• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • غزہ کے نہتے شہریوں پر دانشوروں کی بمباری/رشید یوسفزئی

غزہ کے نہتے شہریوں پر دانشوروں کی بمباری/رشید یوسفزئی

انسانی تاریخ میں بعض اچانک ظہور پذیر ہونے والے واقعات فوری طور پر درست تجزیے سے گریزاں ہوتے ہیں۔ یہ تجزیہ گریز analysis defying واقعات متعلقہ زمان و مکان پر مقیم باسیوں کے وہم و گمان سے وراء، خفیف ترین توقعات، دور بینی و دور اندیشی اور مستقبل بینی کے بالکل برعکس چشم زدن میں رونما ہوتے ہیں اور پولیٹکل سائنس ، انفارمیشن و انٹیلی جنس کے ماہرین سمیت عالمی بساط پر متحرک و متمرکز تمام مضبوط اعصاب اور قوی اذہان کو ہلا کے رکھ دیتے ہیں۔

ایسا ہی واقعہ سات اکتوبر کا تھا۔ تقریباً  ہفتہ گزرنے کے باجود یہ واقعہ ابھی تک کرنٹ افئیرز، مڈل ایسٹ ، سیاست اور انفارمیشن و انٹیلی جنس کے ماہر ین کی درست تجزیاتی گرفت سے باہر ہے۔ ان چھ دنوں میں عرب نیوز، خلیج ٹائمز، الجزیزہ  ، بی بی سی، گارڈین، نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ کے تجزیوں کو بلاناغہ پڑھتا آیا ہوں۔ ہر اداریہ اور ہر کالم نگار لمحہ اوّل سے اب تک واقعات کے تسلسل کو پس و پیش کرکے تقریباً ایک جیسے مترداف و نیم مترد ف میں بیان کرتے ہیں۔ جو رٹے رٹائے تاریخی نکات دہائیوں سے زبان زد عام چلے آر ہے ہیں انہی  پر جگالی ہو رہی ہے۔ تھیوڈور ہرزل نے یہ کیا، عثمانیوں نے وہ کیا۔ سر آرتھر بالفور نے یہ قرار داد پیش کی  ، چرچل اور مارگریٹ تھیچر نے وہ تجویز ، اوسلو معاہدہ میں یہ قرار پایا ، کیمپ ڈیوڈ میں وہ۔۔وغیرہ وغیرہ۔ کوئی تازہ نکتہ ، کوئی نیا نکتہ  ابھی تک بمشکل ہی نظر آیا ہے۔ واقعے کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ عالمی اعصاب ٹھنڈے اور پُرسکون ہونے پر ہی اس کا ہارڈ بوائلڈ اور حقیقت  پسندانہ تجزیہ ممکن ہوگا۔

تجزیہ و تشریح کیلئے ماہر عموماً مثال، Prescendent, مواز نے اور قیاس و analogy کا سہارا لیتے ہیں ۔ ابھی تک اکثر ماہرین سات اکتوبر کو نائن الیون کے بعد مغربی ذہن کیلئے دوسرا  بڑا  دھچکا قرار دے رہے ہیں اور بس۔ اور نائن الیون سے یہ تشبیہ یا محض اسی لسانیاتی کونٹیکسٹ میں سات اکتوبر کی توضیح ہی اس حقیقت کو سمجھانے کیلئے کافی ہے کہ ایک معمولی تنظیم نے صرف ایک اسرائیل نہیں، بلکہ ان کے سرپرست و ہمکار تمام فرسٹ ورلڈ معاشی ، سیاسی و ٹیکنالوجیکل پاورز کے ناقابل شکست دفاعی سسٹم میں کتنا بڑا ڈینٹ کیا ہے۔ اسرائیل کے تین بڑے انٹیلی جنس ایجنسیاں شین بیت، امن اور حضرت موسیٰ کے نام پر بننے والی موساد اپنی مہارت، تکنیکی استعداد و مستعدی ، اپنے  وسیع نیٹ ورک، اپنے لا محدود وسائل اور ایسیٹس کی  بناء پر ایک اسطورہ myth کی شکل اختیار کر گئی تھی۔ انہیں Argus eyed اور جناتی نظر و نگاہ رکھنے والے اداروں کی  ناک کے نیچے تیاری و تربیت کرکے چند حریت پسند جوانوں نے دہائیوں سے قائم ان اداروں کی  دھاک و دہشت زیر و زبر کی۔ یہودی ذہن کی  معجزانہ تخلیقی و تجزیاتی صلاحیت کو مات دی۔

گلوبل میڈیا پر تمام ذہنی و مادی و سائل سے لیس تجزیہ نگاروں کی ناکامی سے عدم اطمینان لے کر پاکستانی سوشل میڈیا پر نظر دوڑانے آیا۔ یہاں ماحول ساری دنیا ، ساری لبرل و لیفٹسٹ دنیا کے  برعکس۔ ساری دنیا میں ایک حیرت انگیز دفاعی ناکامی کیساتھ اسرائیلی جوابی تہاجم کی صورت میں رونما ہونے  والے  انسانی المیہ پر غور و فکر جاری ہے۔ کسی بین الاقومی اخبار کی  دو سطور ، کسی عالمی خبر نامے کی ایک ہیڈ لائن پڑھنے سننے کی زحمت کئے بغیر پاکستانی لبرل ، لیفٹسٹ ، اور نیشنلسٹ مقامی مخالفتوں ، نفرتوں اور تعصبات کی  اپنی  ا پنی  عینک لگائے غزہ کے لاکھوں نہتے بچوں، ماؤں بہنوں ، بوڑھوں اور جوانوں کے سرعام پڑے ہوئے لاشوں ، انکے برباد و مسمار اور جلائے گئے گھروں پر ٹھٹھے مار رہے ہیں۔ لگتا ہے پاکی لبرلز و نیشنلسٹس اپنے اپنے تعصبات سے ایک انچ بالاتر ہوکر انسانی بنیادوں پر سوچنے اور احساس و ادراک کرنے کی  فطری استعداد ہی کھو چکے ہیں۔

کوئی اس پر جماعت اسلامی کو طعنے دے رہا تو کوئی فضل الرحمٰن و سمیع الحق کو۔ کوئی شیعہ کو کوس رہا ہے تو کوئی وہابی مخالف تنظیموں کو۔ فیس بک لائیکس کے عشق میں مبتلا ان مسخروں کی اپنی  جرات و ایمان یہ کہ حماس کا نام تک من و عن نہیں لکھ سکتے کہ کہیں فیس بک لوگرتھم ان کی آئی ڈی بلاک نہ کریں یا کہیں ریچ کم نہ ہو۔ فیس بک سسٹم سے خائف حماس کو حاماس اور عماس لکھتے ہیں تاکہ فیس بک ردعمل میں ان کی ہیروئن و افیون کی ڈوز کم نہ کریں۔

جماعت اسلامی کے ماضی کے جرائم تسلیم، جمعیت فا اور س کے غلط سیاسی موقف قابل ملامت ، لیکن بھائی آج ، اب اور یہاں انسانی المیہ جاری ہے، یہاں ذلیل و خوار ہوکے بھوکے پیاسے مرنے والوں  میں  معصوم بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے، جن کا میرے اور آپ کیساتھ رشتہ صرف انسانیت  کا ہے، جو آپ اورآ پ کے بچوں جیسے گوشت پوست سے بنے ہیں۔ لبرل و مارکسسٹ و نیشنلسٹ صاحب ، فضل الرحمٰن و سمیع الحق و سراج الحق سے آپ کی نفرت بجا ، ان کے  سیاسی عمل سے آپ کا  عدم اتفاق آپ کا حق ہے ، لیکن جن بچوں پر فاسفورس بم برسائے جا رہے ہیں وہ کسی مُلّا و پاکستانی لیڈر کے پیروکار نہیں ۔ وہ کسی مُلّا و مولوی کے بچے نہیں۔ وہ بنی آدم ہیں اور بس۔

شیعہ دنیا سے عدم اتفاق بھی درست، ہم بھی ان سے متفق نہیں۔ ۔ ایرانی رژیم امر و جنایتکارسہی۔ ۔   چند روز پہلے امریکی کانگریس کو بریفنگ دیتے ہوئے امریکی انٹیلی جنس حکام نے کہا کہ ان کو بھرپور ریسرچ کے باجود سات اکتوبر واقعہ میں ایرانی اداروں کی ہم کاری کا کوئی ثبوت نہ ملا۔ بلکہ اس وقوعہ کی خبر آتے ہی ایرانی اربابِ  بست  و کشاد خود ششدر و حیران ہوگئے۔ پھر بھی مان لیتے ہیں  کہ یہ ایران کی سازش و ایڈونچرازم کا نتیجہ تھا۔ ۔۔مگر کیا ایران کے جرم کی سزا غزہ کی  معصوم جانوں کو دینا معقول اور مبنی بر انصاف ہے۔؟

مجھ جیسے کئی ایک پاک آرمی گزیدہ ضیاء الحق کے بلیک ستمبر کا طعنے دیتے بھی نہیں تھکتے۔ بھائی، ضیا ء نے دہائیاں قبل اردن کیلئے لڑتے ہوئے فلسطینیوں کو بحر مردار میں پھینکا وہ قابل لاکھ لعنت و ملامت ہے۔ مگر کیا ضیاء کی  خباثت کے جواب میں آج غزہ کے انسانی المیہ پر جشن منایا جائے۔؟

نیشنلسٹس تو مذہب دشمنی میں سدھ بدھ گم کرچکے ہیں۔ گزشتہ روز کے واقعات  کو فراموش کرکے یہ فلسطین سے ہمدردی پر طنزیہ سوال اٹھاتے ہیں۔ ایک رٹ لگائی ہے کہ غزہ پر غصہ ہونے والی مذہبی دنیا سوات و بونیر دہشت گردی پر کیوں خاموش تھی ؟ ا ن کو اس جانکاری میں کوئی دلچسپی نہیں کہ طالبانائزیشن کے تحت سوات و بونیر میں جو کچھ ہُوا ان کے اپنے دور حکومت میں انہی کی  حمایت سے ہوا۔ طالبان ری گروپنگ معاہدے اسفندیار ولی خان اور افراسیاب خٹک نے واشنگٹن میں کیے  جس کی مستقل نگرانی و انتظام کیلئے ترکی میں مرکز بنایا  گیا ۔ اسی مرکز سے ہمکاری کیلئے آپ کے میاں افتخار مہینوں ترکی یاترا پر جاتے۔ کے پی کے سول بیوروکریٹس کو یاد ہوگا جب میاں افتخار اپنے ساتھ ترکی سے ایس ڈی ایم ( سب ڈویژنل مجسٹریٹ) سسٹم لائے ۔ اسی میاں افتخار کے انہی ترکی مذاکرات کے تحت اے پی ایس کے بچوں کا قاتل احسان اللہ احسان اب ترکی میں عیش کررہاہے۔ اے این پی نے ترکی مذاکرات سے ایک طالبان دھڑے کو امریکا و پاکی ادارے کے کہنے پر باہر رکھا۔ انہوں نے ردعمل میں میاں افتخار کے بیٹے کو قتل کیا۔ خدائی خدمتگار میاں کے بیٹے کے قتل کو پولیٹیکل پروپیگنڈہ سٹنٹ بنانے سے قبل اسفندیار و افراسیاب سے بلکہ خود میاں صاحب سے اس حقیقت بارے سوال کریں ۔ضلعی و ڈویژنل انتظامیہ صوبائی حکومت کی ماتحت ہوتی ہے۔ تب کے کمشنر ملاکنڈ سید محمد جاوید اور وزیراعلیٰ  کے والد اعظم ہوتی کے کار خا ص ڈی آئی جی عبداللہ خان میاں افتخار ہی کی  ہدایات پر طالبان کیساتھ چل رہے تھے۔ بونیر طالبان ری گروپنگ پر کمشنر جاویدآن ریکارڈ ہے کہ میں صوبائی حکومت کے احکامات پر سب کچھ کر رہا تھا۔ طالب ڈرامہ اپنے مقاصد پورے کر چکا ۔ سوات آپریشن شروع ہوا۔ تب اسفندیار ولی خان اسٹبلشمنٹ کی  گود میں بیٹھے تھے۔ اولین جی او سی میجرل جنرل اعجاز اعوان اور بریگیڈئیر سعید اسفندیار ولی خان کی  ذاتی سفارش پر آپریشن سرابرہ تعینات ہوئے تھے۔( یہ چاروں کردار زندہ ہیں۔ کاش کوئی پشتون نوجوان محقق کسی یونیورسٹی لیول پر پارٹی تعصب و عصبیت سے ہٹ کر سوات و ملاکنڈ ڈویژن میں طالبانائزیشن پر تھیسسس لے کر ان سب کا  انٹرویو کرتا۔ حقیقت منظر عام پرآ جاتی۔ تاریخ درست ہوتی) آپ میں غیرت ہے تو اے این پی قیادت گریبان سے پکڑیں ۔ ان سے پوچھ لیں ۔ ان کے ہاتھوں پشتونوں کے لہو تلاش کریں۔ ان کو پشتونوں سے معافی مانگنے پر مجبور کریں۔ کیونکہ تب نہ جماعت اسلامی تھی اور نہ جمعیت۔ اور اگر جماعت اور جمعیت تھے بھی تو کیا ان کے جرائم غزہ کے نہتے شہریوں پر اسرائیلی جارحیت کو لیجٹمیسی بخش سکتی ہے؟
ایک نکتہ میکڈونلڈ سے بائیکاٹ کا ہے۔ یہ عام دستور ہے کہ احتجاج کے دوران مختلف سوسائٹیز مخالفین کے پراڈکٹس کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔ یہ احتجاج کا ایک روایتی طریقہ ہے ۔ برٹش مصنوعات سے کانگریس و گاندھی کے بائیکاٹ کی تاریخی مثالیں موجود ہیں۔ اگر چہ یہ  ضعف الایمان کے درجے میں آتا ہے۔ اگر چہ یہ علامتی ردعمل ہوتا ہے۔ لیکن احتجاج ریکارڈ کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اور آج کے بائیکاٹ کا اثر خود میکڈونلڈ کے چلانے والوں کے تازہ بیان سے واضح ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میکڈانلڈ امریکی کلچر کی علامت ہے اور امریکی ثقافتی ترویج کو اسی بناء پر میکڈانلڈائزیشن کہا جاتا ہے۔ اس سے بائیکاٹ نہ صرف مقامی فوڈ انڈسٹری کیلئے فائدہ مند ہے بلکہ یہ امریکی کلچر پر لات مارنے کی برابر ہے۔ یہ نکتہ اہم نہیں کہ پاکستان کے اندر میکڈانلڈ کس کا ٹھیکہ ہے۔ یہ اہم نہیں کہ فرنچائز مالک مقامی ہے یا امریکی۔ اہمیت اس حقیقت کی ہے کہ میکڈانلڈ اسی امریکی سلسلے کی کھڑی ہے اور اسی امریکی ثقافت کا مظہر ہے۔ مضحکہ خیز امر یہ کہ جو لبرل میکڈ انلڈ سے محض نام تک واقف ہیں اور مقامی تانگہ و رکشہ سٹاپ پر سموسہ کھانے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ بھی آج میکڈانلڈ بائیکاٹ پر ٹھٹھے مارتے ہیں۔ ذرا اپنے معلومات ، اپنی فہم و ادراک اور اپنی اوقات پر بھی کبھی ھنسی کیا کریں۔
بیرون ملک خصوصا مغربی دنیا میں مقیم پاکستانیوں کی اکثریت اسرائیل فلسطین قضیے پر عجیب منافقانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ کینیڈین ایوان زیرین میں چھ پاکستانی نژاد ممبرہیں۔ سب یوتھئے ہیں اور عمران کے عاشق و پجاری۔ عمران خان گرفتاری پر انہوں وزیراعظم کو خط لکھے کہ خان کیلئے پاکستان پر زور ڈالیں اور پاکستانی اسٹبلشمنٹ کی مذمت کی جائے۔ وزیراعظم سکریٹریٹ نے جواب دیا یہ پاکستان کا اندورنی مسلہ ہے۔ ہم اس پر رائے نہیں دے سکتے ۔ آج غزہ پر اسرائیلی تھاجم پر پوری کینیڈ اسرائیل کیساتھ دامے درمے قدمے برابر کا شریک ہے۔ کسی پاکستانی نژاد ممبر کی جرات نہیں وزیراعظم سے سوال کریں کہ کیا اب یہ عملی مداخلت نہیں! پاکیوں کی منافقت ادھر بھی ہے، ادھر بھی۔
ایک نکتہ اپنے فکری و سیاسی وابستگی سے بالاتر یاد رکھیں کہ ظلم کا کوئی مذہب اور عقیدہ ، کوئی نسل و قوم نہیں ہوتا۔ ظالم انسانیت کے کیمپ سے باہر کھڑا ہوتا ہے۔ ظالم اور غاصب جہاں بھی مظلوم کو مار رہا ہے تمام تعصبات سے اوپر سمجھیں کہ مظلوم اپ کا اپنا ہے اور صرف انسان ہے۔ اسی لئے غزہ میں بھوک پیاس سے جو مر رہے ہیں، فاسفورس بم سے جو مارے اور جلائے جار ہے ہیں وہ بھی فقط انسان ہی ہیں۔ ان کا ہمارے ساتھ یہی رشتہ کافی ہے۔ اس پر اپ تعصبات سے ماوراء سوچ نہیں سکتے تو اپ کے انسان ہونے پر شک ہے ۔

Facebook Comments

رشید یوسفزئی
عربی، فارسی، انگریزی ، فرنچ زبان و ادب سے واقفیت رکھنے والے پشتون انٹلکچول اور نقاد رشید یوسفزئی کم عمری سے مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں مذہب، تاریخ، فلسفہ ، ادب و سماجیات پر لکھتے آئے ہیں۔ حفظِ قرآن و درس نظامی کے ساتھ انگریزی اور فرنچ زبان و ادب کے باقاعدہ طالب علم رہے ہیں۔ اپنی وسعتِ مطالعہ اور بے باک اندازِ تحریر کی وجہ سے سوشل میڈیا ، دنیائے درس و تدریس اور خصوصا ًاکیڈیمیا کے پشتون طلباء میں بے مثال مقبولیت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply