یہ بیچارے یوٹرن کے وکیل۔۔۔۔سید عارف مصطفٰی

بڑے بڑوں کے بت ٹوٹ گئے مگر یہ بت ۔۔۔!
پندرہ برس قبل 9 اپریل 2003 کا وہ منظر جو سب عالمی میڈیا نے دکھایا تھا مجھے بری طرح سے یاد آرہا ہے کہ جب بغداد کے وسط میں ایک بلند سنگی چبوترے پہ نصب عراقی آمر صدام حسین کے پچاس فٹ کے لگ بھگ بلند دیو ہیکل مجسمے کو عراقی عوام کا ایک بپھرا ہوا ہجوم منہدم کررہا تھا اور چند ہی لمحوں میں اسے پوری طرح مسمار کرکے تاریخ کے ملبے کی نذر کرڈالا تھا ۔۔۔ مگر یہ بت ۔۔۔!
اب یہ منظر میرے ذہن میں پھر سے کچھ بدلی ہوئی شکل میں گھوم رہا ہے اور اس مرتبہ بلند قامت مجمسہ صدام کا نہیں عمران خان کا دکھائی دے رہا ہے لیکن اسے مسمار کرنے والے ہاتھ کسی ہجوم کے نہیں خود عمران خان کے نظر آرہے ہیں ۔۔۔۔

یہاں تاریخ کے جھروکوں سے مجھے ملا دو پیازہ بھی جھانکتے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ جب کبھی بھی میں عمران خان کے آمنا صدقنا بریگیڈ کو دیکھتا ہوں تو ملادوپیازہ بے طرح یاد آتے ہیں ۔۔۔ ایک بار شاہی دسترخوان پہ کھانے کے لیئے بینگن کی ڈش بھی حاضر کی گئی تھی ۔۔۔ شہنشاہ اکبر نے دیکھتے ہی کہا کہ یہ کس قدر عمدہ سبزی ہے اسکا رنگ کتنا منفرد ہے ۔۔۔ یہ سنتے ہی ملا دوپیازہ جھٹ بولے ۔۔۔ عالم پناہ ، صرف رنگ ہی منفرد نہیں اسکے سر پہ تو قدرتی طور پہ تاج بھی ہے گویا تمام سبزیوں کا بادشاہ ہے ۔۔۔۔ اپنی بات میں یہ ملا کا خوبصورت تائید و اضافہ سن کے بادشاہ جھوم اٹھا اوردرباری بھی داد کے ڈونگرے برسانے لگے۔

چند ماہ بعد ایک بار پھر بینگن شاہی دسترخوان کی زینت بنا تو بادشاہ کسی اور موڈ میں تھا ۔۔۔ چکھتے ہی پکار اٹھا ۔۔۔ لاحول ولا ۔۔ یہ بینگن بھی کوئی سبزی ہے بھلا کالا کلوٹا سا عجیب بےڈھنگا حلیہ اور اور ۔۔۔ اتنے میں ملا بول اٹھے حضور یہ واحدعجیب سبزی ہے کہ جس کا ذائقہ بھی ناگوار ہے اور حلیہ بھی ۔۔۔۔ اس پہ ایک پرانے درباری کو بڑی حیرت ہوئی اور اسنے فوراً ملا کو بینگن کے بارے میں انکا پرانا بیان یاد دلایا تو ملا نے کسی ادنی ٰسی ندامت کے بغیر فرمایا کہ ‘‘ جناب میں بادشاہ کا ملازم ہوں‌ ، بینگن کا نہیں ، عمران خان کے اس ستائشی دستے کا بھی کچھ ایسا ہی احوال ہے ۔۔۔ پہلے وہ ہر جگہ خصوصاً میڈیا کے ٹاک شوز میں عمران خان کو سرزمین پاکستان میں سب سے زیادہ قول کا پکا اور بات کا سچا ٹہراتے نہ تھکتے تھے لیکن اب وہی اسکے ہر یو ٹرن کے صدقے واری جانے کی دوڑ لگاتے ہیں اور کسی بھی بات سے پھرجانے پہ بھی انکی ہمت و جرآت کی نشانی قرار دیتے ہیں کہ دیکھو ہے کسی میں ایسی جرات جو یوں دھڑلے سے اپنی بات سے صاف مکر جائے ۔۔۔ ستم ظریفی یہ کہ خوشامد کی اس دوڑ میں نکے نکے انصافی چھٹ بھیے  ہی نہیں بلکہ گورنر اور صدرمملکت جیسے مہان گرو بھی شامل ہیں بلکہ آگے آگے ہیں ۔۔۔۔

مگر یہ سب سمر سالٹ ٹائپ کی قلابازیاں ہم جیسے بہت سے ایسے لوگوں سے مطلق ہضم نہیں ہوپا رہیں جو کہ ایمان کی حد تک اس اصول پہ یقین رکھتے ہیں کہ کسی بھی حالت میں اپنی کسی کہی بات سے مکر جانے کی ادا سوائے فریب کاری کے کچھ اور نہیں ۔۔ درحقیقت یہ جرآت تو کسی بے ایمان سے بے ایمان سیاسی رہنماء و بازیگر میں بھی بھی نہیں دیکھی گئی کہ وہ خواہ کتنا ہی اپنی بات سے پھرجانے والا کیوں نہ ہو لیکن بڑی ڈھٹائی سے اپنے اس عمل کو دانش و بصیرت کا اعجاز قرار دے ڈالے ۔۔۔ لیکن ساتھ ہی عمران خان نے اپنی اس یوٹرن کی افادیت کی قصیدہ گوئی سے خود اپنے ہی لیئے ایک بڑی مشکل یہ کھڑی کردی ہے کہ اب انکی وہ مبینہ ساکھ ہی مشکوک ہوگئی ہےجو انکا واحد اثاثہ بتائی جاتی تھی کیونکہ اس یوٹرنی فلسفے کی وکالت کے بعد آئندہ انکا کوئی بھی دعویٰ یا مؤقف لائق اعتبار نہ سمجھا جاسکے گا اور اب وہ کسی مسئلے پہ جو بھی پوزیشن لیں گے اسے اب سنجیدگی سے نہیں لیا جائے گا اور یوں آصانی سے کہا جاسکتا ہے کہ محض اس ایک ہمالیائی غلطی سے انکی کریڈیبلیٹی کا لیول گرکے صفر تک آگیا ہے – اور خود اپنے ہاتھوں اپنی عظمت کے بت کے اس انہدام نے انکے دماغی و فکری توازن اور اصابت رائے کے حوالے سے ہر طرح کی خوش فہمی کے پرخچے اڑا کے رکھدیئے ہیں –

انکے حامیوں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ وہ اب بھی سوشل میڈیا اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں اس قدر احمقانہ طرز فکر میں بھی عمدگیاں تلاش کررہے ہیں اور اس بھونڈی بات کو کہنے والے کو ارسطوئے زماں باور کرا رہے ہیں ۔۔۔۔ حالانکہ یہ حقیقت سبھی پہ بخوبی عیاں ہے کہ کسی بھی کسی مثبت مقصد کے حصول کے لیئے متبادل رستے کی تلاش بالکل الگ بات ہے اور اپنے کسی جانے مانے مؤقف سے بالکل پلٹ جانا یا اسکی نفی کرنا قطعی الگ طرز عمل ہے اور پھر یہ معاملہ محض لچک یا حکمت عملی میں بہتری کا نہیں رہ جاتا بلکہ سراسر دھوکا دہی اور منافقت کا بن جاتا ہے ۔۔۔ اور یہ کام کرنے والے کیا پہلے کم تھے اور کیا اب بھی کم ہیں کہ جو ہمیں بنی گالہ جاکے تلاش کرنا پڑے ۔۔۔۔ لیکن یہاں معاملہ یہ بھی ہے کہ آمنا صدقنا بریگیڈ کے ہاتھوں میڈیا پہ کتنے ناقدین بھلا ایسے رہ گئے ہیں ہیں جو میڈیا پہ انکے ہاتھوں سے اپنی عزت بچاپائیں ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور اب تو خیر سے میڈیا والوں میں انکی سکت بھی باقی نہیں رہنے دی گئی کہ وہ کل کے عمران خان کا آج کے عمران خان سے تقابل کرپائیں کیونکہ اشتہارات کی بندش اور من مانے کنٹرول کے حکومتی آمرانہ اقدام کے انکے لیئے تو اس نئی حکومت کے ہاتھوں زندہ رہ جانا ہی سب سے بڑا مسئلہ بنا ڈالا گیا ہے اور ہر اخبار اور چینل کو اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے تک کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔۔ ۔۔۔ صاف سی بات یہ ہے کہ اب تو ارباب بنی گالہ کا مطلوب یہی ہے کہ ہر ٹی وی اسکرین اور ہر سوشل میڈیا کا پیج اور فریم عمران خان کا بتِ عظمت تراشنے میں انکا تابع مہمل بن کے رہ جائے ۔۔۔ لیکن کیسا بت ۔۔۔ کہ جسے پوری طرح بننے سے پہلے ہی انہدام کے انجام تک پہنچنے کا معاملہ صاف صاف دکھائی دے رہا ہے ۔۔۔ لیکن کوئی بتائے کہ خود اپنے ہی یو ٹرن کے کلہاڑے کے نشانے پہ آئے ایسے بت کو بھلا کوئی میڈیا اور چینل کب تک اور کیسے ریزہ ریزہ ہونے سے بچاسکتا ہے ۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply