میرٹھ چھاؤنی،کیمپ نمبر 28میں گزارے22ماہ(22)-گوہر تاج

ایسے انسان کی آپ بیتی  جنہوں نے باوجود صدمات کو جھیلنے  کے اپنی زندگی کے ان واقعات کو دہرانے کی خواہش ظاہر کی جس کے وہ عینی شاہد تھے تاکہ تاریخ کے صفحات پہ انکے سچ کا اضافہ ہوسکے۔یہ داستان ہے 64سالہ ڈاکٹر انور شکیل کی، جو آج کینیڈا کے شہری ہیں ۔ انہوں نے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ایک اُردو زبان بولنے والے بہاری خاندان میں آنکھ کھولی ۔ اور سقوط ڈھاکہ کے سانحہ اور جنگ میں ہارنے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ انڈیا کے شہر میرٹھ کی چھاؤنی کے کیمپ نمبر 28 میں زندگی کے 22 ماہ کی قید کاٹی۔

21ویں قسط کا لنک

قسط 22

جیوۓ جیوۓ جیوۓ پاکستان

منزل کی جانب رواں سارے ٹرک ایک مقام پہ رُک گئے تھے۔ اس جگہ پہ سارے لوگوں کواُتار لیا گیا تھا۔ اب یہاں سے ہمیں اپنا وطن پاکستان صاف نظر آرہا تھا۔ اس مقام پہ لکڑی کا ایک بڑا سا دروازہ انڈیا اور پاکستان کی زمین کو ایک دوسرے سے جدا کر رہا تھا۔دروازے کے دوسری جانب بینڈ اور نغموں کی بالکل صاف سنائی  دینے والی آوازیں ہمارااستقبال کر رہی تھیں۔ یہ دروازہ باربار کھل بند ہورہا تھا۔ ہندوستانی فوجی ہاتھ میں فائل لے کر آنا جانا کر رہے تھے۔ دروازہ کھلنے پہ ہمیں نظر آیا کہ دوسری جانب ایک میز اور کرسیاں ہیں جن پہ دونوں ممالک کے فوجی ساتھ بیٹھے شہریوں کے تبادلہ کی کاروائی  کرنے میں مصروف تھے۔

جیوے پاکستان کے خالق”جمیل الدین عالی/شہناز بیگم

کچھ ساعتوں میں ہم پاکستان کی سرزمین میں داخل ہونے ہی کو تھے۔ اب سوہنی دھرتی اللہ رکھے کے بعد مشہور و مقبول ملی نغمہ جیوے جیوے جیوے  پاکستان شروع ہوگیا تھا۔ جسے گایا تو شہناز بیگم نے تھا مگر پھر یہ گانا لاکھوں پاکستانیوں کےدلوں کی آواز بن گیا ۔ ہندوستان کی دھرتی پہ کھڑے ہوکر پاکستان کی سلامتی کے لیےیہ دعائیہ گانا سننا ،اور چند قدم پہ اپنے سامنے پاکستانی سرزمین کو دیکھنا، ایک عجیب ہی منظر پیش کر رہا تھا۔ اس وقت ہم سب جس جذباتی کیفیت سے دو چار تھےاس کو الفاظ میں ڈھالنا مشکل ہے۔ مسرت اور تشکر کے ساتھ عجب بے چینی اور بےقراری کی کیفیت سے دوچار اور اپنے وطن کی زمین میں داخل ہونے کے منتظر۔ اپنے ان جذبات کو آدھ صدی کے بعد بھی الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ سامنے دو ممالک کوتقسیم کرنے والا دروازہ فوجیوں کی آمد و رفت سے بار بار کھلتا بند ہوتا ۔ لیکن پھراسکے دونوں پٹ ہمارے گزرنے کے لیے مستقل کُھل گئے ۔

اس کھلے دروازے کی دوسری جانب ہماری نظروں کے سامنے ایک بورڈ تھا جس پرانگریزی میں بڑا بڑا لکھا تھا۔

ویلکم پاکستان (خوش آمدید پاکستان)

وطن کی مٹی عظیم ہے تو

گو ہم ابھی بھی ہندوستان کی زمین پہ ہی کھڑے تھے لیکن ہماری نظریں سامنے لہلہاتےپاکستانی پرچم پہ ٹکی ہوئی  تھیں۔ جذبات کا ایک تلاطم تھا۔ جس سے ہماری سانسیں بے قابو، دل کی دھڑکن تیز اور آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔ اس کیفیت کو بس محسوس کیاجا سکتا ہے۔ آدھے گھنٹے کھڑے رہنے کے بعد بالآخر انتظار کی گھڑیاں تمام ہوئیں ۔قیدی نمبر کے لحاظ سے نام پکارے جانے لگے۔

اپنے نام سن کر قیدی پیدل گیٹ پار کرتے ہوۓ وطن کی دہلیز چھو رہے تھے۔اب وہ ہندوستان کے  کیمپ کے قیدی نہیں بلکہ ایک آزاد وطن کے باوقار شہری تھے۔ جن کے پیروں اور بڑھتے قدموں پہ پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جا رہی تھیں۔اس وقت پاکستانی فوجی بینڈ نغمہ سرا تھا، اور فضائیں جیوے پاکستان کے نغمہ سے متحرک تھیں ۔وہاں  میلے  کا سا سماں تھا اور سب بے چینی سے اپنی باری کے منتظر تھے۔

پھر اللہ کی مہربانی سے وہ وقت بھی آن پہنچا کہ ہمارے خاندان کے سربراہ کی حیثیت سے ابّی کا نام اور نمبر پکارا گیا۔اب ہم سب اسی دروازے سے کہ جو دوممالک کو جدا کررہا تھا، چند ساعتوں میں اس سے گزرنے کے بعد اپنی وطن کی دھرتی ماں سے ہم آغوش ہونے کو تھے۔ پاکستانی افسر نے فہرست میں ہمارے ناموں کو کنفرم (یقین دہانی)کرنے کے بعد انتہائی  خوشدلی سے خوش آمدید کیا۔وطن پہنچ کر کچھ لوگ سجدہ  ء شکر میں گر گئے۔اور کچھ فرطِ  جذبات میں وطن عزیز کی خاک کو چومنے لگے۔مجھ سے بھی نہ رہا گیا۔ میں بھی سجدہ میں گر گیا۔میرے چھوٹے بہن بھائی  بے یقینی کے عالم میں باربار پوچھ رہے تھے کہ کیا واقعی وہ آزاد ہیں۔اور کیا اب وہ اپنے ملک پاکستان میں ہیں؟

غرض ہمارا استقبال بہت فقیدالمثال تھا۔

پندرہ  بیس قدم اور چلے تو دیکھاکہ کچھ اور  اہم لوگ ہمارے استقبال میں کھڑے ہیں جن سے تمام لوگ ہاتھ ملا تے ہوۓ آگے بڑھ رہے ہیں۔جب ہم آگے بڑھے تو پتہ چلا کہ وہ درازقد، وجیہہ شخصیت مشہور اداکار محمد علی اور ساتھ میں بہت خوبصورت خاتون انکی بیوی اداکارہ زیبا ہیں۔ان ہی کے ساتھ ایک اور شخصیت بھی ہم سب سے ہاتھ ملا رہے تھے ۔ میں ان کو نہیں پہچانتا تھا لیکن محمد علی صاحب نے تعارف کروایا کہ یہ ملک معراج خالد ہیں۔جو اسوقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔

ملک خالد معراج

بعد کے سالوں یعنی۱۹۹۶ء میں معراج خالد صاحب نگراں وزیر اعلیٰ کے عہدے پہ بھی فائز رہے ہیں۔وہ اپنی شریف النفسی اور ایمانداری کے سبب نیک نامی رکھتے تھے۔معراج خالد صاحب نےمجھ سے ہاتھ ملایا اورخیریت دریافت کرنے کے بعد پوچھا کہ اب کیا ارادے ہیں؟ جس پرمیرے بجاۓ ابّی نے جواب دیا۔”ارادہ کیا ہوگا۔ سب کچھ لٹا کے آۓ ہیں ۔پھر سے محنت کرنی ہوگی۔تعلیم ہی زیور ہے۔ ان بچوں کو اچھی تعلیم حاصل کرنا ہے۔تاکہ مستقبل اچھا اورتابناک ہو”۔

پھر ہم سب لوگوں کو کچھ دور لگے ہوۓ ایک شامیانے میں لے جایا گیا۔ حالانکہ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ اور غالباً  رمضان کی ۲۲ یا ۲۳ تاریخ۔ لیکن اس دوپہر کھانے کابہترین انتظام تھا۔ حلوہ پوری ، نہاری، گرما گرم نان، وغیرہ کے علاوہ مختلف قسم کی مٹھائیاں۔ زیادہ لوگ مٹھائیوں پہ ٹوٹ پڑے۔ابّی کو مٹھائیوں کا بہت شوق تھا۔ اتنےعرصے سے مٹھائی  کھانا تو کیا انہیں دیکھنا بھی نصیب نہ  ہوا تھا۔ کھانے پینے سے فارغ ہوکر ایک بار پھر ہم سب کو فہرست کے مطابق  چیک کیا گیا۔اور فی خاندان تین سو روپے تقسیم کیے گئے۔اور ساتھ ہی ہم لوگوں کو کراچی کا ٹرین کا ٹکٹ دیا گیا۔پھر بسوں کے ذریعےہم سب لوگوں کو لاہور کے ایک اسکول میں لے جایا گیا جو ایک عارضی کیمپ تھا۔ جہاں ہم دن کے تین بجے پہنچے تھے۔ جو لوگ قریب یعنی لاہور شہر اور پنجاب کے تھے وہ تواپنے عزیزوں کے ساتھ چلے گئے لیکن دور دراز مثلاً کراچی اور صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے رات میں کیمپ میں ہی رہ گئے ۔یہاں انہیں اپنے عزیز واقارب سے ملنے کی اجازت دی گئی تھی۔ ہم لوگوں سے ملنے آنے والوں میں میرے بڑے بھائی  سید اظفرشکیل, میرے چھوٹے ماموں،میرا ایک کزن ، میرا ماموں زاد بھائی  اور میرے بچپن کا دوست سرور، شامل تھے۔

ابّی بہت خوش تھے۔ سقوط ڈھاکہ اور ہجرت سے وابستہ تلخ تجربات سے متاثر ذہن ابنارمل ہوگیا تھا۔انکے چہرے اور رویہ میں خوف اور پریشانی کا کوئی  عنصر نہیں نظر آرہا تھا۔بھائی  جان جو سقوط ڈھاکہ کے المیہ سے قبل ہی ۱۹۷۱ء میں ڈھاکہ سے کراچی آگئے تھے، ان کو زندہ سلامت دیکھ کر اور دوسرے رشتہ داروں خاص کر چھوٹے ماموں جن کی بیوی اور کم سن بچہ بھی جنگی قیدیوں  میں شامل اور ہمارے ساتھ ہی تھے، اپنی نظروں کے سامنے دیکھ کر امی اورابیّ اور ہم سب ازحدخوش تھے۔ ماموں پہلی باراپنے بیٹے کو دیکھ کرانتہائی  سرشار تھے۔ یہ بچہ جب پیدا ہوا تھا تو اس وقت وہ کراچی میں تھے۔سچ تو یہ ہے کہ غم آپکو نڈھال اور خوشیاں نہال کر دیتی ہیں۔ہمارا رویہ ہمارے جذبات کے کس قدر تابع ہوتاہے۔ سب ہماری آمد کی خوشی میں بہت سی مٹھائیاں بھی لاۓ تھے۔ ایک دوسرے سے تادیر باتیں ہوتی رہیں۔ یہ چند دنوں کی نہیں تقریباً دوسالوں کی باتیں تھیں۔ اور وہ و ٹس ایپ ، فیس بک اور سوشل میڈیا کا دور بھی نہیں تھا۔ اس وقت تو فون اور خطوط کے تبادلے بھی خال خال ہوتے تھے۔اب جو اتنے عرصےبعد ایک دوسرے کو دیکھا تو گفتگو کا ریلا سا بہنے لگا۔پھر جب وہ کچھ تھما تو شام کوماموں ہم سب کو لاہور شہر گھمانے  لے گئے،  کہ ہمارے پاس صرف یہی  ایک دن تھا۔اگلے دن چار بجے  ہماری  ٹرین سے کراچی  روانگی تھی۔

۲۳ اکتوبر ۱۹۷۳ء کو ہم سب ٹرین سے کراچی کینٹ اسٹیشن پہنچے۔جہاں ہمارےاستقبال کے لیے تقریباً سب ہی رشتہ دار پہنچے ہوۓ تھے۔میرے سارے ماموں، میری پھوپھی کا خاندان۔ یہ سب لوگ شروع ہی سے کراچی میں آباد تھے۔اسٹیشن سے ہم اپنے سب سے بڑے ماموں کے گھر پہنچے۔ جو شرف آباد میں تھا۔اس طرح ہمارا ہجرت کاسفر جو ۲۰ جنوری ۱۹۷۲ء کو میر پور ڈھاکہ اپنے گھر سے شروع ہوا تھا، ۲۳ اکتوبر۱۹۷۳ء کو شرف آباد، کراچی ، میں اپنے انجام کو پہنچا۔گو ہماری مسافرت کی صعوبت کو آسان بنانے والے بھی کئی ملے۔ بقول شاعر

سفر ہے شرط مسافر نواز بہترے

ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہیں

لیکن ہمیں علم نہیں تھا کہ  یہ تو سفر کی ابتداء  تھی ۔ ابھی بہت  سی مسافتیں راہ میں ہیں۔بقول فراز

کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل

Advertisements
julia rana solicitors

کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply