عدالت یا ہجوم

عدالت یا ہجوم
مرِزا مدثر نواز
سقراط کو شاید دیوتاؤں کی توہین یا ان کے انکار جیسے الزامات کا سامنا تھا جس کی وجہ سے اس پر مقدمہ چلا ‘ سزائے موت سنائی گئی اور اسے زہر کا پیالہ پینا پڑا۔ مقدمہ کے دوران سقراط نے وہ تاریخی کلمات کہے جو آج بھی زندہ ہیں کہ یہ عدالت نہیں بلکہ ہجوم ہے اور ہجوم سے انصاف کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ہجوم پر یہ لازم نہیں کہ وہ کسی بھی سنی سنائی بات کی تحقیق کرے بلکہ بھیڑ چال کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا فیصلہ صادر کرتا ہے جس میں رحم ‘ نرمی اور انسانیت جیسے الفاظ کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہجوم یہ نہیں دیکھتا کہ فلاں ڈاکو ہے یا نہیں اور اگر ہے بھی تو اس پر تشدد کرنے کے بعد تیل چھڑک کر آگ لگائی جا سکتی ہے؟ ہجوم کو یہ معلوم کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کہ دو نوجوان صبح سویرے ڈکیتی کی غرض سے آئے تھے یا اپنی عزت و غیرت کے رکھوالے بن کر۔ ہجوم سے صرف ایک ہی توقع کی جا سکتی ہے اور وہ ہے بے رحمی‘ ظلم و نا انصافی۔
لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں کیوں لیتے ہیں اور خود ہی مدعی و منصف بننے کی کو شش کیو ں کرتے ہیں اس کی ایک وجہ قانون کے اداروں اور انصاف کے نظام پر عدم اعتمادہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو اور قانون صرف امراء کے گھر کی لونڈی کا کردار ادا کرے وہاں مشال خان جیسے واقعات کوئی غیر معمولی بات نہیں ۔ دنیا ترقی کی منازل کی انتہا کو پہنچنے والی ہے لیکن جنگل کا قانون آج بھی ایک مختلف شکل میں موجود ہے اور شاید ہمیشہ موجود رہے گا۔ کہا جا تا ہے کہ ایک نئی عمارت کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ اسے بنیادوں سے اٹھایا جائے لیکن مملکت پاکستان آج بھی انگریزوں کی بنائی ہوئی بنیادوں پر کھڑی ہے ۔ وہی قانون اور نظام انصاف آج بھی نافذ ہے جو اس دور کی بیورو کریسی‘ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے مفادات کو مد نظر رکھ کر تشکیل دیا گیا۔
انگریز کی تربیت یافتہ وہی بیورو کریسی اور وفادار جاگیردار و سرمایہ دار اس ملک پر قابض ہو گئے جنہوں نے آج تک اس نظام انصاف کو تبدیل کرنے یا بہتر بنانے کا سوچا تک بھی نہیں کیونکہ یہی تو ہے جو ان کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ایسا عدالتی نظام جو منی لانڈرنگ میں ملوث ماڈل کو ضمانت پر رہا کر دے اور بیرون ملک جانے کی اجازت بھی دے دے لیکن تفتیشی پولیس افسر کے قتل کو کوئی اہمیت نہ دے‘ جو اربوں کی کرپشن میں ملوث اوگرا کے سابق چیئرمین کا کچھ نہ بگاڑ سکے‘ جو دو دفعہ آئین توڑنے والے اور ملک کو بد امنی کا تحفہ دینے والے پر مقدمہ چلانے سے قاصر ہو‘ جو وکٹری کا نشان بنانے والے قاتلوں کو باعزت بری کر دے لیکن مظلوم خاندان کو ملک میں تحفظ فراہم نہ کر سکے‘ جو مقدمات کو صرف اس لیے طول دے کہ وکلاء کا کاروبار متاثر نہ ہو‘ جو ملزم کی موت کے سالوں بعد اسے رہا کرنے کا حکم دے‘ جسے فیصلہ سنانے میں سالوں کا وقت درکار ہو اور اتنے میں مدعی اپنی زندگی کی بازی ہار جائے‘ جو مدعی کو انصاف لینے کی خاطر مقروض کر دے‘ جو صرف طاقتور کو تحفط دے‘ جو قوانین کا غلط استعمال کرنے والوں پر قدغن نہ لگائے تو ایسے عدالتی نظام انصاف کے ہوتے ہوئے ہجوم اپنے فیصلے صادر کرتا رہے گا۔ اگر سیالکوٹ واقعے میں انصاف کے تقاضے پورے کیے جاتے اور مجرموں کو سنائی جانے والی سزا پر عمل درآمد کیا جاتا تو آئندہ ایسے واقعات سے بچا جا سکتا تھا ۔ گزشتہ دنوں زیر بحث بلاگرز کے خلاف مکمل تحقیقات کی جاتیں اور ان پر عائد الزامات کو عدالت میں غلط یا درست ثابت کیا جاتا تو مشال خان جیسا اندوہناک واقعہ رونما نہ ہوتا ۔ لوگوں پر توہین مذہب کے الزامات لگا کر ان کے خلاف الزام ثابت نہ کرنا ایسے ملزموں کو ہجوم کے حوالے کرنے کا دانستہ فیصلہ ہے۔ کوئی کتنا ہی گنہگار اور بد کردار کیوں نہ ہواور مذہب کو اپنی زندگی میں لاگو نہ کرتا ہو وہ مذہب کی توہین برداشت نہیں کر سکتا اور جذباتی انداز میں ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ میں نے لوگوں کو مذہب کی خاطر لڑتے‘ جھگڑتے اور مرتے دیکھا ہے لیکن اس پر عمل کرتے نہیں دیکھا۔ اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ توہین مذہب کے الزامات کے پیچھے زیادہ تر ذاتی رنجشیں اور مفادات ہوتے ہیں لہٰذا عوام کو کوئی بھی رائے قائم کرنے سے پہلے معاملے کی مکمل تحقیق کر لینی چاہیے اور یہی حکم ہے۔ ضروری نہیں کہ جو کہا جا رہا ہو وہی سچ ہوملزم اور مجرم میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ارشاد ربانی ہے
ترجمہ: اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دوپھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاؤ۔ (الحجرات،۶)
مشال خان کے اندوہناک قتل جیسے واقعات این جی اوز اور مغرب کے دعوٰی کو تقویت بخشتے ہیں جو ایک عرصہ سے توہین رسالت قانون کو ختم کروانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایسے واقعات کو بنیاد بنا کر عالمی میڈیا اسلام کو ایک متشدد مذہب ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے حالانکہ یہ تو وہ مذہب ہے کہ جب اس کے رہبر اعلیٰ اور سید کائنات ﷺ نے طائف کا سفر کیا اور وہاں کے لوگوں کو ایک اللہ کی طرف بلایا تو جواب میں انہوں نے اوباشوں کو آپﷺ کے پیچھے لگا دیا جنہوں نے پتھر مار مار کر اتنا زخمی کر دیا کہ آپﷺ کے جوتے خون سے بھر گئے۔ فرشتے حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں کہ اگر آپ حکم دیں تو دونوں پہاڑوں کو آپس میں ملا دیں اور یہ بیچ میں پس کر رہ جائیں لیکن رحمت للعالمین ان کے لیے ہدایت مانگتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر یہ اس وقت میرا انکار کر رہے ہیں تو ان کی آنے والی نسلوں میں ایسے لوگ ضرور ہوں گے جو ایک اللہ کی عبادت کریں گے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply