• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • فلسطین کو ضم کرنے کا اسرائیلی پلان اور کشمیر (حصہ اوّل)۔۔۔افتخار گیلانی

فلسطین کو ضم کرنے کا اسرائیلی پلان اور کشمیر (حصہ اوّل)۔۔۔افتخار گیلانی

گو کہ جموں و کشمیر اور فلسطین کے خطے سیاسی، سماجی اور جغرافیائی اعتبار سے کوسوں دور ہیں، مگر تاریخ کے پہیوں نے ان کو ایک دوسرے کے قریب لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ دونوں خطے تقریباً ایک ساتھ 1947-48ء میں دنیا کے نقشہ پر متنازعہ علاقوں کے طور پر ابھرے۔ کئی جنگوں کے باعث بھی بنے اور پچھلی سات دہائیوں سے نہ صرف امن عالم کیلئے خطرہ ہیں، بلکہ مسلم دنیا کیلئے ناسور بنے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں خون خرابہ ہو یا بھارت،پاکستان مخاصمت ، یا مغربی ایشیا میں یمن و شام و لیبیا کی خانہ جنگی یا ایران، ترکی، سعودی عرب و مصر کی آپسی چپقلش، اس سبھی کے پیچھے کسی نہ کسی صورت میں کشمیر اور فلسطین کے مسئلے چھپے بیٹھے ہیں۔ لہذا د نیااگر ان دو مسائل کو باہمی افہام و تفہیم ، فریقین کی رضامندی اور ان خطوں میں رہنے والے عوام کی رائے کے مطابق حل کرنے کی جستجو کرلے ، تو دنیا کے دیگر مسائل خود بخود حل ہوجائینگے۔ بھارت نے 5اگست 2019ء کو جس طرح یکطرفہ کارروائی کرکے ریاست جموں و کشمیر کے دو ٹکڑے کرکے اس کی نیم داخلی خود مختاری کو کالعدم کردیا، کچھ اسی طرح اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو بھی یکم جولائی کو فلسطین کے مغربی کنارہ کے 30فیصد علاقہ کو اسرائیل میں ضم کرنے کے فکر میں تھے۔ فی الحال انہوں نے اس منصوبہ کو التوا میں رکھا ہے، کیونکہ بھارت کے برعکس اسرائیل میں ان کو فوج ، اپوزیشن اور بیرون ملک آباد یہودیوں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ناروے کے شہر اوسلو میں 1993ء اور 1995 ء میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے درمیان طے پائے گئے سمجھوتہ میں ایک فلسطینی اٹھارٹی کا قیام عمل میں آیاتھا۔ جس سے 4 ملین کی آبادی کو دو خطوں مشرق میں غزہ اور اردن کی سرحد سے متصل مغربی کنارہ میں تقسیم کیا گیاتھا۔ نسبتاً وسیع مغربی کنارہ کا انتظام الفتح کی قیادت والے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن یعنی پی ایل او کے پاس ہے ، وہیں غز ہ میں اسلامک گروپ حمص بر سر اقتدار ہے۔جس طرح بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 2014ء اور2019ء کے انتخابات میں کشمیر کی آئینی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور علیحدہ شہریت کا قانون ختم کرنے کے نام پر ہندو قوم پرستوں کو لام بند کرکے ووٹ بٹورے، کچھ اسی طرح نیتن ہاہو نے بھی یہودی انتہا پسند طبقے کی حمایت حاصل کرنے کیلئے فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کا شوشہ چھوڑا۔ جس علاقہ کو وہ اسرائیل میں ضم کروانا چاہتے ہیں، وہاں 65ہزار فلسطینی اور 11ہزار یہودی آباد ہیں۔اوسلو اکارڈ کی رو سے مغربی کنارہ کو تین حصوں میں بانٹا گیا تھا۔ ایریا سی میں مغربی کنارہ کا 60فیصد علاقہ آتا ہے اس میں تین لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔ یہی علاقہ اسرائیل کی نظروں میں کھٹکتا ہے۔ مغربی ایشیا میں اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کی اس بازی کا ایک مثبت پہلو یہ رہاہے کہ اسرائیلی سیاست میں فلسطین کو ایک بار پھر مرکزیت حاصل ہوئی ہے۔ عرصے سے اسرائیلی سیاسی جماعتیں تو مسئلہ فلسطین پر بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتی تھیں۔ بھارت اور کشمیر کے برعکس نیتن یاہو کے پلان پر اسرائیل کے اندر خاصی مزاحمت ہو رہی ہے۔ سب سے زیادہ مزاحمت تو اسرائیلی فوج کی طرف سے ہی ہو رہی ہے۔ پچھلے ہفتہ 270سابق فوجی جرنیلوں، بشمول اسرائیلی خفیہ ادراروں موساد و شین بیٹ کے افسرا ن نے ایک مشترکہ خط میں نیتن یاہو کو اس پلان سے باز رہنے کی تلقین کی۔ انکو خدشہ ہے کہ اس قدم سے کہیں محمود عباس کی زیر قیادت فلسطینی اتھارٹی تحلیل نہ ہوجائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو فوج کا ایک بڑا حصہ اسکو کنٹرول کرنے میں مصروف رہیگا، اور زیادہ تر وقت لا اینڈ آرڈر ڈیوٹیاں دینے سے اسکی جنگی کاردگری متاثر ہوگی۔ اندرون خانہ ذرائع نے راقم کو بتایا کہ اس حوالے سے امریکی انتظامیہ میں بھی گھمسان آن پڑا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے داماد ااور مشیر جیرالڈ کوشنر اور اسرائیل میں امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین کے درمیان اس مسئلہ پر خاصے اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔ کوشنر جس نے ٹرمپ کا مڈل ایسٹ پلان یعنی ڈیل آف دی سنچری ترتیب دیا ہے، کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کے فلسطینی علاقوں کو ضم کرنے کے فیصلہ سے امریکی پلان کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔اس سال جنوری میں جب صدر ٹرمپ ، نیتن یاہو کی معیت میں وائٹ ہاوس میں اپنے پلان کو ریلیز کر رہے تھے، تو سامعین میں عمان، بحرین اور متحدہ عرب امارات کے سفیروں میں شامل تھے۔ جس کا یہی مطلب لیا گیا کہ اس پلان کو ان عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے۔کوشنر کا خیال تھا کہ وہ جلد ہی مصر، سعودی عرب اور اردن کو بھی اس پلان پر راضی کروائیگا۔ حال ہی میں امریکہ کی طاقتور یہودی لابی نے کورونا وائرس کی وبا کے دوران ہی اپنا ایک اعلیٰ سطحٰ وفد ان ممالک کے دورہ پر بھیجا تھا، جہاں ان کو واضح طور پر بتایا گیا کہ مغربی کنارہ کو ضم کرنے کے پلان کے بعد وہ ٹرمپ کے پلان کو حمایت نہیں دے پائیں گے۔ اردن نے بھی خبردار کر دیا کہ نیتن یاہو کے منصوبہ سے خطے میں حالات انتہائی خراب ہوسکتے ہیں۔ ان ذرائع نے راقم کو بتایا کہ کوشنر فی الحال خلیجی ممالک کی ناراضگی مول لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے، کیونکہ ان ممالک میں اس کے کئی منصوبے پھنسے ہوئے ہیں۔ نیتن یاہو کا یک طرفہ پلان اس کے کئی منصوبو ں پر پانی پھیر سکتا ہے۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply