• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بے نقاب ہوتا امریکہ اور مغربی دنیا/ڈاکٹر ندیم عباس

بے نقاب ہوتا امریکہ اور مغربی دنیا/ڈاکٹر ندیم عباس

اسلام میں یہ بات طے شدہ ہے کہ جنگ میں بھی عورتوں اور بچوں کو قتل نہیں کیا جائے گا، اسرائیل کے خلاف کارروائی میں بھی کئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بچوں اور خواتین کو جانے دیا جا رہا ہے اور اس موقع پر اسلام کا یہ حکم علی الاعلان بیان بھی ہو رہا ہے۔ اس سے یہ بات تو طے ہوگئی کہ بچوں اور عورتوں کو ٹارگٹ نہیں کیا گیا۔ یہ اسرائیل کی ہی پالیسی رہی ہے کہ وہ فلسطینی بچوں، عورتوں اور بزرگوں کو قتل کرتا ہے۔ امریکی صدر نے موجودہ تنازع پر پندرہ منٹس کی تقریر کی، جس میں اسرائیل اور اسرائیل کے فوجیوں کے مرنے پر بار بار تعزیت کی جا رہی ہے اور اسرائیل کی حمایت میں یوں لگتا ہے کہ اسرائیل سے بھی آگے بڑھنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ گویا اسرائیل کو باقاعدہ ابھارا جا رہا ہے کہ وہ جو کچھ کرنا چاہے، وہ آزاد ہے۔

اسی دوران یہ الزام عائد کر دیا کہ فلسطینیوں نے یہودی بچوں کے سر قلم کیے ہیں۔یہ عام عہدیدار یا سیاسی جلسے کی بات نہیں ہے، بلکہ پالیسی تقریر میں کی گئی بات ہے۔ یہ ایسا جھوٹ تھا کہ وائٹ ہاوس نے باقاعدہ اسے واپس لے لیا، یعنی تسلیم کر لیا کہ جو بائیڈن نے یہ جھوٹ بولا ہے۔ چائینہ ڈیلی کے یورپی یونین کے بیوروچیف مسٹر چِن نے درست کہا کہ ان پندرہ منٹوں میں ان اسرائیلیوں کے لیے تو سب کچھ تھا، مگر لاکھوں فلسطینیوں کے لیے کچھ نہیں کہا، جو بے گھر کر دیئے گئے ہیں۔ اسی طرح ان ایک ہزار سے زیادہ شہداء کے لیے بھی کچھ نہیں تھا، جو اسرائیلی بمباری کا نشانہ بن گئے، اس سے امریکہ اور امریکی صدر نے دنیا میں اپنی کریڈیبلٹی کھو دی ہے۔

وائٹ ہاوس کے ترجمان پریس بریفنگ کے لیے آئے تو دنیا بھر کے صحافیوں نے انہیں گھیر لیا کہ جو کچھ اسرائیل فلسطین میں کر رہا ہے، یہ جنگی جرائم ہیں اور اسرائیلی لیڈرز باقاعدہ فلسطینیوں کے کلین اپ کی باتیں کر رہے ہیں، کیا آپ اسرائیل کے ان اقدامات کی مذمت کرتے ہیں۔؟ ترجمان نے باقاعدہ حیرت کا اظہار کیا کہ اسرائیل میں یہ یہ ہوگیا ہے اور آپ اب بھی یہ سوالات پوچھ ہے ہیں؟ گویا یہ اسرائیل کا حق ہے کہ اب وہ ہر طرح کے قانون سے بے نیاز ہو جائے۔ اس پر ایک صحافی نے کہا کہ ہم اسرائیل کو اربوں ڈالر دیتے ہیں اور اسرائیل ایک ریاست ہے، اس لیے اسے قانون کے مطابق چلنا چاہیئے۔ اس پر بھی وہی گردان پڑھی گئی۔ ایک صحافی نے کہا اسرائیل کے پانی بند کرنے، بجلی کاٹنے اور ادویات و خوراک کی بندش کو تو جنگی جرائم ہیں، اس پر ہی مذمت کر دیں۔؟ اس پر بھی موصوف نے جو ارشاد فرمایا، وہ یہی ہے کہ اسرائیل کو یہ سب کرنے کا حق ہے اور کوئی انٹرنیشنل قانون نامی چیز اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔

ویسے عرض کر رہا ہوں، یہ اسرائیل کی حمایت نہیں، امریکی مفادات کا تحفظ کرنے والی ریاست کی حمایت ہے۔ ایک پرانی تقریر میں جو بائیڈن کہہ رہے ہیں کہ بجائے اس کے کہ ہم خطے میں جائیں، بس تین ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں اور ہمارا کام اسرائیل کرتا ہے۔ یہ سب صرف امریکہ میں ہی نہیں ہو رہا، کچھ دیر پہلے یہ خبر نظر سے گزری، جس میں گویا ہدایت دی گئی تھی کہ مغربی میڈیا ایسا بیانیہ تشکیل دے، جو مغربی مفادات کے مطابق ہو۔ آپ پورے مغربی میڈیا کو فالو کریں، آپ کو فلسطینی تجزیہ نگار آٹے میں نمک کے برابر نظر آئیں گے اور انہیں بھی اینکر ایسے کٹہرے میں کھڑے کرتے نظر آئیں گے، جیسے وہ خودکش حملہ آور ہوں۔ اس کے مقابل کسی اسرائیلی عہدیدار سے انٹرویو کرتے ہوئے وہ تابعدار بنے ہوں گے، ساتھ میں شکل اور آواز سے یہ تاثر ضرور دینے کی کوشش کریں گے، گویا وہ ابھی رو ہی پڑیں گے۔

بڑے مقاصد کی تکمیل کے لیے یہ استعماری قوتوں کا طریقہ واردات رہا ہے کہ وہ بار بار اس بیانیہ کی ترویج کرتے ہیں اور امریکی و مغربی عوام کو گمراہ کر دیتے ہیں۔عراق پر حملے کی مثال سامنے ہیں، ایک ملین سے زیادہ لوگ مار دیئے اور اب یہ بات راز نہیں رہی کہ انہیں پتہ تھا کہ صدام کے پاس کسی قسم کے ہتھیار موجود نہیں تھے۔ اسرائیل تو امریکی لاڈلہ ہے، اسرائیلی گورنمنٹ فلسطینیوں کو ہیومن انیمل کہہ کر انسانیت کی توہین کر رہی ہے، مگر دنیا میں اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ آپ ذرا ان کے متعلق کوئی جملہ کہہ کر تو دیکھیں، آپ کو اچھوت بنا کر رکھ دیں گے اور ہر جگہ آپ کا بائیکاٹ ہو جائے گا۔ ویسے کبھی کبھی مجھے حیرت ہوتی ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کے بقول ہٹلر نے بہت ظلم کیا اور وہ اس سے بچ کر فلسطین میں آگئے۔ فلسطین آنے سے پہلے پورے مغرب میں بھٹکے، مگر کسی نے پناہ نہیں دی۔

یہ لوگ فلسطین آگئے اور طاقتور بھی ہوگئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مقامی لوگوں کا احترام کرتے، انہیں انسانیت کا حامل بتاتے کہ جب سب دھتکار رہے تھے تو ہمیں ان کے خطے میں پناہ ملی، مگر ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ یہ اہل فلسطین آج دنیا بھر میں در بدر ہیں اور اسرائیلی ان کا قتل عام کر رہے ہیں۔ ایک پرو اسرائیلی لکھاری نور ڈہری نے ایک نقشہ شیئر کیا، جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ برطانیہ اور نیٹو کے کارگو جہاز اسرائیل کو مسلسل سپلائی فراہم کر رہے ہیں۔ امریکی جنگی بیڑے کے خطے میں اسرائیلی مدد کے لیے آمد کا اعلان تو پہلے دن ہی ہوگیا تھا اور یہ کوئی زخمیوں کی مرہم پٹی کے لیے نہیں آیا اور نہ ہی اسرائیل کو اس کے مظالم سے باز رکھنے کے لیے آیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ بات بھی بڑے تواتر سے کی جا رہی ہے کہ امریکہ سمیت کافی ممالک کے شہری مارے گئے ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ ابھی امریکہ سے آئے ہوں، اسرائیلی آبادی کی اکثریت ہی دہری شہریت کی حامل ہے، کیونکہ یہ لوگ مقامی نہیں ہیں۔ انہیں صرف ایک مذہب سے تعلق کی وجہ سے دنیا بھر کے ممالک سے اٹھا کر اسرائیل لایا گیا ہے اور اس پورے عمل کو ایک مقدس عنوان دے کر ایک مذہب سے جوڑ دیا گیا ہے۔ ہر گزرتا دن دنیا امریکہ سمیت مغربی دنیا کی انسانیت دشمن پالیسی کو واضح کر رہا ہے، ان لوگوں کے پاس اپنے مفادات ہی سب کچھ ہیں، یہ کسی انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کو نہیں مانتے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply