• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جنوبی ایشیاء میں بُدھ مت کا آغاز۔۔میجر(ر)اکرام سہگل

جنوبی ایشیاء میں بُدھ مت کا آغاز۔۔میجر(ر)اکرام سہگل

بدھ مت بھی جین مت کی طرح ویدک ہندومت کی تنقید سے پیدا ہونے والا مذہب ہے۔ جین مت ہی کی طرح یہ خدا کا پرچار نہیں کرتا۔ یہ گوتم بدھ سے منسوب اصل تعلیمات پر مبنی مذہب یا اس سے کہیں زیادہ فلسفہ ہے۔

گوتم بدھ کی پیدائش لومبینی، موجودہ نیپال میں ہوئی تھی۔ اس نے مادی زندگی کو ترک کر دیا کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ زندگی بڑھاپے، بیماری اور موت کے تابع ہے اور یہ کہ اس سے بہتر کوئی چیز ہو سکتی ہے، یعنی پنر جنم کے چکر سے آزاد ہو کر نروان پانا، جو ایک کامل سکون، آزادی اور اعلیٰ ترین خوشی کی حالت ہے، اس کے ساتھ ساتھ دنیا سے لگاؤ اور دنیاوی مصائب سے نجات بھی۔

شمالی ہندوستان میں برسوں گھومنے پھرنے کے بعد بہار کے ایک مقام بودھ گیا میں ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے ان کے پاس روشن خیالی آئی۔ یہیں سے اس نے اپنی تعلیمات کا آغاز کیا اور تبلیغ شروع کر دی۔

ایک مذہب کے طور پر بدھ مت کا آغاز چوتھی اور چھٹی صدی قبل مسیح کے درمیان ہوا۔ یہ ہندوستان میں اس وقت نمایاں ہوا جب ویدک ہندو مت زوال پذیر ہوا۔ یہ تیسری صدی قبل مسیح میں بادشاہ اشوک کے تحت قائم موریہ سلطنت کے دوران اپنے عروج پر پہنچا اور ہر جگہ پہنچ گیا۔

ایک الگ اور منظم مذہب کے طور پر بدھ مت کے رواج نے گپتا دور حکومت (ساتویں صدی عیسوی) کے بعد اثر کھو دیا، اور اس کی حمایت کرنے والی آخری ریاست، پالا سلطنت، کا خاتمہ بارہویں صدی میں ہوا۔ ہندو مت نے دوبارہ ابھر کر اسے چیلنج کیا تھا، اور سماجی و سیاسی اثر و رسوخ برہمنوں کے ہاتھوں میں چلا گیا تھا۔ بارہویں صدی کے آخر تک، یہ ہمالیہ کے علاقے اور جنوبی ہندوستان کے کچھ حصوں میں الگ تھلگ باقیات کو چھوڑ کر، برصغیر میں سے بڑی حد تک غائب ہو چکا تھا۔

بدھ مت کے عقیدے کی بنیاد میں چار سچائیوں کا ایک تصور جاگزیں ہے۔ دُکھ، سنسار، نروان اور “ہشت پہلو راستہ”۔ ہم اس دنیا کی ناپائیدار حالتوں اور چیزوں کے لیے ترستے اور ان سے چمٹے رہتے ہیں، جو بدھ مت کے نزدیک دکھ ہے، یعنی آسودگی سے تہی اور تکلیف دہ۔ یہ ہمیں سنسار، بار بار جنم لینے، دکھ اور دوبارہ مرنے کے نہ ختم ہونے والے چکر میں پھنسا دیتا ہے۔

لیکن اس لامتناہی چکر سے آزاد ہونے اور نروان کی حالت تک پہنچنے کے لیے ایک راستہ ہے، یعنی آٹھ عظیم ہدایات کی پیروی۔ یہ راستہ دراصل آٹھ ارکان پر مشتمل ہے: درست نظر، درست ارادہ، درست گفتگو، درست طرز عمل، درست ذریعہ معاش، درست کوشش، درست حافظہ، اور درست سمادھی (مکمل مراقباتی انہماک یا ملاپ)۔

پنر جنم کے دائرے سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ایک بدھسٹ کو کافی زاہدانہ زندگی گزارنی پڑتی تھی۔ تارک الدنیا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تمام دولت چھوڑی جائے اور صرف بہت ہی بنیادی اشیا پاس رہیں جیسا کہ پہننے کے لیے کپڑے، اور کھانے کے لیے ایک پیالہ دے دیا جاتا ہے۔” کسی کی بھیک مانگنے کا پیالہ توڑنا” یہ کہاوت بدھ مت کی اسی خصوصیت سے متعلق ہے۔

بدھ مت میں درویشی کا یہ سلسلہ واضح کرتا ہے کہ ہر کوئی ان اصولوں کے مطابق زندگی نہیں گزار سکتا۔ ورنہ بھیک میں مانگے جانے کے لیے کھانا کون پیدا کرے گا؟ عملی زندگی میں، اس وقت جب بدھ مت کا وسیع سطح پر رواج تھا، اس کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ بہت سے راہبوں اور راہباؤں کے ساتھ ساتھ ایسے لوگ بھی ہوئے ہوں گے، جو اپنے روزمرہ کے کاموں کے بعد جاتے تھے اور راہبوں اور راہباؤں کی تعظیم کرتے، بھیک دیتے اور رسومات ادا کرتے تھے۔ رسومات کا ایک اہم حصہ مراقبہ ہوتا تھا۔

ان رسومات کے لیے بدھ مقامات کو اسٹوپا کہا جاتا ہے۔ اسٹوپا ایک ٹیلے جیسا یا نصف کرہ دار اسٹرکچر ہے جس میں تعظیمی تبرکات شامل ہوتے ہیں۔ طواف (عبادت کے دوران اسٹوپا کے گرد گھومنا) بدھ مت کا ایک اہم حصہ ہے۔ بدھ مت کی ایک اور اہم خصوصیت انسانوں کی مساوات کا نظریہ ہے۔ ہندو مت میں جہاں ذات پات کے نظام نے انسانوں کے درمیان ناقابل تسخیر سرحدیں کھڑی کر دی ہیں، اس کے علاوہ درجہ بندی پر مبنی ایک معاشرے کی تعمیر کی گئی۔

جہاں اکثریت کو سماجی سیڑھی کے نچلے حصے پر رکھا جاتا ہے، بدھ مت نے خاص طور پر ہندو مت کے اس حصے کو مسترد کیا۔ بعض علما کی رائے ہے کہ اسلام جو برصغیر میں ساتویں صدی عیسوی سے آیا، بدھ مت کے پیچھے ہٹنے پر ہندوستان کے ان ہی علاقوں میں پھیلا جہاں بدھسٹوں کا راج تھا، کیوں اسلام نے بھی انسانوں کی مساوات کا درس دیا، اسی لیے یہ ہندوؤں کی نسبت سابقہ بدھ مت پیروکاروں کے لیے زیادہ قابل قبول تھا۔

آج کا شمالی پاکستان اور افغانستان کے ساتھ ساتھ شمال مشرقی بھارت وہ اہم مقامات ہیں جہاں کسی وقت بدھ مت نے سخت جدوجہد کی تھی، حتیٰ کہ اس وقت بھی جب یہ وسطی برصغیر میں پسپائی اختیار کر چکا تھا اور جنوبی ایشیا سے باہر پھیلنے لگا تھا۔ بدقسمتی سے بدھ مت کے ان مقامات کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے۔

انیسویں صدی سے، ہندوستان میں بدھ مت کے جدید احیا میں مہا بودھی سوسائٹی (1891 میں قائم ہوئی)، اور دلت بدھسٹ موومنٹ شامل ہیں، جسے 1956 میں ڈاکٹر امبیدکر نے قائم کیا تھا۔ امبیدکر ایک ہندوستانی قانون دان، ماہر معاشیات، سیاست دان اور سماجی مصلح تھے، جنھوں نے دلت بدھ تحریک کو متاثر کیا اور اچھوتوں (دلتوں) کے ساتھ سماجی امتیاز کے خلاف مہم چلائی۔ وہ وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل میں برطانوی ہندوستان کے وزیر محنت، دستور سازی کمیٹی کے چیئرمین، آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر قانون اور انصاف تھے، اور ہندوستان کے آئین کے چیف معمار سمجھے جاتے ہیں۔

امبیدکر نے اپنے مقصد کے لیے بدھ مت کی کافی حد تک دوبارہ تشریح کی۔ ان کے مطابق، روایتی بدھ روایات کے کئی بنیادی عقائد اور ہدایت نامے جیسا کہ چار عظیم سچائیاں اور اناتا ناقص اور مایوسی پر مبنی تھے، اور ہو سکتا ہے کہ بعد کے دور میں بعض بدھ بھکشوؤں کے ذریعہ بدھ مت کے صحیفوں میں داخل کیے گئے ہوں۔

امبیڈکر کے خیال میں ان کو بدھا کی تعلیمات کے طور پر نہیں لینا جانا چاہیے۔ بدھ مت کے دیگر بنیادی تصورات جیسا کہ کرما اور پنر جنم کو امبیڈکر نے توہم پرستی سمجھا۔ تقریباً نصف پچاس لاکھ دلت (جو پہلے اچھوت تھے) ان کے ساتھ شامل ہوئے اور نویان بدھ مت کو قبول کر لیا، کیوں کہ اس نے ہندو مذہب کو مسترد کر دیا تھا، ہندوستان میں ذات پات کے نظام کو چیلنج کیا اور دلت برادری کے حقوق کو فروغ دیا۔

جب بدھ مت ہندوستان میں زوال پذیر ہو کر ہندو مت کے احیا کا راستہ بنا رہا تھا، تو اس نے ایشیا کے بیش تر حصوں کے ساتھ شمال اور مشرق میں پھیلنا شروع کر دیا۔ یہ دنیا کا چوتھا سب سے بڑا مذہب ہے جس کے 52 کروڑ پیروکار ہیں، یا عالمی آبادی کا 7 فی صد سے زیادہ ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(فاضل کالم نگار دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار اور کراچی کونسل فار ریلیشنز (KCFR) کے چیئرمین ہیں۔)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply