• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ”لایستوی اصحاب النّار و اصحاب الجنہ“/ڈاکٹر اظہر وحید

”لایستوی اصحاب النّار و اصحاب الجنہ“/ڈاکٹر اظہر وحید

ربِ کائنات نے یہ کائنات اس طرح تخلیق کی ہے کہ یہاں اسباب و نتائج کی دنیا غالب رہتی ہے، طاقت علی الاعلان حکمرانی کرتی ہے، جبکہ عقیدے، عقیدت اور اخلاقیات کی دنیا باطن میں پنہاں مخفی رہتی ہے۔ لطف یہ ہے کہ ان تمام تر ٹھوس اور زمینی حقائق کے باوجود اہلِ عقیدہ و اخلاق، اخلاق کا دامن چھوڑتے ہیں نہ عقیدے کا۔ اسباب و نتائج کے اس جہان میں ہم اپنے عقیدے کی کوئی ایسی توجیہ پیش نہیں کر سکتے جو ساری دنیا کے لیے سورج، چاند اور بادل کی طرح قابلِ قبول ہو۔ عقیدے اور عقیدت کی دلیل اسی کے لیے معتبر اور قبول کے قابل ٹھہرتی ہے جو پہلے ہی اس عقیدے کو قبول کر چکا ہو۔ تسلیم کا جہان عجب ہے۔ اس جہانِ رنگ و بو میں شائد صرف انسان ہی وہ مخلوق ہے جو یہاں قدم رکھ پاتی ہے۔ تسلیم کا جہان انسان کے باطن کا جہان ہے۔ اگر انسان اپنے باطن کا جہان آباد نہ کر سکے تو اس کے لیے عالمِ ظاہر ہی حرفِ اول و آخر ٹھہرتا ہے۔ ظاہر کی دنیا میں بسر کرنے والا، نظر آنے والی طاقت کو خدا مانتا ہے۔ باطن کی دنیا میں رہنے والا، ایک نہ نظر آنے والے خدا کو طاقت تسلیم کرتا ہے…… اور تسلیم کرتا ہی چلا جاتا ہے، خواہ وہ شکست خوردہ ہی کیوں نہ ہو، خواہ وہ اپنی پس ماندگی اور پامالی کا خود ہی گواہ کیوں نہ ہو۔ خدا پر یقین دراصل خدائی احکامات و بیانات پر یقین ہے۔ یہ بیانات بالعموم مستقبل کے متعلق ہوتے ہیں، اور یہ مستقبل ہمیشہ غیب میں ہوتا ہے۔ خدا اور خدا کو ماننے والے بندے کے درمیان بھی ایک بندہ کھڑا ہوتا ہے۔ اس بندے پر یقین بھی خدا پر یقین کی ایک صورت ہوتی ہے۔ ظاہر میں نظر آنے والی طاقت کے سامنے جھکنے والا، اس طاقت کے دستِ ظلمت پر بیعت کرنے والا، دراصل خدا پر یقین نہیں رکھتا، خواہ وہ اپنی ظاہری وضع قطع میں، اپنے القابات کے سابقوں لاحقوں میں، معاشرے میں اپنے تعارف میں خدا پرست ہی کیوں نہ دکھائی دیتا ہو۔ اعمال کو نیّات کے ساتھ منسلک کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نیّت کا تعلق باطن سے ہے اور جہانِ حقیقت میں صرف باطن کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ ظاہر اور ظاہر پرستی صرف ظاہر پرستوں کی آنکھ کو خیرہ کرتی ہے۔ حق پرست کی آنکھ کو جلوہِ دانش فرنگ خیرہ کر سکا نہ جبہ و دستار میں ملبوس کوئی دین فروش اسے متاثر کر سکا! ظاہر پرست ننگِ دین، ننگ ملت اور ننگِ وطن ہوتا ہے۔ وہ چند ٹکوں کے عوض قومی غیرت کا سودا کر لیتا ہے۔ وہ قوم فروش ہوتا ہے…… قومِ فروختند، چہ ارزاں فروختند!! وہ اپنی قوم کو غلام بناتا ہے اور خود چند سکّوں کے عوض کسی اور قوم کی غلامی کرتا ہے۔ سکّے ہمیشہ چند ہی ہوتے ہیں، خواہ ابتدا میں دو چند کیوں نہ دکھائی دیں۔ سکے ہمیشہ کم پڑ جاتے ہیں، گنتی میں کافی ہوں تو بھی ناکافی ٹھہرتے ہیں کیونکہ گنتی کرنے والے کے دن گنے جا چکے ہوتے ہیں۔ تہذیب طاقت کی تلوار کو نیام میں رکھنے کا نام ہے۔ ننگی طاقت کا اظہار مہذب دنیا میں ایک اعترافِ شکست ہوتا ہے۔ طاقت استعمال کرنے والا اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اس کے پاس اب کوئی ایسی دلیل نہیں جو انسانوں کو متاثر کر سکے، سو وہ طاقت اور دولت کے بھالے لے کر آتا ہے اور انسانوں کی بستیوں کو روندتا چلا جاتا ہے۔ طاقت کے دیوتا کا پجاری انتقام کی آگ جلاتا ہے، اس آگ کی پرستش کرتا ہے اور طاقت کے استھانوں پر انسان کے لہو کا بلیدان بطور خراج پیش کرتا ہے۔ آگ بھی ایک اندھی طاقت ہے…… غیض اور غضب کا نمونہ…… سب کچھ جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔ ابلیس اور اس کی ذریت آگ سے خلق ہوئے ہیں، ان کا آتشیں رویہ ان کی انا پرستی کو ظاہر کرتا ہے۔ طاقت اگر ضبط آشنا نہ ہو تو طاغوتی قوتوں کے کام ہی آتی ہے۔ ظاہر کو ضبط میں لانے کے لیے جس ضابطے کی ضرورت ہوتی ہے وہ باطن سے آتا ہے۔ باطن سے رابطہ ہو تو ظاہر ضبط اور ربط میں آتا ہے۔ بے ربط طاقت ظلم ڈھائے گی، کیونکہ اس کی دانست میں طاقت کا اندھا اظہار ہی ”کامیابی“ کا پیغام لے کر آتا ہے۔ زور اور زر کی بدولت حاصل کی گئی کامیابی عارضی ہوتی ہے، کیونکہ زر اور زور کے پلڑے بدلتے رہتے ہیں۔ دنیاوی اصول بدلتے رہتے ہیں، اخلاقی اصول ہمیشہ کے لیے ہوتے ہیں۔ اخلاقی کامیابی جسموں کو نہیں، روحوں کو فتح کرتی ہے۔ جسم عارضی ہے، روح کو دوام ہے۔ اس لیے اخلاقی کامیابی ہمیشہ کی کامیابی ہے۔ کسی اخلاقی نظریے کو مادی طاقت سے شکست نہیں دی جا سکتی۔ بندوق کے دہانے سے بات کرنے والا اپنا دہن خود بگاڑتا ہے۔ وہ اخلاقی شکست قبول کر چکا ہوتا ہے۔ مخالف سے دست و پا ہونے والا اندر سے شکست خوردہ ہوتا ہے۔ منصب کا تاج اس کے سر سے اترے گا اور آج نہیں تو کل، سڑک پر کھڑا نظر آئے گا۔ انسانوں کی دنیا میں یہی ایک عجب راز ہے کہ جس کے سر پر سچائی کا تاج ہے وہ شکست کھانے کے بعد بھی فاتح ٹھہرتا ہے، اور جھوٹ کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد بھی مفتوح لکھا جاتا ہے۔ حقیقی فتح اور حقیقی شکست کا منظر دیکھنے کے لیے ہمیں غیب پر ایمان لانا ہوتا ہے…… اور غیب کا تعلق باطن سے ہے اور باطن کا اہلِ باطن سے!! طاقت کا پجاری ظلمت کی دنیا کا اسیر ہوتا ہے۔ اخلاق، انصاف، آزادی اور عدل کا علم بردار نور کی دنیا کا مسافر ہے۔ ظلم ظلمت کی طرف لے جاتا ہے، عدل نور کی طرف! احادیث مبارکہ میں کہا گیا ہے کہ عادل حکمران اور منصف بروزِ حشر نور کے منبروں پر ہوں گے۔ بعد از حیات ملنے والے نور کا انتخاب اسی دنیا میں کیا جاتا ہے۔ فیصلے کا دن آنے سے پہلے بھی انسان کو ایک فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور یہ فیصلہ انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔
دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت
فیصلہ ترا ترے ہاتھ میں ہے، دل یا شکم
اخلاقیات کی دنیا میں کون کہاں کھڑا ہے، اسی سے اس کے مستقبل کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ دل نور ہے، شکم آگ۔ نور کے منبروں کی طرف جانے والے اس دنیا میں بھی نور کے طالب تھے۔ آگ میں جھونکے جانے والے اس دنیا میں بھی خود کو شکم کی آگ میں جھونک چکے ہوتے ہیں۔ طاقت کا پجاری خوف کا ہتھیار استعمال کرے گا۔ اخلاق کا علم بردار خوف دور کرے گا۔ وہ بھوک کا خوف سب سے پہلے دور کرتا ہے۔ اخلاق کے علمبرداروں نے اپنی خانقاہوں پر لنگر خانے کھول دیے۔ طاقت کے پجاری، نماز پڑھتے ہوئے بھی دکھائی دیں تو ان کی نمازوں پر ”ویل“ ہے، آسمانوں پر ان کی عبادت کے برباد ہونے کے اعلانات ہیں، کیونکہ وہ مسکین کو کھانا کھلانے کی رغبت نہیں دلاتے اور بجائے سہارا بننے کے، یتیم کو دھکے دیتے ہیں، بے سہاروں کی پناہ گاہیں چھین لیتے ہیں۔ اس لیے ان کی عبادت ان کے کسی کام نہ آئے گی، وہ دکھاوے کی عبادت کرتے ہیں۔ جو خود کسی خوف میں مبتلا ہو، وہ اپنے سے کم زوروں کو خوف میں مبتلا رکھے گا۔ ایک آزاد شخص ہی کسی کو آزادی کا خواب دے سکتا ہے، آزادی دلا سکتا ہے۔ خوف اور بھوک سے آزادی دلانے والا یقیناً ایک آزاد شخص ہے۔ بہر طور طاقت ظالم کا واحد سہارا ہے، کیونکہ وہ اخلاقی اور روحانی طاقت سے محروم ہو چکا ہوتا ہے۔ طاقت کا سورج جدھر جائے گا، اس کا رخِ عبادت اسی طرف مڑتا چلا جائے گا۔ یوں اس کا قبلہ اور ہمارا قبلہ ایک نہیں رہتا۔ ظالم ظلمت کا راہی ہے، مظلوم نور کا متلاشی ہے۔ اس لیے وہ صبر سے کام لے گا۔ اپنے رب کی معیت میں رہے گا۔ وہ طاقت کے بت کی پرستش نہیں کرتا۔ اس کے ایمان کو طاقت کا خوف زائل نہیں کر سکتا۔ ایمان نور ہے، کفر ظلمت۔ ظلمت تاریکی ہے، اندھیرا ہے…… بلکہ اندھیر ہے اور اندھیر نگری ہے۔ اصحابِ نار اور اصحابِ نور برابر نہیں ہو سکتے…… قرآن کا فیصلہ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply