں بس ایسے ہی ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھاتے ہیں کہ کبھی کسی تیسری عورت کو بیچ نہیں آنے دیتے یعنی ہندوؤں کی طرح شدید مجبوری کے باوجود بھی ایک ہی شادی پر اکتفاء کرنے اور بس شوہر کی وفات کے بعد بیوی کا بھی ساتھ میں زندہ درگور ہونے کا بھی حامی نہیں ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ددچار شادیوں تک بے شک اجازت ہے اگر عورت میں کوئی ایسا مسئلہ  ہو کہ اولاد پیدا نہ ہورہی ہو اور واقعتًا مسئلہ عورت میں ہو۔ حد سے زیادہ معذور یا بیمار ہوجائے وغیرہ وغیرہ۔ بالکل اسی طرح اگر مرد میں مسئلہ ہے تو عورت کو خلع  کا مطالبہ کرنے کا حق ہے۔

Facebook Comments

ارشد خان آستِک
ارشد خان آستِک تجزیہ کار ؛ شاعر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply