ڈنکی روٹ بائی ائیر/اقتدار جاوید

اب ڈنکی روٹ والوں کی نئی منزل جزیرہ مالٹا ہے۔
مالٹا اٹلی کا ہی جزیرہ ہے اور امیر ممالک میں شمار ہوتا ہے۔وہاں اب پاکستان کا قونصل خانہ کھلنے والا ہے۔بہت سارے پاکستانی اب اٹلی سے وہاں جانے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ وہاں فی کس آمدنی چھیالیس ہزار ڈالر ہے جو پاکستانی کرنسی میں سوا کروڑ روپیہ سے بھی زیادہ بنتی ہے۔ اب اٹلی میں رہنے والے زیادہ تر پاکستانی مالٹا کا رخ کر رہے ہیں۔اب چند دنوں میں اٹلی میں امیگریشن شروع ہونے والی ہے یہی وجہ ہے کہ آئے دن کشتیوں میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا موت کا سفر جاری ہے۔اسی جلد کھلنے والی امیگریشن   کی وجہ سے لوگ دھڑا دھڑ اٹلی کا رخ کر رہے ہیں ان میں کچھ Lovely جیسے خوش نصیب وہاں پہنچ جاتے ہیں اور کچھ بحیرہ روم کے پانیوں میں ڈوب جاتے ہیں۔ مرد عورتیں کشتیوں کے ذریعے وہاں پہنچنے کے لیے بے موت مر رہے ہیں۔لولی Lovely کا کہنا ہے اب ہمارا رخ مالٹا کی طرف ہے۔یہ سسلی کے ساتھ بحیرہ روم کے تین جزیروں گوزو،کمینو اور مالٹا پر مشتمل ہے۔مالٹا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔ وہاں اپنا ملک پاکستان اپنا قونصل خانہ بنانے جا رہا ہے.
ڈنکی روٹ میں دولت کا وہ طلسم چھپا ہے کہ اس موت کے سفر پر ہر روز نوجوان اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں مگر ڈنکی روٹ یا موت کا سفر جاری رہتا ہے۔ پاکستان کے بے روزگار اپنے مستقبل سے مایوس نوجوان اپنی جان خطرے میں ڈال کر چھ چھ ماہ اور سال دو سال کا سفر اختیار کرتے ہیں۔اس میں سفر سڑک کے ذریعے بھی اور کشتی کے ذریعے بھی کیا جاتا ہے۔چونکہ ڈرگ اور انسانی سمگلنگ میں کمائی کی فراوانی ہے اس لیے اب ائر لائینز بھی اس کاروبار میں شریک ہو گئی ہیں اور ملکوں میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے مگر دوسرے ممالک سے ہمیں کیا غرض، ہمیں تو اپنی نوجوان باصلاحیت نسل سے غرض ہے کہ آخر کیا وجہ ہے وہی نوجوان طبقہ یہاں تعلیم بھی حاصل کرتا ہے بیروزگار بھی ہوتا ہے مگر وہی نوجوان جب مغربی ممالک میں جاتے ہیں تو وہاں وہ کامیاب بھی ہوتے ہیں وزیر اعظم تک بن جاتے ہیں۔ اپنا اور اپنے خاندان کا مستقبل بھی محفوظ کرنے پر قادر ہوتے ہیں۔

اب ڈنکی روٹ کا نیا اور جدید طریقہ بھی متعارف ہوا ہے جس میں اطلاعات کے مطابق آسانی ہی آسانی ہے۔
یعنی اب پاکستان سے بذریعہ ائیر یورپ جانے کا ڈنکی روٹ مہنگا ضرور ہے ناممکن ہر گز نہیں۔یہ سہولت پاکستان کے ائرپورٹس پر موجود ہیں۔اس انسانی سمگلنگ میں باقاعدہ نیٹ ورکنگ کے ذریعے ہی آسان بنایا جا سکتا ہے۔انفرادی کوششوں میں جان سے جانے کا خطرہ سو فیصد ہوتا ہے اور قانونی نیٹ ورکنگ کے ذریعے آسانی سے منزل مقصود یعنی یورپ یا پیرس پہنچا جا سکتا ہے۔
پوری دنیا میں انسانی سمگلنگ کے پانچ معروف اور بدنام ترین اقسام ہیں ان میں بیگار، جرائم کی دنیا کے لیے انسانی سمگلنگ، جنسی مقاصد کے لیے عورت کی سمگلنگ، انسانی اعضا کی خرید و فروخت اور آخر میں لوگوں کی سمگلنگ شامل ہے۔

ملکی معاشی حالات تو واقعی اس قابل ہیں کہ یہاں نوجوان نسل نکلنا چاہتی ہے مسئلہ یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اس سمگلنگ میں ایک معاون کا کردار ادا کرتے ہیں۔لولی Lovly جو اب اٹلی پہنچ چکا ہے وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سو سو دعائیں دیتا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ اگر وہ سمگل ہو کر اٹلی تک نہ پہنچتا تو نہ اس کے والدین پاکستان میں عام معمولی بیماری کا علاج کروانے کے بھی قابل نہیں ہونے تھے۔ان کے پاس اتنا کرایہ بھی نہ تھا کہ کسی اچھے ہسپتال پہنچ جاتے۔چونکہ لولی Lovely اور باقر اور ہم ایک گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں وہ ہمیں اٹلی کے حالات اور ہم انہیں اپنے ملک اور ان کے گھر والوں کے حالات سے باخبر رکھتے ہیں۔اب Lovely نے کہہ دیا ہے کہ اسے اس کے گھر کے حالات بتانے کی ضرورت نہیں اس کے والدین اچھی خوارک کھاتے ہیں اور بیماری کی صورت میں ڈاکٹر اس کے گھر آ کر دوا دارو دے جاتا ہے۔اس کا کہنا ہےاس کا چھوٹا بھائی اب کالج جانے لگا ہے۔اس نے ایک کار بھی خرید لی ہے اور اب ہم نیا گھر بنانے کا بھی سوچ رہے ہیں۔ Lovely کا کہنا ہے کہ وہ اب اٹلی سے مالٹا جانے کا پروگرام بنا رہا ہے۔

ذرائع اور خود نیپرا کے چیئرمین کے مطابق اس اکیسویں صدی میں بھی اپنے ملک کی پانچ کروڑ کی آبادی اب بھی بجلی جیسی سہولت سے دور ہے۔تعلیم روزگار صحت کے مسائل تو دور کی بات ہے۔یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بلوچستان کے دار الخلافہ کی دو آبادیوں جبل نور اور موسیٰ کالونی انسانوں کی سمگلنگ کی منڈیاں قائم ہیں۔یہاں باقاعدہ فروٹ منڈی کی طرح عام انسانوں کی بولی لگتی ہے۔پنجاب بلوچستان اور سندھ کے رہنے والوں سے پانچ ہزار کی رقم وصول کی جاتی ہے اور انہیں ایران کے بارڈر تک پہنچایا جاتا ہے۔ اگر بلوچستان کے صوبے کی پسماندہ برادری سے کوئی تعلق رکھتا ہو تو اس سے ڈبل رقم وصول کی جاتی ہے۔وہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناک تلے یہ سارا ” قانونی کاروبار ” ہوتا ہے۔اس رسوا کن مرحلے کے گزرنے کے بعد اس طرح کے درجنوں مقام آتے ہیں یہاں تذلیل بھی کی جاتی اور مارا پیٹا بھی جاتا ہے۔رستے میں بارڈر فورس سے پہلے سمگلنگ کرنے والے گروہوں کے ہاتھوں بھی ہلاکت کوئی انہونی بات نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم نے کہا Lovely تو کتنا سمجھدار ہو گیا ہے۔اس کا کہنا تھا اس کے دل سے موت کا ڈر ختم ہو گیا ہے مگر آسان ترین طریقہ ہے کہ لمبا پیسہ دو نہ ویزا نہ ٹکٹ کا جھنجٹ۔جہاز میں بیٹھو اور راتوں رات پیرس میں اتر جاؤ۔اب اپنے ملک سے سیدھا پیرس نہ ڈنکی روٹ نہ بحیرہ روم میں ڈوب مرنے کا خطرہ۔پاکستان کی فضائی سروس دیگر اداروں کی طرح یونہی تو اس حال تک نہیں پہنچی۔

Facebook Comments

اقتدار جاوید
روزنامہ 92 نیوز میں ہفتہ وار کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply