کیا آپ ‘سونک بوم’کے بارے میں جانتے ہیں ؟

آسان الفاظ میں اگر بیان کیا جائے تو سونک بُوم اسے کہا جاتا ہے جب کوئی جنگی جہاز آسمان میں آواز کی رفتار سے بھی تیز اُڑے۔ اس کے نتیجے میں ایک دھاڑتی ہوئی آواز پیدا ہوتی ہے۔

سونک بُوم زمین پر گرج یا پھر دھماکے کی مانند سنائی دیتا ہے۔

لینکیسٹر یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر جِم وائلڈ نے بتایا کہ ’جب کوئی جنگی جہاز آواز کی رفتار سے تیز اڑتا ہے اور ہوا میں اپنی جگہ بناتا ہوا جاتا ہے اور کیونکہ ہوا اس کے راستے سے جلدی نہیں ہٹ پاتی لیکن جہاز کے اسے تیز رفتاری چیرنے کے نتیجے میں ایک آواز پیدا ہوتی ہے جو زمین پر گرجنے یا پھر دھماکے کی مانند لگتی ہے۔ ‘

ڈاکٹر جِم وائلڈ کو بی بی سی پر اس وقت یہ وضاحت دینے کے لیے بلایا گیا تھا جب 2012 میں ایک پورے برطانیہ میں گرجنے یا دھماکے جیسی آوازیں سنائی دی تھیں۔ برطانیہ کی وزارتِ دفاع نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’ٹائفون فائٹر‘ جہازوں کو تب روانہ کرنا پڑا جب ایک سویلین جہاز کی طرف سے ایمرجنسی سگنل بھیجا گیا تھا۔‘

کیا سونک بُوم خطرناک ہوسکتے ہیں؟

اس کے بارے میں ماہرِ فزکس بتاتے ہیں کہ اس جہاز سے پیدا ہونے والی آواز خاصی کمزور ہوتی ہے جو کسی بھی انسان کو جسمانی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔

ہاں، اگر یہی جہاز کم اونچائی پر اڑیں اور عام جہاز کی نسبت زیادہ بڑے ہوں تو اس سے آس پاس کی عمارتوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سائنسدان بتاتے ہیں کہ سونک بُوم سے نقصان اس صورت میں پہنچ سکتا ہے اگر اس سے پیدا ہونے والا پریشر 600 گنا زیادہ ہو۔

سونک بوُم کی پیمائش پاؤنڈ میں کی جاتی ہے۔ ناسا کے مطابق ایک پاؤنڈ کے اوور پریشر پر کسی بھی عمارت کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ جبکہ اسی پریشر کو اگر ایک عشاریہ پانچ پاؤنڈ اور 2 پاؤنڈ کے درمیان بڑھا دیا جائے تو لوگوں کی طرف سے ردعمل آنا شروع ہوجائے گا۔

کچھ کیسز میں 2 سے پانچ پاؤنڈ پریشر بڑھانے پر عمارتوں اور لوگوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ناسا کے مطابق انسانوں کی سننے کی صلاحیت تب متاثر ہوتی ہے جب اوور پریشر 700 پاؤنڈ سے تجاوز کرجائے۔ جبکہ 2160 پاؤنڈ کے اوورپریشر سے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچتا ہے۔

سونک بوُم کی تاریخ

امریکی خلائی ایجنسی ناسا کا کہنا ہے کہ دنیا کا پہلا سونک بُوم طیارہ بیل ایکس ون روکٹ جہاز تھا جس نے 1947 میں پہلی مرتبہ آواز سے تیز پرواز کرتے ہوئے ساؤنڈ بیرئیر توڑا تھا۔ یہ لمحہ اس قدر یادگار تھا کہ اسے نہ صرف ٹوم وولف کی کتاب دی رائٹ سٹف بلکہ اسی نام کی ایک فلم میں بھی عکس بند کیا گیا تھا۔

1947 سے 1970 کے درمیان اینگلو فرانسیسی ایوی ایشن نے سپر سونک طیاروں پر کام کرتے ہوئے ایسی پروازیں متعارف کروائیں جو امریکہ سے یورپ ساڑھے تین گھنٹے میں پہنچا دیتی تھی جس میں اس سے پہلے آٹھ گھنٹہ کا وقت لگتا تھا۔

لیکن کونکورڈ کہلائی جانے والی یہ فلائٹ مسافروں میں زیادہ مقبول نہیں رہی جس کے نتیجے میں اسے 2003 کے بعد نہیں اڑایا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جبکہ 1973 کے بعد سے امریکہ کی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن نے سپر سونک طیاروں پر پابندی عائد کی ہے۔ تاہم فوجی جنگی طیارے اور سپیس ایجنسی کو استثنا حاصل ہے۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply