پوٹھوہاری لوک ادب میں لوریاں۔۔۔ فیصل عرفان فیصل

وہ میٹھے بول،گیت یا باتیں جو ایک ماں اپنے لاڈلے بیٹے کو جگانے یا سلانے کے دوران دھیمی لے میں گنگناتی ہے ،اُسے لوری کہتے ہیں،ان میٹھے بولوں میں جہاں ایک ماں کے اپنے بیٹے کے لیے اپنے دل میں چھپے ہوئے ارمانوں،امیدوں اور خواہشات کا اظہار ہوتا ہے وہیں اس بچے کے بہتر مستقبل کے لیے ڈھیروں دعائیں بھی موجود ہوتی ہیں،ماں باپ اپنی اولاد کیلئے ہمیشہ اچھا ہی سوچتے ہیںاس تصور سے قطع نظر کہ بچہ بڑا ہوکر ان سے کیا سلوک کرے گا،جھولے میں یا اپنی جھولی میں سلاتے وقت ایک ماں کا دھیان آنے والے وقت کی طرف پلٹ جاتا ہے اور وہ اپنے خوابوں ،امیدوں اور خواہشات کو لوریوں کے روپ میں گنگنا کر نہ صرف خود محظوظ ہورہی ہوتی ہے بلکہ آس پاس موجود بچے کے دیگر قریبی رشتے داروں کو بھی اپنے سہانے خوابوں کا گواہ بنا رہی ہوتی ہے۔محققین کے مطابق اولین لوری کا کھرا 2ہزار سال قبل مسیح میں جاکر ملتا ہے،لیکن میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کوئی نہ کوئی اولین لوری اس وقت معرض وجود میں لازمی آئی ہوگی جب اللہ پاک نے حضرت آدم اور حضرت حوا کو زمین پر بھیجنے کے بعد ہابیل،قابیل اور حضرت شیث کی صورت میں انہیں اولاد سے نوازا ہوگا،یہ بچے اپنی پیدائش کے بعد کسی موقع پر تو روئے ہونگے اور آدم و حوا نے انہیں چپ کرانے یا بہلانے یا سلانے کے لیے کوئی بول،کوئی آیت یا کوئی اور لفظ یقیناََ گنگنایا ہوگا۔
دنیا کے ہر کونے میں بسنے والے لوگ ازل سے ہی اپنے بچوں کو لوریاں سناتے ہیں،ہر مذہب اور عقیدے کے ماننے والے اپنے بچوں کو اسی عقیدے کی مناسبت سے ہی زیادہ تر لوریاں سناکر سلاتے یا گنگناتے ہیں،برصغیر کی بات کریں تو یہاں بسنے والے ہندؤں اور سکھوں کی لوریوں میں دیوی دیوتاؤں کی بہادری اور بابا گرونانک کے قصے موجود ہوتے،مسلمان گھرانوں میں بچوں کو سنائی جانیوالی لوریوں میں اللہ پاک کی حمد وثناء حضرت محمد ۖکی تعریف وتوصیف اور شہدائے کربلاء کی عظمت کے تذکرے ملتے ہیں،اسکے ساتھ ساتھ ان لوریوں میں بھوت پریت،جنوں،چڑیلوں،پریوں اور دیگر مافوق الفطرت مخلوقات سے بچوں کو ڈرایا بھی جاتا ہے۔
پوٹھوہاری لوک ادب میں لوری کو وہی مقام حاصل ہے جو دیگر زبانوں کی لوریوں کا ہے،یہ لوریاں سینہ بہ سینہ منتقل تو ہورہی ہیں لیکن انہیں کتابی شکل میں شائع کرنے کی کبھی باضابطہ کوشش نہیں کی گئی،خطہ پوٹھوہار میں جب کسی گھرمیں بیٹا پیدا ہوتا ہے تو کم ازکم چالیس ایام تک خواجہ سراء اور گانے بجانے والے اس گھر کے چکر لگاتے رہتے ہیں،اس موقع پر ڈھول یا ڈھولکی کی تھاپ پر بچے کی آمد کے گیت سنائے جاتے ،جسے سن کر بچے کے والدین اور عزیز و اقارب محظوظ ہوتے اور اپنی استطاعت کے مطابق نقدی کے علاوہ،مٹھائی،کپڑے ،گھی اور چینی یا شکر وغیرہ بھی دے کر رخصت کرتے ہیں،راقم کو دستیاب پوٹھوہاری زبان کی لوریوں میں حیرت انگیز طور پر بھوت پریت،جنوں،چڑیلوں،پریوں اور دیگر مافوق الفطرت مخلوقات کے تذکرے تو نہیں ملتے لیکن اللہ کی اطاعت،اسوہ رسولۖ پر عمل پیرا ہونے کی ترغیت اور اہل بیت اطہار کی مودت ومحبت کااظہار جا بجا موجود ہے۔قارئین کی دلچسپی کیلئے چندپوٹھوہاری لوریاں ذیل میں پیش کی جارہی ہیں۔
چہھوٹے لالے
مچھیاں کٹالے
مچھی گئی پانڑیں
اَگوں ملی ناانڑیں
نانڑیں دِتا چہھوٹا
کھڑ چنبے ناں بُوٹا
نانڑیں پکائیاں روٹیاں
کھا کُکڑے نیاں بوٹیاں
…یہ ایسے بھی گائی جاتی ہے…
چہھوٹے لارے
مچھیاں کٹارے
مچھی گئی پانڑِیں
اَگوں ملی نانڑِیں
نانڑِیں پکائیاں روٹیاں
کھا ہ کُکڑے نیاں بوٹیاں
ہم کراں کے بیل
ہم
بیل بیل بیل
(نوٹ:چُہھوٹے۔ جھولے،لیٹ کر بچے کو پاوں اور کھٹنوں کے درمیاں پنڈلیوں پر لٹا کے جھولے دیتے اور ذرا اونچا کر کے بیل بیل کرتے ہیں،بن پھلواری میں افضل پرویز نے صفحہ نمبر75پراس لوری کا پہلا مصرعہ ایسے لکھا ہے۔” جھوٹے لارے…مچھیاں نیں کھارے”اسی طرح انہوں نے آخری مصرع ”ٹا۔۔ٹئی۔۔۔۔۔بلو کتھے چلی گئی”لکھا ہے۔پوٹھوہار میں بعض علاقوں میں ”چہھوٹے لارے۔۔مچھیاں کٹارے”بھی لکھا،پڑھا اور گنگنایا جاتا ہے،بعض علاقوں میں نانڑیں (نانی)کی جگہ رانڑیں (رانی)بھی مستعمل ہے اور یہ لوری ”نانڑیں دِتا چہھوٹا۔۔کھڑ چنبے ناں بُوٹا”کے بغیر بھی گائی جاتی ہے جو شیراز طاہر نے اپنی مرتب کردہ کتاب”پوٹھوہاری ادب کی تاریخ ”میں صفحہ نمبر 39پر لکھی ہے،اصل چُہھوٹے لارے مچھیاں کٹارے ہی ہے جو بچے کی نقل کرتے توتلی زبان میں لالے، کٹالے کہہ دیتے۔اسی طرح لفظ چُہھوٹے ہی ہے جو درست املا نہ لکھنے کی وجہ سے جھوٹے لکھا جاتا رہا)
()
اللہ ہو اللہ ہو
سیئی روہ توں
دُر دُرکتیا
جنگل پرانڑیں
ٹہھوڈر کھانڑیں
(محقق یاسر کیانی کے مطابق” ٹہھوڈر” پہاڑی کوا جو مکمل کالا اور عام کوے سے بڑا ہوتا ہے)
()
دُر دُر کتیا
جنگلیں ستیا
جنگلے چ لغی لڑائی
تُہکی خبر نہ آئی
شیراز طاہر نے اپنی مرتب کردہ کتاب”پوٹھوہاری ادب کی تاریخ ”میں صفحہ نمبر 39پر یہ لوری ایسے لکھی ہے
ڈُر دُرکتیا
جنگلاں سُتیا
جنگلاں لغی لڑائی
مہھاڑے کاکے نی موٹر آئی
()
اللہ کاکا سیئی روہ توں
تہھاڑی بودی اِچ پیئی گی جوں
کڈنیں آلیاں ماسیاں
کڈھانڑیں آلا توں
(نوٹ:صرف۔ ” اللہ کاکا توں ” بھی بولتے ہیں ،اسی طرح رشتے بدل بدل کر گنتے ہیں۔ ماسیاں، ماسی، دِدّیاں، پہھینڑاں، پہھینڑ، پھوپیاں، بُبو، بے، ما، نانڑِیں ، دادی وغیرہ )
()
لا الا اللہ محمدرسول اللہ
اللہ بودی مہھاڑا کاکا سیئی گچھے
()
اللہ ایں توں والی ایں توں
اللہ ایں توں راکھا ایں توں
چنے ناں توں والی ایں
نور ناں توں والی ایں
حیدر ناں توں والی ایں
بدر ناں توں والی ایں
ہر بوٹا ہر ڈالی ایں توں
اللہ ایں توں والی ایں توں
()
اللہ ہوزاری،اللہ ہو زاری
اَگے اَگے آپ نبیۖ
پچھے اُمت ساری
()
اللہ اللہ لوری
دُدھ پہھری کٹوری
کٹوری وچ پتاسا
عنایہ کرے تماشا
(آخری مصرعے میں عنایہ کی جگہ کو بھی نام لکھا جاسکتا ہے۔اسی طرح بعض لوگ عنایہ کرے تماشا کو کاکا کرے تماشا بھی لکھتے ہیں)
()
گڈی آئی اے لینڑو لینڑ میاں
وچ بیٹھے حسن حسین میاں
او کرنے نی اُچے بیان میاں
پڑھو لاالہ الااللہ
حق لا الہ الا اللہ
گڈی آئی آ تہھوڑ و تہھوڑ میاں
وچ بیٹھے نیں پاک رسول میاں
او کرنے نی اُچے بیان میاں
پڑھو لاالہ الااللہ
حق لا الہ الا اللہ
()
الڑ بلڑ باوے ناں
باو اکنڑک کھٹسی
باوی بہی کے چھٹسی
باوا پیہائی کے آنڑسی
باوی رُٹیاں پکاسی
کاکا بہی کے کھاسی
بچے کی ولادت پر پوٹھوہار کے دیہی علاقوں میں گانے بجانے والی خواتین بچے کے گھر پہنچ کر ڈھولکی کی تھاپ پر یہ گیت بھی گاتی ہیں۔
کاکا اللہ دِتا وے غریباں منگی دُعا
صدقہ مولا ناں رب رونڑق دِتّی لوا
بُوہ چاچے نی چہھولی
چاچا ہزار رپیہ کھولی
کاکا اللہ دِتا…
بُوہ مانویں نی چہھولی
مانواں ہزار رپیہ کھولی
کاکا اللہ دِتا…
بُوہ ماسی نی چہھولی
ماسی ہزار رپیہ کھولی
کاکا اللہ دِتا…
چڑھ کہھوڑی چڑھ کہھوڑی
تہھاڑے نال پہھائیاں نی جوڑی
کاکا اللہ دِتا…
انگلیاں نیں پوٹے
ہر دم جی چناں نیں ٹوٹے
کاکا اللہ دِتا وے غریباں منگی دعا
صدقہ مولا ناں رب رونڑق دتّی لوا
نوٹ:۔مضمون نگارپوٹھوہاری زبان کے شاعر،محقق اور روزنامہ نوائے وقت اسلام آباد میں سب ایڈیٹر ہیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply