میاں جدوں آوے گا/پروفیسر رفعت مظہر

مدح سرائی کی عادت نہ کاسہ لیسی کی اور نہ ہی “لفافی” کہلوانے کا شوق۔ کسی سے تصدیقی سرٹیفیکیٹ لینے کی اِس لیے ضرورت نہیں کہ میرے کئی کالم گواہ۔ جہاں کہیں نوازلیگ نے غلط کام کیا میں نے لگی لپٹی رکھے بغیر جو سچ جانا وہی لکھ دیا البتہ اچھے کاموں کی تعریف وتوصیف میں خست سے کام نہ لیا۔ نوازلیگ کی طرف زیادہ جھکاؤ اُس وقت پیدا ہوا جب پاک چائینا اقتصادی راہداری جیسا گیم چینجر منصوبہ سامنے آیا اور میں نے یہ جاناکہ ہم نہ سہی ہماری آنے والی نسلیں اِس منصوبے سے بھرپور فائدہ اُٹھا سکتی ہیں۔ اِسی لیے دل سے دعائیں نکلتی تھیں کہ یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہو۔

مجھے اُس وقت بھی شک تھا کہ امریکہ، یورپ اور بھارت جیسی طاقتیں اِس منصوبے کی ناکامی کی تگ ودَو میں مصروفِ عمل ہوں گی کیونکہ امریکہ کو دنیا پر چھاتی ہوئی چین کی معیشت قبول ہے نہ بھارت کو۔ جب 2014ء میں چین کے صدر کی پاکستان آمد کا غلغلہ اُٹھاتو ڈی چوک اسلام آباد پر دھرنا سجا دیاگیا جس سے چینی صدر کا دورہ ملتوی ہوا۔ یہ دھرنا 126 روز جاری رہا۔ دھرنے کی ناکامی کے بعد چین کے صدر پاکستان تشریف لائے اور سی پیک منصوبے کا اعلان ہوا۔ تب پاناما پیپرز کا شوراُٹھا اور آخرکار میاں نوازشریف کی حکومت کا بذریعہ سپریم کورٹ خاتمہ کر دیاگیا۔ پھرہر حربہ آزما کر ایسے لوگوں کے سر پرحکمرانی کا تاج سجایاگیا جنہوں نے آتے ہی اِس منصوبے پر کام روک دیا۔

میاں نوازشریف کی ذات سے جذباتی ہمدردی کا عنصر اُس وقت پیداہوا جب اُنہیں پہلے بے جرم وخطا تاحیات نااہل کیاگیا اور پھر 6 جولائی 2018ء کو احتساب عدالت کے ذریعے اُنہیں 10 سال اور بیٹی مریم نواز کو 7 سال قید کی سزا کا حکم سنایا گیا۔ آفرین ہے اُس دلیر شخص پر جو اپنی عزیزاَز جاں اہلیہ محترمہ کلثوم نواز کو بسترِمرگ پر چھوڑ کر بیٹی کا ہاتھ تھام کر سزابھگتنے پاکستان چلا آیا۔ 13 جولائی 2018ء کا دن آج بھی میری یادوں میں تازہ ہے جب لاہور کی ہرسڑک کا رُخ ایئرپورٹ کی طرف مُڑچکا تھا اور دیگر شہروں سے بھی قافلے جوق درجوق لاہور کی طرف رواں دواں تھے کہ اُن کے محبوب لیڈر نے گرفتاری دینے کے لیے ایئرپورٹ آناتھا۔ بدقسمتی سے اُس وقت عوام کے جمِ غفیر کی عنان اُس شخص کے ہاتھ میں تھی جسے ہمیشہ فوج کا بندہ ہونے پر فخررہا اور آج بھی ہے۔ وہ اِس جمِ غفیر کو لاہور کی

سڑکوں پر گھماتارہا تاکہ استقبالی ہجوم ایئرپورٹ تک نہ پہنچ سکے۔ مجھے ستمبر 2018ء کا وہ دن بھی اچھی طرح یاد ہے جب 3 بار منتخب وزیرِاعظم رہنے والا کوٹ لکھپت جیل کا قیدی میاں نوازشریف گھبراہٹ کے عالم میں جیلر سے باربار اپنی بیوی سے بات کرنے کی درخواست کرتارہا لیکن ہربار درخواست رَد کردی گئی۔ پھر تھوڑی دیر بعدہی پیغام پہنچ گیا کہ بیگم کلثوم نواز دارِفانی سے کوچ کرگئیں۔ ایک پابندِسلاسل باپ اگست 2019ء کا وہ دن کیسے بھول سکتاہے جب جیل میں ملاقات کے لیے آئی اُس کی بیٹی مریم نواز کو اُس کی آنکھوں کے سامنے نیب گرفتار کرکے لے جائے اور نواسی (مریم نوازکی چھوٹی بیٹی) روتے ہوئے گھر لوٹ جائے۔ ایسے میں بے اختیار منیرنیازی کا شعر لبوں پر آجاتا ہے کہ

جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر

غم سے پتھر ہوگیا لیکن کبھی رویا نہیں

اب 21 اکتوبر کو میاں نوازشریف وطن لوٹ رہے ہیں اور پاکستان (خصوصاََ پنجاب) کی گلیوں میں یہ نعرہ گونج رہاہے “میاں جدوں آئے گا۔۔ لگ پتہ جائے گا”۔ یہ بالکل بجا کہ میاں شہبازشریف نے وزارتِ عظمیٰ کے شوق میں جس “گند” کا بوجھ اُٹھایااُس نے نوازلیگ کی سیاست کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ میاں نوازشریف نے پی ڈی ایم میں شامل اتحادی جماعتوں اور محترم آصف زرداری کے اصرار پر حکومت کا بوجھ اُٹھانے کی حامی تو طوہاََ وکرہاََبھرلی مگر یہ بھی کہاتھا کہ جوں ہی تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو اور حکومت سنبھالتے کا موقع ملے تو نئے عام انتخابات کا ڈول ڈالا جائے۔ اگر میاں صاحب کی اِس تجویز سے اتفاق کر لیاجاتا تو نوازلیگ کی سیاست کو پے درپے جھٹکے برداشت نہ کرنے پڑتے۔

یہ بھی عین حقیقت کہ 16 ماہ کی اتحادی حکومت کے دوران عمران خاں نے تحریکِ انصاف کی پاتال کی گہرائیوں میں گِری مقبولیت کو نہ صرف سہارادیا بلکہ ہمدردی کا سارا ووٹ سمیٹ کر اُسے بلندیوں تک پہنچا دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی حماقتوں اور غلط سیاسی پالیسیوں کی وجہ سے آج تحریکِ انصاف کی مقبولیت محض “ڈھول کا پول”۔ شور تو بہت اُٹھ رہاہے کہ عمران خاں کی مقبولیت اب بھی اپنی انتہاؤں پرہے مگر یہ سب “تھوتھا چنا باجے گھنا” کے مصداق۔ میرے پاس کوئی طوطا، مینا یا کبوتر تو ہے نہیں جو اندر کی خبریں لائے البتہ موجودہ حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے تجزیہ کرسکتی ہوں کہ آمدہ عام انتخابات میں مجھے تحریکِ انصاف کہیں نظر نہیں آتی۔

میں سمجھتی ہوں کہ جتنی مقبولیت عمران خاں کی 2011ء سے 2013ء تک تھی، آج اُس کا عشرِعشیر بھی نہیں۔ 2013ء کے عام انتخابات میں تحریکِ انصاف نے بُری ہزیمت اُٹھائی پھر بھی میاں نوازشریف نے اُسے خیبرپختونخوا میں حکومت کرنے کا موقع فراہم کیا حالانکہ اُس وقت بھی تھوڑی سی کوشش کے بعد کے پی کے میں نوازلیگ کی حکومت بن سکتی تھی۔ اگر عمران خاں کے پی کے میں بیٹھ کر اُس صوبے کو جنت نظیر بنانے کی کوشش کرتے تو وہ اگلے عام انتخابات میں بغیر کسی بیرونی مدد کے مرکز میں بھی حکومت تشکیل دے سکتے تھے لیکن اُن کی سوچ تو کبھی مثبت رہی ہی نہیں۔ خیبرپختونخوا کو مثالی صوبہ بنانے کی بجائے وہ جلسے جلوسوں اور دھرنوں کے ذریعے نوازلیگ کی حکومت کو ناکام کرنے میں جُتے رہے اور خیبرپختونخوا میں کرپشن کی داستانیں رقم ہوتی رہیں۔

2018ء کے عام انتخابات سے پہلے چونکہ فوج طے کرچکی تھی کہ میاں نوازشریف کو کسی بھی صورت میں اقتدار نہیں سونپا جاسکتا اِس لیے پہلے میاں شہبازشریف کو وزارتِ عظمیٰ کا لالچ دیاگیا لیکن اُن کے کورے جواب کے بعدقرعہ فال عمران خاں کے نام نکلا۔ انتخابات سے پہلے الیکٹیبلز کو گھیرگھار اور دھونس دھاندلی کے ذریعے تحریکِ انصاف میں شامل کروایاگیا۔ پھر جب 2018ء کے عام انتخابات میں تحریکِ انصاف کی یقینی ہار نظر آئی تو آرٹی ایس بٹھاکر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی گئی جب پھر بھی بات نہ بنی تو چھوٹی سیاسی جماعتوں اور آزادارکان کو ہانک کر تحریکِ انصاف کی حمایت پر آمادہ کیا۔ یوں عمران خاں کی صورت میں”سلیکٹڈ وزیرِاعظم” سامنے آیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب صورتِ حال یہ کہ فوج کا دستِ شفقت عمران خاں کے سَر سے اُٹھ چکا، تحریکِ انصاف کی خاطر آئین کو ری رائٹ کرنے والا چیف جسٹس بندیال گھر جاچکا اور سانحہ 9 مئی کے بعد تقریباََ تمام الیکٹیبلز عمران خاں کا ساتھ چھوڑ چکے۔ خود عمران خاں جیل میں ہیں اور “اوپن اینڈ شَٹ” کیسز کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں اُن کے رہاہونے کا کوئی چانس نہیں۔ اِس کے علاوہ قسمت کے دھنی میاں نوازشریف بھی پاکستان واپس آرہے ہیں اور میں سمجھتی ہوں کہ آج بھی اُن کی مقبولیت میں سَرِمو فرق نہیں آیا۔ وہ جب میدان میں اُتریں گے تو “لگ پتہ جائے گا”۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply