یادِ ماضی سے چھٹکارہ ،مگر کیسے؟۔۔ڈاکٹر مختیارملغانی

جذباتی حادثات وقت کے ساتھ چھوٹے عناصر میں تقسیم ہوکر دماغ کے ساحل سے ٹکراتے رہتے ہیں، نتیجے میں اس ساحل پر جذباتی حادثے سے متعلقہ جگہیں، شخصیات، جسمانی احساسات، بو ، رنگ، روپ وغیرہ اپنی اپنی علیحدہ زندگی جینا شروع کر دیتے ہیں، ادراک کے حسی اجزاء لمحۂ موجود کے ساتھ چھیڑ خانی جاری رکھتے ہیں اور فرد ہر دفعہ گویا کہ نئے سرے سے ماضی کے حادثے کو جھیلتا ہے۔ حیاتیاتی دفاعی ردعمل کے طور پر جسم میں سٹریس کے ہارمونز پیدا ہوتے ہیں اور فرد کو دوبارہ اسی کیفیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے جس سے نکلنے کی تگ و دو میں وہ کئی برسوں یا مہینوں سے کوشاں تھا۔
فرد یہ سمجھنے سے قاصر رہتا ہے کہ کیسے کسی معمولی واقعے پر جسم اس قدر شدت سے ردعمل دے سکتا ہے، بعض قسمت کے ماروں کو صرف جاگتے میں نہیں بلکہ نیند کی حالت میں بھی تشنج کی سی کیفیت کو جھیلنا پڑتا ہے کہ ماضی کے حادثے کی تلخ یادیں کہیں چین نہیں لینے دیتیں، اس پہ قیامت یہ کہ مسلسل ایک خوف طاری رہتا ہے کہ روح کو چیرتی یہ تلخ یادیں کہیں اور کسی وقت بھی وارد ہو سکتی ہیں ۔
زہریلی یادوں کے اس بھنور میں غرق انسانوں کی زندگی کی تمام توانائیاں بس ایک ہی مقصد پہ صرف ہوتی ہیں کہ کیسے ان سے نجات پائی جائے، مشورہ دیا جاتا ہے کہ کھیل کود کو روزمرہ کا لازمی جزو قرار دو تاکہ جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ دماغی توجہ کو مثبت سرگرمی کی طرف راغب کیا جا سکے، فرد پورے انہماک سے کھیل کے میدان میں اترتا ہے تو اس پر آشکار ہوتا ہے کہ جسم میں طاقت و سکت نہ ہے کہ بھاگ دوڑ کی جا سکے، تھکاوٹ تہہ در تہہ غالب آتی جاتی ہے، کچھ افراد ماضی کے اس چنگل سے نکلنے کیلئے منشیات میں پناہ ڈھونڈھتے ہیں جو کہ خودکشی کے مترادف ہے، مہم جوئی ایک تیسرا آپشن ہے، کوہ پیمائی، تیز رفتار ڈرائیونگ وغیرہ جیسی ایکٹیویٹی کو لے کر ایڈرینالین سے لطف اندوز ہونے کی کوشش وقتی نشاط کا سبب ضرور ہے، لیکن ایسی مہم جوئی شدید توجہ و احتیاط کی متقاضی ہے جسے مسلسل جاری رکھنا ممکن نہیں۔
جونہی کسی پرانے ناخوشگوار حادثے کی یاد دلاتی کوئی لہر سامنے آتی ہے تو دفاعی ہارمونز انسانی عقل پر چوٹ کرتے ہیں، اس عمل کے تواتر سے زندگی کی خوشیاں ماند پڑ جاتی ہیں، خوشی حتی کہ غم کے جذبات بھی سرد پڑ جاتے ہیں، کسی عزیز کے ہاں بچے کی پیدائش یا کسی بزرگ کے انتقال پر فرد خود میں کوئی جذبہ محسوس نہیں کرتا، لمحۂ موجود کو پوری طرح سے محسوس نہ کرنے کا احساس فرد کو ماضی میں لے جاتا ہے، یہیں سے خود الزامی اور احساسِ جرم کی کیفیت طاری ہونا شروع ہوتی ہے اور فرد کی شخصیت کا تمام پوٹینشل آشکار ہوئے بغیر زنگ آلود ہوتا جاتا ہے۔
میدان جنگ کے بھیانک تجربات کا حامل ریٹائرڈ فوجی اگر گلی میں کھیلتے بچوں پر غصہ کرتا ہے تو اس کے پیچھے زور آور وجہ ہے، جن افراد کو اوائل عمر میں جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا، بلوغت میں وہ اپنے ہی جنسی انتشار پر شرم محسوس کر سکتے ہیں، محبت میں ناکامی یا روزگار کے مسائل سے دوچار افراد سماجی رسومات سے کنارہ کش رہتے ہیں، سائیکو تھراپی کی مدد ایسے افراد کے علاج کی کوشش میں صرف اسی صورت کامیاب ہے اگر فرد یہ سمجھ چکا ہو کہ اس کے احساسات اس حد تک ماند ہیں گویا کہ وہ اس زمین پر اپنوں کے درمیان مکمل اجنبی ہے، اگر شعوری طور پر فرد کو اس اعتراف میں تردد ہے تو سائیکو تھراپی مدد نہ دے گی۔
انسانی دماغ کا وہ حصہ جسے Amygdala کہا جاتا ہے، یہ انسان کے غصہ، غم اور مایوسی وغیرہ کے جذبات کی آمدورفت پر نظر رکھتا ہے، اور کب اور کتنی مقدار میں ان جذبات کو ڈھیل دینی ہے اس کا فیصلہ یہی کرتا ہے، Amygdala درحقیقت بادام کی شکل کے خلیات پر مشتمل دو خوشے ہیں جو دائیں اور بائیں دماغ ( hemispheres) میں واقع ہیں، جذبات اور یادداشت کو آپس میں گتھم گتھا کرنا اس کا بنیادی مشغلہ ہے، گتھم گتھی کی یہ خباثت جانوروں میں نسبتاً کمزور ہے، اسی لئے جانور ماضی کے زخموں کو چاٹنے سے پرہیز برتتے ہیں، انسانوں میں بھی اس وابستگی کے مختلف درجات ہیں، وہ جو جذبات اور یادداشت کے اس ربط کے شکنجے میں کسے ہیں، درحقیقت ان بادامی خوشوں پر غیر ضروری بار ڈالے ہوئے ہیں، ایسے لوگ زیادہ حساس ہوتے ہیں، ڈپریشن، سٹریس، فرسٹریشن وغیرہ جیسی کیفیات ایسے افراد میں کہیں زیادہ پائی جاتی ہیں ۔ان خوشوں کو خشک کرنے کیلئے پانی کی دستیابی کو آہنی قفل سے بند کرنا ہوگا، اس مقصد کی تکنیکی تراکیب پر بحث کو کسی اور وقت کیلئے اٹھا رکھتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply