جنت کے راستے میں چھوٹی چھوٹی قبریں/محمد وقاص رشید

یہ ربیع الاوّل کا مہینہ ہے۔ ہر طرف چراغاں ہے۔ گھروں  مسجدوں مدرسوں کی چھتوں دیواروں اور میناروں پر پھولوں اور روشنی کی لڑیوں کے ساتھ ہم مسلمان اپنے نبی کی یاد منا رہے ہیں۔ فضاؤں میں درودوسلام کی بازگشت ہے۔

تصویر میں دیکھیے یہ انس ہے۔ انس کون تھے۔ وہ جنکی ہم یاد منا رہے ہیں انکے ایک دہائی تک خادم رہے۔ کہا، دس سال میں ایک بار بھی نہیں ڈپٹا۔ رحمت للعالمین  ﷺ جو تھے۔

یکم ربیع الاول کو انس نے اپنے ہونٹوں کے درمیان بنتی قوس جیسا چاند دیکھا تو مدرسے کی چھت سے آسمان کی طرف دیکھ کر دعا مانگی۔ اللہ کرے میں حافظ بن کر امی ابو کو جنت میں لے جاؤں۔ یہ کہہ کر وہ مدنی مسجد کی چھت اور دیواروں پر لڑیاں لگانے لگا۔

حضرت آدم نے خدا ، جنت اور ابلیس کو دیکھ رکھا تھا انکی اولاد کے لیے یہ ایک تصور کا نام ہے۔ انس کے ذہن میں بھی ایک تصور ڈال دیا گیا تھا۔ وہ آسمان کی طرف دیکھتا تو اسے آٹھ دروازے دکھائی دیتے۔ وہ حافظ بن کر ہر دروازے سے ایک شخص کو جنت میں داخل کروا سکے گا۔ یہی اسکے قاری نے اسکے باپ کو بتایا تھا۔ سو”بچہ دو جنت لو” کے اصول پر سودا طے ہوا۔

اگلے دن وہ اس سے ملنے گیا جسکے قدموں کے نیچے انس کی جنت تھی لیکن انس کا سودا اس نے اپنی جنت کے عوض کر دیا تھا۔ بہت بارش ہوئی۔ یہ انکی یاد منانے کے دن ہیں جنہوں نے خراب موسم میں گھر نماز ادا کرنے کی رخصت دی تھی۔ انس مدرسے نہ پہنچ سکا۔

اگلا دن جنت کی دعا کی قبولیت کا دن تھا۔ مدرسے پہنچا تو حضرت انس رض کی حدیث سنانے والے ملاں نے اس چھٹی پر جسم کو دوزخ کی آگ سے پاک کرنا شروع کیا ۔ جی ہاں یہی تفہیم ہے کہ دینی علم کے دوران جہاں جہاں استاد کی مار پڑتی ہے وہ جگہ دوزخ کی آگ کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔

شدید اذیت میں سسکاریاں بھرتے ، روتے چلاتے اور آہ و بکا کرتے انس ماں ماں پکارتا رہا۔ مگر ماں اسے آج صبح اپنی جنت کمانے بھیج چکی تھی۔ ڈنڈے کھاتے ہوئے انس کو حضرت انس یاد آئے۔ دس سالہ خدمت۔ ایک ڈانٹ بھی نہیں ۔ رحمت للعالمین ۔ رحیم خدا ۔۔رحمت کا فلسفہ۔ مگر یہ یادیں صرف زبان سے منانے کے لیے ہوتی ہیں۔

ڈنڈے پڑنا یہاں معمول تھا۔ ان ملاں برادران پر پہلے بھی یونہی ایک کمسن کو اذیت دے دے کر مار دینے کا کیس ہے مگر حکومت میں اسلام کو تخت پر لانے والے شامل تھے چھوٹ گئے۔ چندہ پرور ملاں برداران کا معیارِ زندگی کہیں سے بھی محلے کے چندے پر چلتے مدرسے کے منتظمین جیسا نہیں تھا۔ مگر جہاں انسانوں کے بچے مال ِ غنیمت ہوں وہاں مال اسباب کا کیا ذکر۔

سفاک ملاؤں نے اٹھا کر پہلی  دفعہ زمین پر پٹخا تو معصوم سے جسم کے اندر کوئی پہلی ہڈی ٹوٹی۔ چھوٹے سے ذہن میں حضرت انس اور رسالت مآب ص کی شبیہیں بنیں جنت کا پہلا دروازہ کھلا اسکی جنت قدموں تلے لیے ماں داخل ہوئی۔ وحشیوں نے دوسری بار اٹھا کر پٹکا تو کانوں میں “وما ارسلنک الی رحمت للعالمین ” والی نعت کی صدا آنا بند ہو گئی۔ آسمان پر دیکھا دوسرا دروازہ کھلا اس کا بچپن بیچ کر جنت خریدنے والا باپ داخل ہوا۔ پتھر دل کے ظالموں نے تیسری دفعہ اٹھا کر زمین پر پٹکا تو ننھی ننھی پسلیاں ٹوٹ کر اندر پیوست ہو گئیں۔ درد کی ایک لہر ننھے وجود کو تارتار کر گئی آسمان پر تیسرا دروازہ کھلا۔ اور اس سے کوئی اور رشتہ دار داخل ہوا جو زمین کی طرح یہاں بھی محض تماشائی تھا۔ حرام خور ہٹے کٹے سینوں میں دلوں کی جگہ کتبے اٹھائے ہوئے بربریت کے مارے متشدد ملاں دھوبیوں کی طرح اٹھا اٹھا کر انس کو زمین پر پٹختے رہے جنت کے دروازے کھلتے رہے اور اسکی سسکیاں ، ہچکیاں ، اور آہیں فضا میں گونجتی نعتوں اور درودوں میں مدغم ہو کر انہی کا حصہ معلوم ہوتی رہیں۔ روح کہیں اٹک گئی ۔ شاید کسی ننھی سی ٹوٹی ہوئی ہڈی میں یا پھر کسی کٹی پھٹی چھوٹی سی شریان میں۔ اپنی لگائی ہوئی لڑی کو وہ آخری بار دیکھ رہا تھا جسکو لگاتے ہوئے اس نے ماں باپ کی جنت مانگی تھی۔ آخری بار زمین پر پٹخا تو وہ کڑی نظر آنا بند ہو گئی ننھی آنکھوں کے آگے اندھیرا آگیا۔ حضرت انس رض بننے کے شوقین انس کو ایک کمرے میں ادھ موئی حالت میں ڈال کر جنتی گھرانے کو مبارکباد کی اطلاع دی گئی۔

انس تین دن ہسپتال کے بستر پر جنت اور دوزخ کے درمیان معلق رہا۔ ڈاکٹروں نے بتایا شدید تشدد سے برین ہیمرج ہو گیا تھا۔ آخر مر گیا۔

اسکے ماں باپ بہت مبارکباد کے مستحق ہیں۔ جنت کی بشارتیں لوگوں کو رسول اللہ ص کے عہد میں ملا کرتی تھیں۔ پندرہ سو سال بعد یوں جنت کی بشارت اس ماہِ مبارک کا اعجاز ہو سکتا ہے۔

میں تو کہتا ہوں اس مدرسے کے ملاؤں کو ایک فتویٰ جاری کرنا چاہیے کہ انس کو حافظ بننے میں کئی سال لگتے پھر کہیں جا کر وہ ماں باپ کو جنت دلوا پاتا ہم نے اسی ربیع الاول میں اسکو شہادت کے رتبے پہ فائض کر کے آپ کو جنت کا حقدار بنایا ہمیں ہتھکڑیوں کی بجائے ہار پہنائیے۔ اور والدین جلدی جلدی انکے ہاتھ کھلوائیں انہوں نے ابھی انہی ہاتھوں سے اور بچوں کو حافظ بنا کر انکے ماں باپ کو جنتی بنانا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پسِ تحریر ! آدم نے ابلیس کو دیکھا آدمی نے نہیں ۔ آدم کے سامنے ابلیس آیا تھا آدمی کے سامنے ابلیسیت۔ ابلیس نے خدا سے کہا تھا آدم کو قیامت تک بھٹکاؤں گا۔ حیران کر دیا مجھے اس کی فراست نے۔۔۔کس عیاری سے ملائیت کا روپ دھار کر اسطرح کے مدرسوں میں انس جیسے معصوموں کے ذہنوں ، جسموں ، روحوں اور یہاں تک کہ زندگیوں سے کھلواڑ کرتی ہے اور جنت کے راستے میں چھوٹی چھوٹی قبریں بنتی رہتی ہیں اور ماں باپ تک فاتحہ پڑھ کر اپنے تئیں جنت کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ ابلیس انس جیسوں کی قبر پر آکر بھٹکتے ماں باپ کی طرف دیکھتے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتا ہو گا اور کہتا ہو گا۔۔۔۔یہی تھا میرا مسجود ؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply