ذہانت (40) ۔ جرم/وہاراامباکر

جولائی 1995 کا دن تھا جب طالبہ لیڈز یونیورسٹی سے نکلیں اور پارکنگ کی طرف جا رہی تھیں۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ اپنا تھیسس مکمل کر رہی تھیں۔ گاڑی میں بیٹھی ہی تھیں کہ آواز سنی۔ کوئی بھاگتا ہوا ان کی طرف آ رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ کچھ کرتیں،ایک شخص چاقو نکال کر ان کی کھلی کڑکی سے ان پر تان چکا تھا۔ اس نے طالبہ کو باندھا، پچھلی سیٹ پر پھینکا اور ان کی آنکھیں گلیو سے جوڑ دیں۔ گاڑی نکال کر چل پڑا۔

Advertisements
julia rana solicitors

کچھ دیر بعد ایک جگہ پر گاڑی رکی۔ طالبہ کو معلوم ہو گیا کہ وہ ریپ کا ارادہ رکھتا ہے۔ نظر نہیں آ رہا تھا لیکن مزاحمت شروع کر دی۔ اسے لاتیں مارنے لگیں۔ اس جدوجہد میں حملہ آور کے ہاتھ میں پکڑے چاقو نے اس کے اپنے ہاتھ ہی زخمی کر دئے۔ خون گرنے لگا۔ اس نے طالبہ کے چہرے پر گھونسے لگائے۔ لیکن پھر چھوڑ کر بھاگ گیا۔
دو گھنٹے بعد، یہ طالبہ سڑک پر ملیں۔ کپڑے پھٹے تھے۔ چہرہ سرخ تھا۔ آنکھیں گوند سے بند تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے حملے عام نہیں لیکن جب ہوں تو عام طور پر سیریز کا حصہ ہوتے ہیں۔ جب پولیس نے گاڑی کے خون کا تجزیہ کیا تو ڈی این اے دو سال پہلے ایک اور کار پارک میں ہونے والی ریپ سے میچ کر گیا جو اس جگہ سے سو کلومیٹر دور ہوا تھا۔ بی بی سی کرائم واچ پر آ جانے کے بعد پولیس اس کیس کو تین مزید واقعات سے منسلک کرنے میں کامیاب ہو گئی جو کہ پچھلے دس سال میں ہوئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بڑا علاقہ تھا اور آسان کیس نہیں تھا۔ دس سال پہلے کے واقعات میں بھی تفتیش میں بہت وقت صرف ہوا تھا۔ 14153 لوگوں سے پوچھ گچھ کی گئی تھی۔ شواہدات جمع ہوئے تھے لیکن ناکامی ہوئی۔ اور لگ یہی رہا تھا کہ اس بار بھی ایسا ہو گا۔ لیکن کینیڈا سے تعلق رکھنے والے سابق پولیس افسر کِم روسمو مدد کے لئے آ گئے۔ انکے پاس ایک نیا اوزار تھا۔ وہ ایک الگورتھم ساتھ لائے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روسمو کے پاس ایک دلیرانہ خیال تھا۔ ان کا الگورتھم ہر شے کو نظرانداز کرے گا اور صرف ایک فیکٹر پر توجہ دے گا جو کہ جغرافیہ تھا۔
روسمو کا خیال تھا کہ حملہ آور اپنے شکار کا انتخاب رینڈم طریقے سے نہیں کرتے۔ اگرچہ یہ ملک کے مختلف شہروں میں ہوئے ہیں لیکن اس جغرافیہ میں پیٹرن چھپے ہوتے ہیں جو اتنے سادہ ہوں کہ ان سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ اور اگر جرائم کی جگہ کا تجزیہ کیا جائے تو اس سے مجرم کا سراغ مل سکتا ہے۔ اور ان کی نظر میں اس سیریل ریپسٹ کا کیس ایسا موقع دیتا تھا۔
روسمو کا خیال نیا نہیں تھا۔ یہ سب سے پہلے فرانس میں 1820 میں آندرے مشل گوئیری نے پیش کیا تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply