کیا قواعد فقہیہ، اصول فقہ کا موضوع ہیں؟۔۔حافظ محمد زبیر

دوست کا سوال ہے کہ قواعد فقہیہ، اصول فقہ میں شامل ہیں یا نہیں؟ جواب؛ دیکھیں، فقہائے امت میں شروع ہی سے یعنی تابعین ہی کے دور سے دو فقہی مکاتب فکر موجود رہے ہیں؛ اہل الاثر اور اہل الرائے۔ اہل الاثر کی امامت امام مالک رحمہ اللہ کے حصے میں آئی اور ان کا مرکز حجاز قرار پایا جبکہ اہل الرائے کی امامت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے پاس آئی اور اس کا مرکز کوفہ بنا۔ ائمہ فقہاء کے زمانے میں ہی دو اصولی نظام فکر علیحدہ علیحدہ موجود تھے یا دو مکاتب فکر کی اصول فقہ موجود تھی جو بعد میں اصولیین اور فقہاء کے طریق کار کے عنوان سے اصول فقہ کی کتابوں میں مدون ہوئے۔
اصولیین [مالکی، شافعی اور حنبلی] نے جب اصول فقہ کو مدون کیا تو قواعد فقہیہ کو ان میں شامل نہیں کیا جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی “الرسالہ” ہمارے سامنے ہے جبکہ فقہاء [احناف] نے آغاز میں اصول فقہ کو قواعد فقہیہ کے نام سے ہی مدون کیا جیسا کہ امام کرخی رحمہ اللہ کی “اصول کرخی” کو دیکھ لیں۔ اس کے بعد امام دبوسی کی “تاسیس النظر” بھی قواعد فقہیہ کے اسلوب پر ہے۔ ہماری نظر میں اس کی وجہ دونوں مکاتب فکر کے اصولی منہاج کا بنیادی فرق تھا کہ مقدم الذکر کا اصولی منہج استخراجی تھا جبکہ موخر الذکر کا استقرائی۔
امر واقعی یہ ہے کہ فقہاء نے جن مقاصد سے یہ قواعد بیان کرنا شروع کیے تھے تو ان میں سے ایک بڑا مقصد تو فقہاء کے فقہی اختلافات کو کسی ضابطے کے تحت لانا تھا جیسا کہ قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ “کتاب الخراج” میں ایسی عبارات لائے ہیں جو قواعد فقہیہ کی قبیل سے معلوم ہوتی ہیں مثلا “التعزير إلى الإمام على قدر عظم الجرم وصغره” یعنی جرم چھوٹا ہے یا بڑا، اس کے اعتبار سے امام کو تعزیر کی مقدار مقرر کرنے کا حق ہے۔ اس قاعدے کے تحت وہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے اصحاب میں بعض نے کہا کہ تعزیز حد یعنی چالیس کوڑوں سے کم ہی ہو گی۔ بعض نے کہا کہ پچیس کوڑوں سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ بعض نے پچھتر بھی کہا ہے۔ اور بعض اس سے بھی زیادہ کے قائل ہیں۔ تو ہماری رائے میں راجح یہی ہے کہ یہ امام کا اختیار ہے۔ امام دبوسی کی کتاب کا تو اسلوب ہی یہی ہے کہ جس کے آٹھ ابواب میں قواعد فقہیہ کو انہوں نے فقہاء کے اختلاف کی بنیاد پر بیان کیا ہے۔
اور قواعد فقہیہ کا دوسرا مقصد ایسے قواعد کلیہ کو وضع کرنا تھا کہ جن کے تحت بہت سی جزئیات کو جمع کیا جا سکے جیسا کہ امام محمد رحمہ اللہ کی کتاب “الاصل” میں ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے یہ قاعدہ بیان کیا ہے: “كل من له حق فهو له على حاله حتى يأتيه اليقين على خلاف ذلك” یعنی جس کا بھی کوئی حق ہے، تو اس کا وہ حق ثابت ہے یہاں تک کہ یقین یعنی گواہی اس کے خلاف آ جائے۔ یہاں بھی بحث فروعات کی چل رہی ہوتی ہے تو ان کے ذیل میں ایسی عبارات آ جاتی ہیں جو قواعد فقہیہ سے مشابہت رکھتی ہیں۔ اور قاعدہ فقہیہ کو جس انداز سے بیان کیا جاتا ہے، تو گویا وہ فقیہ کے نزدیک دلیل کی کوئی قسم معلوم ہوتی ہے۔
اگرچہ امام شافعی سے بھی ہمیں ان کی کتاب “الام” ایسی عبارات مل جاتی ہیں جو قواعد فقہیہ کے قبیل سے معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ امام شافعی کے اصولی نظام میں قواعد فقہیہ شامل نہیں ہیں۔ فقہاء کے اصولی نظام میں قواعد فقہیہ یعنی کلیات یا قضایا بھی فروعات ہی سے وضع کیے گئے تھے جیسا کہ اصولیین نے قواعد اصولیہ کو دلائل تفصیلیہ سے وضع کیا تھا مثلا “الأمر للوجوب” اور “النهي للتحريم”۔ اب یہ دونوں اصولی قواعد ہیں جو دلیل تفصیلی سے وضع ہوئے۔ البتہ وضع کے بعد ان اصولوں سے بہت سے فروعی احکام اخذ کیے گئے۔ یہ واضح رہے کہ دلیل تفصیلی حکم شرعی نہیں بلکہ اس کی دلیل یعنی عبارت ہے۔ اس لیے اصولیین یہ کہتے ہیں کہ ہم اصول سے فروع کی طرف آئے۔ اس کے برعکس فقہاء نے احکام شرعیہ سے اصول یعنی قواعد فقہیہ وضع کیے ہیں اور ان کا طریقہ فروع سے اصول کی طرف سفر کا ہے۔
یہ بات تو کہی جا سکتی ہے کہ اصولیین کے نظام فکر میں قواعد فقہیہ، اصول فقہ کا حصہ نہیں ہیں البتہ انہوں نے اسے علیحدہ سے اہمیت دی ہے جیسا کہ شوافع نے بھی قواعد فقہیہ پر کتابیں لکھی ہیں کیونکہ ان کے نزدیک اصول، دلائل استنباط کا نام ہے اور قواعد فقہیہ دلائل نہیں ہیں بلکہ احکام ہیں یعنی احکام عامۃ جیسا کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے واضح کیا ہے۔ اصولیین کے نزدیک اصول فقہ کا موضوع دلیل اور حکم ہے جبکہ قواعد فقہیہ کا موضوع فعل مکلف ہے۔ اصولیین کے نزدیک اصول فقہ یا اصولی قواعد ایسے کلی قواعد ہیں جو جمیع جزئیات ہر منطبق ہوتے ہیں جبکہ قواعد فقہیہ کا معاملہ ایسا نہیں کیونکہ ان میں مستثنیات بھی ہوتے ہیں۔ اصولیین کے نظام میں اصول فقہ عملی شرعی احکام کو معلوم کرنے کے ذرائع کا نام ہے جبکہ قواعد فقہیہ متنوع فقہی احکام کو ایک کل کے تحت جمع کرنے والے ضوابط ہیں۔ پس اصول فقہ وہ ہیں کہ جن سے شرعی احکام کا استنباط ہو اور قواعد فقہیہ وہ ہیں کہ جن کے تحت شرعی احکام کو یوں جمع کیا جائے کہ ان کے اسرار ورموز اور حکم وعلل کی طرف اشارہ ہو سکے۔
البتہ فقہاء کے اصولی نظام میں قواعد فقہیہ بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن یہ کہنا شاید درست نہ ہو گا کہ ان کے نزدیک کل اصول فقہ یہی قواعد فقہیہ ہیں کیونکہ فقہاء کے ہاں قیاس، استحسان، عرف اور قول صحابی وغیرہ کی بحث جس شد ومد کے ساتھ موجود ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ان کے اصولی نظام میں ادلہ اجمالیہ کو بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ البتہ میرا احساس یہی ہے کہ شروع کے فقہاء نے ان ادلہ اجمالیہ کو بھی قواعد فقہیہ ہی کے اسلوب اور پیرائے میں بیان کیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے ہاں یہ اصول فقہی ذخیرے یا فقہاء کے اجتہادات سے استخراج کا نتیجہ تھے۔ اور یہ کہنا کہ فقہاء کے سامنے کوئی اصول نہیں تھے اور انہوں نے اس کے بغیر اتنی بڑی فقہ مدون کر دی تو یہ دعوی نا قابل فہم ہے۔
پس امام صاحب اور صاحبین کے سامنے ایک پورا اصولی نظام تھا کہ جس کی روشنی میں ایک فقہ مدون ہوئی ہے۔ البتہ اتنی بات کہی جا سکتی ہے کہ بعد کے فقہاء نے جن اصولوں کا استخراج کیا ہے، تو ہو سکتا ہے کہ کہیں کسی اصول کی نسبت امام صاحب کی طرف ثابت نہ ہو یا بعد کے فقہاء کا اضافہ ہو۔ اس میں تو شک نہیں کہ اصولیین کا نظام فکر ہو یا فقہاء کا، دونوں ارتقاء کے عمل سے گزرے ہیں۔ معاصر زمانہ تو چھوڑیے، قرون وسطی میں جو کچھ اصول فقہ دونوں مکاتب فکر کے ماننے والوں میں موجود تھی، اس سب کی نسبت ان کے بانیان کی طرف ممکن نہیں ہے۔ البتہ یہ اضافہ ہماری نظر میں خوش آئند ہے کہ ایک علمی سفر ہے اور ہر علم ایسے ہی سفر کی منازل طے کرتا ہے۔ البتہ اس اضافے کا تجزیاتی مطالعہ، اس کی تہذیب وتنقیح اور اس کا قبول ورد تو اس کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے۔ واللہ اعلم بالصواب

Facebook Comments

حافظ محمد زبیر
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی ہیں اور کامساٹس یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ آپ تقریبا دس کتب اور ڈیڑھ سو آرٹیکلز کے مصنف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply