• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • غالب کا شعر،ستیہ پال آنند کی نظم، شمس الرحمٰن فار وقی کا ای میل تبصرہ

غالب کا شعر،ستیہ پال آنند کی نظم، شمس الرحمٰن فار وقی کا ای میل تبصرہ

خیال ِ مرگ کب تسکیں دل ِ آزردہ کو بخشے
مر ے دام ِ تمنا میں ہے اک صید ِ زبوں، وہ بھی
(مرزا غالب)

ستیہ پال آنند کی نظم

مجھے تو سیدھی سادی بات کرنےکا سلیقہ ہے
مجھےیہ استعارہ غیر شائستہ سا لگتا ہے
کہاں “صید زبوں” کا استعارہ اور کہاں “تسکیں”
خیال ِ مر گ “کی صیاد سے نسبت بھلا کیا ہے؟

مر زا غالب
مثالیں دام کی تشبیہ کی لاکھوں ہیں، ستیہ پال
تماثل اور تشاکل میں ہیں یہ ہم وضع، اک جیسی
یقیناً “دام” کی تشبیہ متقارب ہے، اک تمثال

ستیہ پال آنند
اجازت ہو تو میں اس کو ذ را تفصیل سے کہہ دوں
کہ گویا آپ کا دل بھی ہے اک “دام ِ تمنا” سا
مقید ہیں تمناؤں  کے گویا اژدہام اس میں
“خیال ِمرگ ” بھی شامل ہے ا س دام ِ تمنا میں
مگر “صید ِ زبوں” سی ہے یہ خواہش، لاغر و بے حس
اب اس میں اتنی ہمت بھی نہیں ہے، دام سے نکلے
“دل ِ َ افسردہ ‘‘ کو  اب کیسے تسکیں کا سہارا ہو؟

مر زا غالب
سبق دہرا دیا اک طفل مکتب کی طرح تم نے
مگر کچھ زاویوں پر غور کر نا بھی ضروری تھا
ردیف اک خاص مقصد کی محرک ہے، عزیزی، یاں
ذرا سوچو کہ ـ’’وہ بھی‘‘ـ کا یہاں کیا خاص مقصد ہے۔

ستیہ پال آنند
ـــ’’مرے دام تمنا میں ہے اک صید ِ زبوں، وہ بھی‘‘
یہاں پر ’ بھی‘‘ تو ، حضرت، ر بط کا کلمہ ہےسیدھا سا
بہت سے اور بھی ’’صید ِ زبوں‘‘ ہیں، اس کا مطلب ہے
کہ ہے یہ صید بھی ان کی طرح ہی نیم جاں، لاغر

مر زا غالب
یہ دل کا ہی قفس ہے جس میں لا تعداد ارماں ہیں
ہزاروں آرزوئیں ہیں اس اِک دام تمنا میں
سبھی مریل ہیں، لاغر، خستہ جاں ہیں، بے سہار ا ہیں
انہی میں اک ’’خیال مرگ‘‘ بھی شامل ہے مدت سے
تمنائے نشاطِ مرگ ، خود میں ہے اگر کمزور
دل ِ ِ آزردہ کو تسکیں کا ساماں کیا بھلا دے گی

ستیہ پال آنند
یہ داؤ  پیچ سارے شعر سازی کے تو کیا سمجھوں
مگر خود آپ لاثانی ہیں ان میں، جانتا ہوں میں

ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی کے (ای میل مکتوب) سے کچھ مندرجات
کچھ نکات کو آپ نے سرسر ی طور پر ہی دیکھا ہے۔ اگر آپ حسرت موہانی پر تکیہ کرتے تو آپ یہ لکھنا نہ بھولتے کہ دل کے دام تمنا میں جو آرزوؤں کا بازار گرم ہے اس میں کچھ آرزوئیں ایسی بھی ہیں جو تمنائے مرگ سے بھی زیادہ اہم ہیں۔ اسی خیال کو لے کر ان کے ہم وطن بیخود موہانی نے کہا تھا کہ جس دل پر مردنی چھائی ہوئی ہو اس کا علاج تو صرف موت ہے، لیکن صرف موت کی طلب ہی کافی نہیں ہے۔

غالب کے ہاں ردیف ایک مخصوص معنی کی حامل ہے۔ “وہ بھی” کا مطلب کیا ہو سکتا ہے اس پر آپ نے بالکل غور نہیں کیا۔ “اک صید ِ زبوں وہ بھی”۔۔ مراد یہ ہے کہ اور صید زبوں تو اس زمرے میں لا تعداد ہیں جو لاغر یا کمزوربھی ہیں، لیکن ایک یہ ہے جو شایدبعد میں وارد ہوا ہے۔ یعنی آرزوئے مرگ نئی ہونے کے باوجود کہنہ سال دیگر تمناؤں کی طرح ہی کمزور، لاغر اور مریل ہو چکی ہے اور اس میں ا تنی سکت نہیں ہے کہ قفس توڑ کر باہر نکلے۔

میں نے اس شعر کی تفہیم میں کہا تھا کہ آرزوؤں کو جانور یا طائر فرض کرنا ایک ایسی ندرت کا کام تھا جو غالب سے پیشتر کسی نے بھی نہیں کیا۔ اس میں ایک دقیقہ یہ بھی تھا کہ جانور کی قربانی بھی دی جا سکتی ہے۔ اگر مقصد براری کی کوئی امید ہو تو ہم سب جانور، یعنی مدت المدید سے دل میں مقید سب آر زوئیں قربان کر دیں ، ایک مرگ ِ ناگہانی کی خاطر۔۔۔

۔۔۔۔ بہر حال یہ سلسلہ اب قبول ِ عام کی سند کا اہل ہو رہا ہے۔ اسے جاری رکھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(ذاتی یا غیر متعلق مندرجات حذف کر دیے گئے ہیں )

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا