یہ کِس کی آمد کا شور ہے؟-پروفیسر رفعت مظہر

دردوغم اور رنج ومہن کی کئی اونچی نیچی گھاٹیاں عبورکرتے اور سنگلاخ زمینوں پر سفر کرتے میاں نوازشریف 4 سال بعد بالآخر وطن پہنچ گئے۔ اُن کا دَورِ ابتلاء ایک دو نہیں پورے 30 سالوں پر محیط ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں 1993ء ہنگامہ خیزسال تھا۔ میاں نوازشریف 1990ء کے عام انتخابات کے بعد پہلی بار وزیرِاعظم کی کرسی سنبھال چکے اور غلام اسحاق خاں 58-2B کی شمشیرِ برہنہ کے ساتھ ایوانِ صدر میں موجود۔ آرمی چیف جنرل آصف جنجوعہ کی موت کے بعد جھگڑا نئے آرمی چیف کا۔ میاں نوازشریف کا اعلان “ڈکٹیشن نہیں لوں گا” لیکن غلام اسحاق خاں آرمی چیف کے معاملے پر اپنی ضد پر قائم۔ اُس نے جنرل عبدالوحید کاکڑ کو چیف آف آرمی سٹاف بناکر ہی دَم لیا۔

صدر اور وزیرِاعظم کے درمیان اختیارواقتدار کی جنگ شروع ہوئی تو غلام اسحاق خاں نے58-2B کا اختیار استعمال کرتے ہوئے میاں نوازشریف کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ جب غلام اسحاق خاں نے حکومت کے خاتمے کا اعلان کیا تو اُس وقت چیف آف آرمی سٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی ایوانِ صدر میں موجود تھے۔ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا تو سیّد نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں 11 رکنی بنچ نے میاں نوازشریف کی حکومت بحال کردی لیکن صدر اور وزیرِاعظم کے درمیان اختلافات اِس نہج تک پہنچ چکے تھے کہ جنرل عبدالوحید کاکڑ کی “ثالثی” میں صدر اور وزیرِاعظم دونوں کو مستعفی ہونا پڑا۔

1997ء میں محترمہ بینظیربھٹو اپنے ہی منتخب کردہ جیالے صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں 58-2B کا شکار ہوئیں توعام انتخابات میں میاں نوازشریف تین چوتھائی اکثریت سے وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔ اِسی سال لاہور اسلام آباد موٹروے کی تکمیل ہوئی۔ 1998ء میں بھارت نے 5 ایٹمی دھماکے کیے جو پاکستان کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے تھے۔ میاں نوازشریف نے تمامتر بیرونی دباؤ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کرلیا۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے میاں صاحب کو ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی صورت میں اربوں ڈالر مالی امداد کی پیشکش کی اور ساتھ ہی دھماکے کرنے کی صورت میں امداد بند کرنے کی دھمکی بھی دی لیکن میاں صاحب ڈٹے رہے۔ پھر 28 مئی 1998ء کو بلوچستان کے علاقے چاغی کے پہاڑوں کو سفید ہوتے دیکھ کر فضاء اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اُٹھی۔ پاکستان بھارت کے 5 ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں 6 دھماکے کرچکا تھا اور 57 اسلامی ممالک کی فضاؤں میں بھی مبارک سلامت کی صدائیں بلند ہورہی تھیں۔ پاکستان دنیا کی ساتویں اور عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بن چکا تھا۔ یہ ایٹمی قوت دنیاکے 2 ارب سے زائد مسلمانوں کی امانت ہے۔

جنرل جہانگیرکرامت کے استعفے کے بعد میا نوازشریف کی نگاہِ انتخاب جنرل پرویزمشرف پر پڑی اور اُنہیں چیف آف آرمی سٹاف بنا دیا گیا لیکن تاریخ نے ثابت کیا کہ یہ فیصلہ غلط تھا۔ جنرل پرویزمشرف نے میاں نوازشریف کی اجازت کے بغیر 1999ء میں کارگل میں بھارت کے خلاف جنگ شروع کی جس پر دونوں طرف بہت سا نقصان ہوا اور میاں نوازشریف کو امریکہ جاکر صدربِل کلنٹن سے ملاقات کرکے جنگ بندی کا اعلان کرنا پڑا۔ بعدازاں میاں صاحب نے پرویزمشرف کی جگہ جنرل ضیاء الدین کو نیا آرمی چیف مقرر کیا لیکن نئے آرمی چیف کے اعلان بعد بیرونِ ملک دورے سے لوٹتے ہوئے پرویزمشرف نے اپنے حواریوں کی مددسے فضاؤں میں ہی 12 اکتوبر 99ء کو میاں صاحب کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اُنہیں گرفتار کرلیا۔ اُن پر طیارہ سازش کیس چلا۔ یہ ایسا مضحکہ خیز کیس تھا جس میں اغواکنندہ (میاں نوازشریف) زمین پر تھا اور اغوا ہونے والا طیارہ (جس پر پرویزمشرف سوار تھا) فضاؤں میں۔ مختصر یہ کہ میاں صاحب کو پہلے سزا سنائی گئی اور پھر سزا معطل کرکے سعودی عرب میں جلاوطن کردیا گیا۔

جب 2007ء میں محترمہ بینظیربھٹو پرویزمشرف کے ساتھ این آراو کے ذریعے خودساختہ جلاوطنی ختم کرکے پاکستان لوٹ آئیں تو 2 ماہ بعد میاں نوازشریف بھی وطن لوٹ آئے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں میاں نوازشریف تیسری بار ملک کے وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔ یہ وہ دَور تھا جب اسٹیبلشمنٹ اپنی گود کے پالے عمران خاں کو میدان میں اُتار چکی تھی۔ عمران خاں نے 2017ء (میاں نوازشریف کی نااہلی) تک ہرممکن کوشش کی کہ میاں صاحب کی حکومت کے قدم نہ جم سکیں۔ اِس دوران اُنہوں نے 14 اگست 2014ء کو ڈی چوک اسلام آباد میں 126 روزہ دھرنا دیا۔ اِس دھرنے کے دوران جوکچھ ہوتا رہا اُس سے پوری قوم آگاہ ہے۔ اِسی دوران چین کے صدر شی جن پنگ کا پاکستان کا دورہ معطل ہوا۔ اِس کے باوجود بھی نوازلیگ کی حکومت ملک کی بہتری کے منصوبے بناتی رہی۔

16 دسمبر کو سانحہ APS کا بہانہ بناکر عمران خاں نے دھرنا ختم کیاتو 20 اپریل 2015ء کو چین کے صدر پاکستان تشریف لائے اور کاشغر سے گوادر بندرگاہ تک اقتصادی راہداری جیسے گیم چینجر منصوبے کی بنیاد پڑی۔ یہی وہ دَورہے جب پاکستان نے 12000 میگاواٹ بجلی پول میں شامل کرکے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کیا، معیشت کا پہیہ رواں ہوا، سٹاک مارکیٹ 50 ہزار کی حد عبور کرگئی، 2016ء میں IMF کو خُداحافظ کہا گیااورTTP نامی دہشت گرد تنظیم کو جڑسے اُکھاڑ پھینکا گیا۔ اِسی دَور میں اوورہیڈز، انڈرپاسز اور سڑکوں کا جال بچھایا گیا، میٹروبس سروس اور اورنج لائن ٹرین جیسے عوامی منصوبے اِس کے علاوہ۔

بین الاقوامی سرویز کے مطابق پاکستان دنیاکی 18 ویں بڑی معیشت بننے جارہا تھا کہ جولائی 2017ء کوپانامہ سے اقامہ نکال کر میاں نوازشریف کو تاحیات نااہل قرار دے دیاگیا۔ بعدازاں واٹس ایپ پر بنی جے آئی ٹی کے ذریعے 5 جولائی 2018ء کو میاں نوازشریف کو 10 سال، مریم نوازکو 7 سال اور کیپٹن صفدر کو ایک سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ مقصد میاں صاحب کو “مائنس” کرنا تھا جو زورآور کرکے رہے لیکن اصل منصوبہ ساز تو رَبِ لَم یَزل ہے۔ آج (21 اکتوبر) مائنس کر دیا جانے والا نوازشریف پورے تزک واحتشام کے ساتھ وطن لوٹ رہاہے اور زبانوں پر “وزیرِاعظم نوازشریف” کے نعرے۔

وطن واپسی سے پہلے دبئی ایئرپورٹ پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے میاں صاحب نے فرمایا “میں نے پہلے بھی کہاتھا کہ سب کچھ اللہ پر چھوڑتا ہوں۔ آج میں اللہ کے کرم سے سُرخ رو ہوکر پاکستان جارہا ہوں۔ ہم 9 مئی والے نہیں 28 مئی والے ہیں۔ اچھا ہوتاکہ آج 2017ء کے مقابلے میں حالات بہتر ہوتے۔ دُکھ کی بات ہے کہ ملک آگے جانے کی بجائے پیچھے چلاگیا”۔ اِدھر جس وقت یہ کالم لکھا جارہا ہے لاہور کی ہر سڑک کا رُخ مینارِپاکستان کی طرف مُڑ چکا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

صرف لاہور ہی کیا پورا پاکستان اپنے محبوب قائد کا استقبال کرنے مینارِپاکستان کی طرف رواں دواں۔ رات گئے تک مینارِ پاکستان پر ہزاروں کا مجمع اکٹھا ہوچکا تھا۔ میاں شہبازشریف، مریم نوازاور حمزہ شہباز بھی وہاں موجود تھے۔ آتش بازی کے دِل خوش کُن نظارے اور دلوں کو گرما دینے والے ترانے سماں باندھ رہے تھے۔ جس سے ظاہر ہوتاہے کہ اپنا فیصلہ اللہ پر چھوڑنے والے میاں نوازشریف کا مینارِپاکستان پر لاکھوں کا چارجڈ مجمع فقیدالمثال استقبال کرے گا۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply