میاں صاحب بڑھکیں نہ ماریں، سچ بولیں/ارشد بٹ

میاں نواز شریف نے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ، سابق جنرل فیض حمید، سابق چیف جسٹس ثاقب، جسٹس کھوسہ اور ۲۰۱۷ میں نواز حکومت کا خاتمہ کرنے والے سازشی کرداروں کا کڑا احتساب کرنے کا کہا ہے۔ کہنے سننے کو یہ بہت بھلا لگتا ہے مگر کیا ایساممکن ہے ۔ اس پر کوئی با شعور پاکستانی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ سب سے بڑھ کر میاں صاحب کے دست راست اور برادر خورد سابق وزیر اعظم شہباز شریف ایسی کھوکھلی نعرہ بازی پر یقین نہیں رکھتے۔ سیاسی قلابازیوں کے ماہر شہباز شریف ایسے بیانیے کے قریب سے گزرے کو تیار نہیں۔

میاں نواز شریف صاحب آپ نے مٹی پاؤ پروگرام تو کب کا شروع کر رکھا ہے۔ یہ آپکو بخوبی علم ہو گا کہ آپ جیل سے لندن کن قوتوں کی مدد سے پہنچے۔ جنرل باجوہ کو تین سال کی ایکسٹینشن دلا کر آپ نے ٹنوں کے حساب سے مٹی پا ڈالی۔ کیا عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی مٹی پاؤ پروگرام کا حصہ نہ تھی۔ پھر شہباز مخلوط حکومت نے مٹی پا ؤ پروگرام کے تسلسل میں مٹی تلے سب کچھ دفن کر ڈالا۔ اب کوئی کیسے مانے کہ لندن یاترا سے لے کر شہباز حکومت کے قیام تک مٹی پاؤ پروگروم آپ کی ہدایات کے تحت نہیں چلتا رہا ۔۔ سابق چیف جسٹس بندیال اور جنرل باجوہ کے دباؤ پر دو جونیئر ججوں کی سپریم کورٹ ایلیویشن کو کیا نام دیں گے۔ میاں صاحب آپ ضرور پاکستان تشریف لائیں اور ملک میں جمہوری عمل کا حصہ بنیں۔ مگر اب مسخ شدہ حقائق پر استوار سیاسی بیانیہ عوام میں مقبولیت حاصل نہیں کرنے والا۔ پاکستان کے حالات بہت تیزی سے بدل چکے ہیں۔ عمران خان اور پی ٹی  آئی کو ریاستی جبر کا سامنا ہے۔ مستقبل قریب اور متوقعہ الیکشنوں میں عمران خان کے موثر سیاسی کردار ادا کرنے کے امکانات مسدود کئے جا رہے ہیں۔ لیول پلئنگ فیلڈ نہیں بلکہ پنجا ب کا پلئنگ فلیڈ آپ کے لئے کھلا چھوڑا جا رہا ہے۔ کیا یہ سارا سیاسی کھیل تماشا مٹی پاؤ پروگرام کی حکمت عملی کا حصہ نہیں ہے۔یہ کیسے تسلیم کیا جائے کہ آپکو یہ سب کچھ معلوم نہیں اور آپ اس مٹی پاؤ پراگرام کی حکمت عملی ترتیب دینے والوں میں شامل نہیں ہیں۔

گذشتہ چار سالوں میں پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ میاں نواز شریف پنجاب کے عوام میں جڑیں رکھتے ہیں۔ وہ اب بھی عوام میں ن لیگ کا مقبول چہرہ ہیں۔ مگر نواز شریف کے لندن جانے کے بعد مسلم لیگ کی سیاست شہباز شریف کی مفاہمتی حکمت عملی کے تحت چلا ئی جارہی ہے۔ اسے مسلم لیگ ن میں نواز مزاحمتی سیاست کی پسپائی اور شہباز مفاہمتی سیاست کی کامیابی کی دلیل کے طور پر دیکھاجاتا ہے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ن لیگ کا صف اول کا کوئی لیڈر، مرکزی، صوبائی یا مقامی سطح کا کوئی ن لیگی راہنما نواز شریف کی ظاہری مزاحمتی سیاست کے ساتھ قدم ملانے کی حامی بھرنے کو تیار نہیں۔ شہباز شریف اور ن لیگ کے راہنما صدق دل سے یقین رکھتے ہیں کہ نواز شریف کی سیاست اقتدار کے ایوانوں سے دور لے جائے گی جبکہ شہباز کی مفاہمتی حکمت عملی اقتدار کے درکھول دیتی ہے۔

مسلم لیگ من حیث الجماعت شہباز شریف کی سیاسی حکمت عملی پر یکجا لگتی ہے۔ میاں نواز شریف نے عملا ً شہباز شریف کی مفاہمتی سیاست کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا ہے۔ مگر سیاسی ماحول میں تھوڑی سی گرما گرمی پیدا کرنے کے لئے چھوٹی موٹی بڑھک مارنے میں کیا حرج ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ احتساب کے نام پر انتقام کی سیاست کی گئی ہے۔ فوجی ڈکٹیٹر شپ کے دوران سیاستدانوں کا نا م نہاد احتساب اور سیاسی حکومتوں میں سیاسی مخالفین کا نام نہاد احتساب، سب سیاسی انتقام کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ عمران خان کے دور حکومت میں احتساب کے نام پر سیاسی مخالفین کے خلاف بد ترین سیاسی انتقام کا دور دورا رہا۔ اب عمران خان اورپی ٹی آئی سیاسی انتقام کا نشانہ ہیں۔ میاں نواز شریف کے احتساب کے نعرے سے معلوم ہوتا ہے کہ میاں صاحب اقتدار میں آنے کے بعد احتساب کے نام پر سیاسی انتقام کے سلسلے کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ میاں صاحب بخوبی جانتے ہیں کہ اس سسٹم میں جرنیلوں اور ججوں کا احتساب ممکن نہیں ۔ یہ نعرہ محض ایک بڑھک ہے جس کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔ اس میں شک نہیں کہ میاں نواز شریف انکا خاندان اور ن لیگ کی قیادت سیاسی انتقام کا شکار رہی۔ انہوں نے قید و بند اور جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کیں۔ مگر کیا سیاسی انتقام کا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہنا چاہیے۔ میاں صاحب احتساب کے نام پر سیاسی انتقام سے جمہوری عمل آگے نہیں بڑھتا۔ یہ غیر جمہوری قوتوں کو مضبوط کرنے اور جمہوری عمل کو کمزور کرنے کا راستہ ہے۔ جس کے آگے ہر صورت بند باندھنا ہو گا۔

اب عوام احتساب کے کھوکھلے نعرے پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ ملک کی زوال پذیر معیشت نام نہاد احتساب کے نعرے کا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی۔ خدا را عوام سے سچ بولیں۔ عوام مایوسی کا شکار ہیں ۔ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کا مربوط پروگرام دیں۔ کھوکھلی نعرے بازی کا بیانیہ عوام میں آپکی مقبولیت میں اضافہ نہیں کرنے والا۔ ملک کو زوال پذیر معیشت کی بحالی کا ٹھوس منصوبہ چاہئے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے عفریت کے نیچے کچلے عوام کو روزگار چاہیے، مہنگائی سے نجات چاہیے۔ تعلیم سے محروم قوم کے بچوں کو تعلیم چاہئے۔ سماج کے غریب طبقوں کو بیماری کی صورت میں علاج معالجہ کی سہولت میسر نہیں۔ کڑوڑوں عوام کو پینے کا صاف پانی ملنا جوئے شیر لانا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میاں صاحب اشرافیہ کی احتساب کے نام پر انتقامی سیاست سے باہر نکلیں۔ خدا را پسے ہوئے عوام کی جانب دیکھیں انکے مسائل کا حل ڈھونڈیں ۔ سیاسی انتقام کی سوچ کو ترک کریں ۔ نفرت اور انتقام کی سیاست کو دفن کرکے ملک کو سیاسی استحکام، معاشی ترقی اور عوامی خوشحالی کی جانب گامزن کرنے کی کوشش کریں۔ شائد تاریخ آپکو یہ موقع  پھر نہ دے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply