واشنگٹن ڈی سی کا جائزہ لیا/ڈاکٹر مجاہد مرزا

مثل برگ آوارہ’
میں گھر میں بند نہیں رہ سکتا تھا مگر مجبوری تھی کیونکہ امریکہ کی زندگی ” آدھی کار میں آدھی ادھار میں ” کے مصداق ہوتی ہے۔ میرے پاس نہ کار تھی اور نہ میں ادھار لینے کو اچھا سمجھتا تھا۔ میں نے تو آج تک ادھار لینے سے گریز کیا ہے، کسی فرد سے مانگنے سے یا بینک سے ادھار لینے سے۔ مگر کار نہ ہونے کے باوجود جب میں تنہائی سے اوبھ جاتا یا ٹی وی پروگرام دیکھ دیکھ کر تھک جاتا تو کسی نہ کسی طرح امریکہ کے شہری مضافات کی اس قید سے نکلنے کا چارہ کر ہی لیتا تھا۔ نیویارک شہر جانے کی خاطر مقامی سٹیشن تک جانے کے  لیے تو مجھے سعد کے بڑے بیٹے علی کی مدد لا محالہ درکار ہوتی تھی کیونکہ مضافات میں عوامی بسوں کی سہولت ہوتی تو ہے لیکن ایک تو ان کے اوقات کار سے متعلق علم نہیں ہوتا پھر ان کے میسر آنے میں ایک طویل وقفہ ہوتا ہے۔ امریکی شہروں کے مضافات میں تو معاملہ ہی اور ہے کہ فٹ پاتھ بہت کم ہیں چنانچہ بس سٹاپ بھی کم ہیں۔ سٹیشن سے بہت مناسب ٹرین مل جاتی تھی اور نیویارک شہر تک سفر بھی خوشگوار ہوتا تھا کیونکہ پٹڑی دریائے ہڈسن کے کنارے کنارے بچھی ہوئی ہے۔ شہر میں پہنچ کر پبلک ٹرانسپورٹ آسانی سے مل جاتی تھی، کم از کم انڈرگراؤنڈ ٹرین۔ مگر یہاں کی زیر زمین ریل گاڑیوں کی اسمات سمجھنا بہت مشکل تھا۔ میرا ٹھکانہ ایک ہی ہوتا تھا یعنی ماسکو سے آئے ہوئے دوست کے پاس جانا۔

یہ دوست پاکستان کے جلال پور جٹاں کا جٹ وڑائچ تھا اور حقیقت میں چوہدری۔ اس نے نیویارک میں بیٹھے بیٹھے کسی گرائیں کا کوئی مسئلہ حل کرا دیا تھا جس نے مشکور ہو کر اپنی ایک کار چوہدری صاحب کو دان کر دی تھی تاکہ انہیں سہولت ہو۔ جب ایک روز میں اس سے ملنے گیا تو پروگرام بن گیا تھا کہ شام کو واشنگٹن ڈی سی چلیں گے۔ چلو اس طرح یہ شہر دیکھنے کا بھی موقع مل رہا تھا، ویسے بھی مجھے کونسا کوئی کام کرنا تھا۔ اگر میرا بس چلتا تو میں امریکہ کا قریہ قریہ دیکھ لیتا مگر امریکہ میں کہیں بھی جانے کی خاطر ڈالر درکار تھے اور ڈالر کام کرنے سے آتے ہیں۔ کام نہیں تھا تو ڈالر بھی نہیں تھے ویسے اگر کام ہوتا تو پھر شاید وقت نہ ہوتا۔ امریکہ میں مقیم بہت کم پاکستانی سیر کو نکلنے کے لیے وقت نکال سکتے ہیں۔

چونکہ پروگرام رات کو جانے کا تھا اس لیے ویسے ہی شہر کی سیر کو نکل گئے تھے۔ میرے اور میرے دوست کے ساتھ دوست کا ایک دوست بھی تھا۔ جب ہم ایک ایسے علاقے سے گذرے جہاں بچے کسی سکول سے نکل رہے تھے اور ان بچوں کو لینے کی خاطر یا تو کانوں کے آگے لٹکتی ہوئی لمبی لمبی زلفوں ، کالے ہیٹس اور کالی عباؤں اور کالی پینٹوں میں ملبوس قدامت پسند یہودی مرد تھے یا شلوار قمیص پہنے ہوئے پاکستانی عورتیں، بچوں کی خاطر میرے دوست کو گاڑی تقریباً  دو تین منٹ روکنی پڑی تھی۔ عورتوں کو دیکھ کر میرے دوست کے دوست نے سوچ سوچ کر کہا تھا، “پتہ نہیں لوگ کیسی کسی بیویاں ساتھ لے آتے ہیں؟” جس پر  میں اور میرا دوست بے اختیار ہنس دیے تھے۔ میرے دوست نے اپنے دوست سے کہا تھا،”یار یہ کیا بات کی، جیسی بیویاں ہونگی ویسی ہی لائیں گے ناں”۔ جس نے تحیر و استعجاب کا اظہار کیا تھا وہ بھی غلط نہیں تھا کیونکہ پاکستانی خواتین بچہ پیدا ہونے کے بعد اپنے جسم اور اپنی زیبائش کا بالکل خیال نہیں رکھتیں یوں ان کے جسم کے نہ معلوم کون کون سے گوشے اپنی حدود سے تجاوز کرنے لگتے ہیں۔

ہم رات کو تقریباً  ساڑھے نو دس بجے نیویارک شہر سے نکلے تھے۔ میرا دوست بھی امریکہ میں نو وارد تھا اور “کیسی کیسی بیویاں” کہنے والا اس کا دوست بھی کار سے عاری تھا، اس لیے غلطی سے دوسری سڑک پر نکل گئے تھے۔ بہت آگے نکل کر لوٹنے اور درست راستے پر چڑھنے میں ایک گھنٹہ ضائع ہو گیا تھا۔ جب واشنگٹن پہنچے تو دوسرا معاملہ کھڑا ہو گیا تھا۔ جس نوجوان کے ہاں جانا تھا، اس کا موبائل اور لینڈ لائن دونوں ہی بند تھے۔ ایک ڈیڑھ بجے رات کو کسی انجان شہر میں جاتے بھی تو کہاں جاتے۔ ہوٹل ڈھونڈنا مشکل تھا اور اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ کرایہ ادا کر سکتے چنانچہ ایک جگہ پر کار گھڑی کرکے، سیٹیں پیچھے کی تھیں اور تھوڑے سے دراز ہو گئے تھے۔ کہیں جا کر چھ بجے اس نوجوان نے اپنے موبائل پر کی گئی کال وصول کی تھی۔ بہت معذرت کی تھی اور اپنا ایڈریس سمجھایا تھا۔ نوجوان کا بھی کوئی قصور نہیں تھا کیونکہ اسے پہنچنے کا وقت بارہ ساڑھے بارہ بجے بتایا گیا تھا۔ وہ ایک گھنٹہ مزید انتظار کرکے فون آف کرکے سو گیا تھا۔

یہ نوجوان خواجہ فرید شکر گنج کے مزار کے متولی دیوان گھرانے کا فرزند تھا مگر چلاتا ٹیکسی ہی تھا البتہ رہنے کا انداز شرفاء والا تھا یعنی اس نے کسی کو شریک رہائش نہیں بنایا تھا۔ تھوڑی دیر بات چیت کرکے ہم چائے تک پیے بغیر سونے کے لیے لیٹ گئے تھے اور کوئی چار گھنٹے سونے کے بعد اٹھے تھے۔ میزبان نے ناشتے کا انتظام کیا ہوا تھا۔ نہا دھو کر ناشتہ کرنے کے بعد یہ طے ہوا تھا کہ میں اس نوجوان کے ساتھ جا کر شہر دیکھوں گا اور میرا دوست اور اس کا ساتھی اپنے کچھ رشتہ داروں سے مل لیں گے۔

نوجوان دیوان نے مجھے کار میں بیٹھے بٹھائے شہر کی سیر کروائی تھی۔ وہ شہر سے اچھی طرح آشنا تھا اور ذوق بھی رکھتا تھا۔ وہ مجھے مختلف معروف مقامات اور عجائب گھروں سے متعلق بتاتا رہا تھا۔ چونکہ شام کو لوٹنا تھا اس لیے اتنا وقت نہیں تھا کہ کوئی بھی میوزیم دیکھا جا سکتا۔ تھوڑی دیر کے لیے کیپیٹل ہل کے پاس یادگار کے نزدیک رک کر چہل قدمی کی تھی اور چند منٹ کے لیے وہائٹ ہاؤس کے باہر رکے تھے۔ ایک ریستوران میں جا کر کھانا کھایا تھا۔ چونکہ طے تھا کہ گھر لوٹ آئیں گے جہاں سے واپسی ہوگی اس لیے گھر لوٹ آئے تھے۔

نوجوان دیوان کی کمپنی اچھی رہی تھی۔ وہ سنجیدہ شخص تھا اور دلچسپ گفتگو کرتا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ ایک بار کسی لڑکی نے اس کی گاڑی کو ہاتھ دے کر روکا تھا جو سڑک کنارے کھڑی رو رہی تھی۔ جب اس نے گاڑی روکی تو وہ سوار ہو گئی تھی۔ اس نے منزل پوچھنے سے پہلے پوچھا تھا کہ وہ رو کیوں رہی ہے۔ لڑکی نے بتایا تھا کہ آج اس کا ایچ آئی وی ٹیسٹ پازیٹیو نکل آیا ہے اور وہ دکھی ہے۔ نوجوان نے اسے تسلی دی تھی مگر لڑکی ضد کر رہی تھی کہ نوجوان اسے اپنے ساتھ لے چلے، وہ اس کے ساتھ وقت بتا کر اپنا غم بھلانا چاہتی تھی۔ دیوان کا کہنا تھا کہ وہ یوں مصیبت میں پھنس گیا تھا کہ اگر مان لیتا ہے تو کچھ بھی ہو سکتا تھا اور اگر انکار کرتا ہے تو ایک انسان کا دل ٹوٹتا تھا۔ دیوان کا کہنا تھا کہ لڑکی گلے لگ کر رونے کو تیار تھی مگر امریکہ میں ایڈز کا خوف ہی اتنا تھا کہ وہ جلد از جلد اس لڑکی سے جان چھڑوانا چاہتا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ پتہ نہیں اس نے کس طرح اس لڑکی کو یقین دلایا تھا کہ اس کی اپائنٹمنٹس تھیں وہ شام کو فارغ ہو کر اسے اپنے ساتھ لے جائے گا، یوں لڑکی نے اپنا فون نمبر دیا تھا اور اس کی گلو خلاصی کی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں دیوان کی حالت کا بخوبی اندازہ کر سکتا تھا۔ میں جب امریکہ پہنچا تو مجھے ہر جگہ ایڈز کے بارے میں معلومات اور تنبیہات دیکھنے اور پڑھنے کو ملی تھیں۔ میں پبلک ٹرانسپورٹ اور تاحتٰی لفٹ کے بٹن دباتے ہوئے بھی ڈرتا تھا کہ نجانے کہاں ایڈز کا وائرس ہو۔ درست ہے کہ ایڈز کا وائرس جنسی عمل سے لگتا ہے لیکن اگر منہ میں ہلکا سا بھی زخم ہو تب بھی امکان ہے کہ وہ سرایت کر جائے ویسے عام حالات میں وائرس اتنی جلدی نابود بھی نہیں ہوتا۔ سعد نے جب میری یہ حالت دیکھی تھی تو وہ بہت ہنسا تھا۔ اس نے میرا بہت مذاق اڑایا تھا ساتھ ہی تسلی دی تھی کہ کچھ نہیں ہوتا۔ معلومات تو آگاہی کی خاطر ہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply