غزہ!ہم شرمندہ ہیں/ڈاکٹر اظہر وحید

اے غزہ اور اہلِ غزہ! ہم شرمندہ ہیں۔ ہم شرم سے گڑے جا رہے ہیں، ہم اپنے ساتھ بھی نظریں نہیں ملا سکتے۔ ”بای ذنب قتلت“ …… گویا قیامت کے روز ہم سے تمہارے بارے میں جب پوچھا جائے گا ”تجھے کس جرم میں قتل کیا گیا“ تو مجرمین کی ایک صف میں ہم بھی کھڑے ہوں گے۔ ہم اپنے گناہوں کا اعتراف ابھی سے کیے دیتے ہیں۔

غزہ! ہم شرمندہ ہیں …… تیری یہ حالتِ زار ایک دن میں یہاں تک نہیں پہنچی …… بلکہ برسوں اور عشروں کے پیہم مظالم نے تجھے اس حال میں پہنچایا ہے۔ تجھ پر ظلم ہوتا رہا اور ہم خاموش تماشائی بنے رہے۔ علامتی قراردادیں پاس کرنے کے سوا ہم کچھ نہ کر سکے۔ جنہوں نے کچھ کرنا تھا، وہ تجھ پر ظلم کرنے والوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ وہ سب اربابِ اختیار تیرے سینے پر صیہونیت کا خنجر گھونپنے والوں کے خاموش ساتھی تھے۔

غزہ …… ہم شرمندہ ہیں۔ ہم ایک ہجوم ہیں، قوم نہ بن سکے۔ ایک ملت نہ بن سکے۔ ہم ایرانی، افغانی، ترکمانی اور سعودی پہلے ہیں اور مسلمان بعد میں۔ سب سے پہلے مسلمان کا نعرہ لگانے کے بجائے ہمیں بھی ”سب سے پہلے پاکستان“ کا سبق پڑھنے پر مجبور کر دیا۔ یہ سبق ہمیں بندوق کی نوک پر پڑھایا گیا۔ ہمیں اپنا سبق بھول گیا۔ جو قوم اپنا سبق بھول جاتی ہے، انہیں اغیار اپنا سبق پڑھانے آن وارد ہوتے ہیں …… وہ سبق پڑھاتے ہی نہیں، سکھاتے بھی ہیں۔

صحنِ حرم میں اللہ کے آخری نبیؐ نے ہمیں یہ سبق دیا تھا کہ کسی گورے کو کالے پر، کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں۔ اسی سرزمین میں ہم نے اسی سبق سے روگردانی شروع کر دی۔ عربی اور عجمی کا فرق ابھی تک برقرار رکھا۔ گوری چمڑی دیکھ کر ہم نرم پڑ جاتے ہیں اور اپنے ہم رنگوں کے لیے رنگ رنگ کے قانون کا پھندا تیار رکھتے ہیں۔ عرب و عجم میں فرق ایک طرف …… ہم عراقیوں، شامیوں اور فلسطینیوں میں بھی فرق روا رکھے ہوئے ہیں۔ اے غزہ! ہم شرمندہ ہیں۔

ہمیں یہ سبق دیا گیا تھا کہ بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔ ہم چھ کے چھ کلموں کے حافظ بنتے رہے لیکن کلمہ حق کہنا بھول گئے۔ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی روایت دم دوڑ گئی اور نتیجہ کربلا کی صورت میں ہمارے سامنے آ گیا …… بحیثیتِ مجموعی تاریخ کے اوراق میں اب یہ امت سانحہ کربلا کا داغ اپنے دامن سے کبھی نہ دھو سکے گی۔
تا قیامت رہے گی شرمندہ
کربلا میں فرات کی خوشبو
ہم ملوکیت کے سامنے سرنگوں ہو گئے۔ ہم نے اپنے بادشاہوں کو اولی الامر اور ظلِ الہ کا درجہ دیے رکھا۔ ملوکیت کو شعوری طور پر قبول کر لینے کی سزا یہ ملی کہ ہماری فکری نشو و نما مفقود ہو کر رہ گئی۔ حریتِ فکر، فکر کی نمو کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنی ایک نوخیز کونپل کو کھلنے کے لیے آکسیجن ضروری ہوتی ہے۔ ہمارے اجتماعی فکر کی کلیاں عہدِ ملوکیت میں کھل نہ سکیں۔ جبر اور استبداد کی مسموم فضا میں یہ کلیاں مرجھا گئیں۔ جنہوں نے جدو جہد کی، انہیں نوچ لیا گیا۔ بیربل اور ملا دوپیازہ جیسے خوشامدی اور چرب زبان ہمارے دانشور کہلائے، قاضی شریح جیسے ہمارے قاضی القضاۃ مقرر ہوئے۔ بادشاہوں کی خواہش پر منصورؒ اور سرمدؒ کے لیے قتل کا فتویٰ جاری رکھنے والے ہمارے مفتی قرار پائے۔

ہمیں یہ سبق دیا گیا تھا کہ مسلمان ایک جسدِ واحد کی طرح ہیں، کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو پورا بدن اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔ ہم نے اسے جسدِ واحد نہ رہنے دیا۔ عرب و عجم میں تقسیم ہونے سے پہلے ہم امرا و غربا میں تقسیم ہو چکے تھے۔ اپنے دل میں اچھے اور بُرے کی تمیز ختم کرنے سے پہلے ہم امیر اور غریب کی تقسیم کے دل سے قائل ہو چکے تھے۔ ہم نہ صرف خود ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے، بلکہ اپنے دین کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ اگر ہم جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے پر کھڑے رہتے تو ہماری صفوں میں کوئی آمر پیدا نہ ہوتا، کوئی تخت نشین اپنا تخت بچانے کے لیے دین و ملت کے ساتھ کھلواڑ نہ کرتا۔ لیکن ہم نے عظمت کا راستہ، بہترین جہاد کا راستہ، ترک کر دیا اور رخصت کا راستہ اپنا لیا۔ سر دینے کے بجائے سر بچانے کی روش عام ہو گئی، در آن حالے کہ رخصت ایک استثنائی راستہ تھا، اور عظمت کا راستہ ایک فریضے کی حیثیت رکھتا تھا۔ عظیمت کے راستے کو چھوڑنے کی سزا ہزیمت تھی۔ ہماری ترجیحات بدل گئیں۔ سب لوگ اپنی روٹی روزی بچانے کی فکر میں پتلی گلی سے نکل گئے۔ انجامِ کار عظمت کے راستے پر چلنے والے شہید ہو کر اپنی باطنی منزل تک تو پہنچ گئے لیکن امت نے اپنے امام کو کھو دیا اور ابھی تک راستے میں بھٹک رہی ہے۔ اے غزہ! ہم شرمندہ ہیں …… ہماری شرمندگی کی داستان فرات کے کنارے سے لے کر تیرے مغربی کنارے تک پھیلی ہوئی ہے۔

ہم نبیؐ کے فرمان کو بھول گئے، ہم اللہ کے قرآن کو بھول گئے۔ ہمیں قرآن نے حکم دیا تھا کہ اپنے گھوڑے تیار رکھو، یعنی جنگ کا بھرپور ساز و سامان تیار رکھو، تاکہ تمہارے دشمن مرعوب ہو جائیں اور وہ دشمن بھی جنہیں اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ یعنی ہماری صفوں میں منافقین …… جن کے جسم ہمارے درمیان ہیں اور دل کافرین کے ساتھ ہیں۔ جو ہمیں کافرین کی تیاریوں سے ڈراتے ہیں، ہمارے عزم کی توہین کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ وہ جو ہمیں غریبی سے ڈراتے ہیں، ابلیس کے ساتھی ہیں، وہ جو کہتے ہیں کہ گھر میں کھانے کو نہیں، تم جہاد کرنے چلے ہو۔ جہاد سے پہلے جہاد کی آواز کو دبا دیا گیا۔ مغرب کے نصاب میں ہمارے ہیرو ایک ولن کے طور پر رقم ہیں، اور وہ سارا نصاب سائنس سمجھ کر ہم نے اپنے بچوں کو پڑھا دیا۔ ہم اپنی نوجوان نسل کے شعور کی رگوں میں یوں زہر اتارتے رہے۔ ہم اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ کرنے کے نام پر مغرب کا فکری اتحادی بناتے رہے۔

ہم قرآن کے فرمان کو بھول گئے کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے، آخر تم جہاد کے لیے کیوں نہیں نکلتے، ظالموں کے نرغے میں گھرے ہوئے ان کمزور لوگوں، عورتوں اور بچوں کی مدد کو کیوں نہیں پہنچتے جو دن رات اپنے رب کو مدد کے لیے پکارتے ہیں۔ ہم ہر سال ستاون ملکوں سے پچیس لاکھ افراد حج کے لیے بھیج دیتے ہیں، لیکن کبھی یہ خیال نہیں کیا کہ عالمِ اسلام پچیس لاکھ فوجی فلسطین بھیج دے۔ تمام اسلامی ملکوں کی افواج کو جمع کیا جائے تو یہی تعداد بنتی ہے، لیکن شومئی قسمت کہ ہر ملک کی فوج صرف اپنی ریاستوں اور بادشاہتوں کو بچانے کے لیے کھڑی کی گئی ہے۔ بس وہی بات کہ ہماری بندوقوں کا رخ ہمارے دشمنوں کے بجائے ہماری اپنی طرف کر دیا گیا ہے۔ ان ستاون ملکوں میں، جو خود کو مسلمان ملک بھی کہتے ہیں، ہر طرح کے وسائل موجود ہیں۔ افرادی قوت میں یہ دنیا کی ایک چوتھائی ہیں، ان کے ہاں ایٹمی قوت بھی موجود ہے، بہترین آرمی سے یہ لیس ہیں، تیل کا ہتھیار بھی ان کے پاس ہے اور دولت کی بھی ریل پیل ہے، لیکن ان وسائل اور قوتوں کو ہماری نااتفاقی نے تقسیم کر دیا ہے۔ منقسم قوت کمزوری ہوتی ہے۔ مجتمع تنکے بھی ایک لاٹھی بن کر برستے ہیں۔ عجب بات ہے ہم نے آپس میں ایک دوسرے کو مارنا ہو تو ہتھیار استعمال کرتے ہیں اور یہود و ہنود سے مقابلہ کرنا ہو تو دعاؤں کی مار دیتے ہیں۔ اے غزہ اور اہلِ غزہ! ہم شرمندہ ہیں، ہمارے ہتھیار تمہارے کام نہ آئے۔ ہم یہ بھول گئے کہ آج اگر یہ تمہارے کام نہ آ سکے تو کل ہمارے بھی کام نہ آئیں گے۔

قرآن میں ہمارے لیے واضح فرمان موجود ہے کہ یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست و سرپرست نہ بناؤ، یہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ ہم اس فرمان کو طاقِ نسیاں میں رکھ چکے ہیں۔ کبھی ترقی کے نام پر، کبھی مصلحت کے نام اپنوں کو چھوڑ کر غیروں کو گلے لگاتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ، ایک کے بعد ایک، سب کے گلے کاٹتے رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اے غزہ! ہم شرمندہ ہیں …… تیرے لہو کے غازے میں ہماری غفلت اور لاپروائی کا ہاتھ ہے۔ چالیس برس قبل حضرت واصف علی واصفؒ کا ایک قول نوشتہ دیوار بن کر سامنے آ چکا ہے: ”دشمنانِ اسلام متحد ہیں اور مسلمان متحد نہیں۔ دوستوں کی لاپروائی دشمن کی اصل طاقت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply