شاہ رخ خان: ایک سپر سٹار کا تجزیہ(3)-ذوالفقار علی زلفی

امیتابھ بچن کا مشہور ڈائیلاگ ہے “ہم جہاں کھڑے ہوتے ہیں لائن وہیں سے شروع ہوتی ہے” ـ 70 اور 80 کے عشروں میں ایسا ہی تھا ـ نوے کی دہائی کے وسط میں مگر لائن وہاں سے شروع ہونے لگی جہاں شاہ رخ خان کھڑے نظر آئے ـ
نوے کی دہائی میں سیاسی و معاشی تبدیلیوں کے باعث امیتابھ بچن کا اینگری ینگ مین سینما اپنی افادیت کھوتا چلا گیا ـ بعض ہدایت کار ہوا کا رخ بھانپ نہ سکے، وہ بدستور اینگری ینگ مین پیش کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر شاہ رخ خان کی یکے بعد دیگرے تین فلموں نے اینگری ینگ مین سینما کے پرخچے اڑا کر اسے قصہ پارینہ بنا دیا ـ یہ تین فلمیں “بازی گر” (1993) , “ڈر” (1993) اور “انجام” (1994) ہیں ـ
“بازی گر” کے کردار میں اینگری ینگ مین کی شباہت موجود ہے مگر یہ خشمگین کردار 70 اور 80 کی دہائیوں کا محنت کش نہیں ہے جو اصولوں کی بنیاد پر سرمایہ دار سے لڑتا ہے ـ یہ ایک ایسا سفاک منتقم ہے جو کسی اخلاقی اصول اور ضمیر کی آواز کا قائل نہیں ہے ـ یہ کردار آزاد منڈی کے اصولوں کی طرح بے رحم اور مفاد پرست ہے جس کو ردِ سرمایہ داریت سے کوئی سروکار نہیں ہے ـ
“ڈر” اور “انجام” کا شاہ رخ خان دوسروں کی بیویوں کو پانے کے لئے ہر حد سے گزر جانے والا کردار ہے ـ یہ بھی بظاہر ایک ناراض نوجوان ہے مگر یہ سرمایہ دار کی ذاتی ملکیتوں کو عوامی حق قرار دینے کا نظریہ نہیں رکھتا ـ یہ دوسروں کی ذاتی ملکیتوں (بیویوں) کو چھیننے کے لئے ہر راستے اور ہر پالیسی کو حلال گردانتا ہے ـ یہ کردار نیو لبرل معاشی پالیسی کے شکار ان مڈل کلاس نوجوانوں کا استعارہ ہیں جو موقع کو کامیابی میں بدلنے سے محرومی کے باعث نفسیاتی توڑ پھوڑ کا شکار ہوکر آمادہ فساد ہوجاتے ہیں ـ
امیتابھ بچن کے اینگری ینگ مین سینما کے سحر سے آلودہ ماحول میں اس قسم کے کردار قبول کرنا ایک بہت بڑا رسک تھا ـ ناکامی کی صورت میں شاہ رخ خان کا فلمی کیریئر تباہ بھی ہوسکتا تھا مگر انہوں نے یہ رسک لیا ـ بدلتی سیاسی و معاشی صورت حال نے ان کے اس رسکی فیصلوں کو تائید بخش کر انہیں اینگری ینگ مین سینما کا گورکن بنا دیا ـ ان حیرت انگیز کرداروں نے ان کے سپراسٹار بننے کی راہ بھی ہم وار کردی ـ ان کی یہ تخریب کاری مڈل کلاس فلم بینوں کو بھا گئی ـ
اس تخریب کاری سے پہلے ہی وہ اونچے خواب دیکھنے والے مڈل کلاس فلم بینوں کی نظروں میں آگئے تھے ـ یہ واقعہ ہوا 1992 کو جب وہ “راجو بن گیا جنٹلمین” کی صورت سینما اسکرین پر نمودار ہوئے ـ یہ ایک ایسے متوسط طبقے کے نوجوان کا کردار ہے جو آنکھوں میں ترقی کے خواب لئے ایک چھوٹے شہر سے ممبئی آتا ہے ـ یہ شاہ رخ خان سمیت سیکڑوں ڈگری ہولڈر مڈل کلاس نوجوانوں کی کہانی تھی ـ ایک “مڈل کلاس آؤٹ سائیڈر” جس کے پاس سوائے صلاحیت اور قابلیت کے کچھ نہیں ہے ـ وہ ممبئی آکر نئے چمکتے دمکتے بھارت سے اپنا حصہ وصول کرنے کی کامیاب کوشش کرتا ہے ـ یہ کردار ابھرتی ہوئی مڈل کلاس کے دل کی آواز ثابت ہوئی ـ متوسط طبقے کو اپنا امیتابھ بچن مل گیا ـ
1995 کو انہوں نے دھماکہ کردیا ـ اس دھماکے نے دلیپ کمار، راجندر کمار، دھرمیندر اور راجیش کھنہ سے چلے آرہے رومانس کے تصور کو بدل کر رکھ دیا ـ رومانس کا نیا معیار طے ہوا جس کی بنیاد سلمان خان نے رکھی تھی مگر اس پر پرشکوہ عمارت شاہ رخ خان نے بنا کر پیش کی ـ اس دھماکے کو “دل والے دلہنیا لے جائیں گے” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ـ اس فلم میں شاہ رخ خان کے کردار نے دو انقلابی چیزیں متعارف کروائیں ـ اول: محب وطن این آر آئی جن کو اپنا سرمایہ نئے بھارت میں منتقل کرنے کی ترغیب دی گئی اور دوم: لطیف و صلح جو رام جو مکالمہ کے ذریعے سیتا کو لنکا سے اڑا لے جاتا ہے ـ گویا اس فلم میں ہندو توا اور لبرل معاشی پالیسی کا امتزاج نظر آیا ـ
“دل والے دلہنیا لے جائیں گے” کا شاہ رخ خان “راج” ہے جو اپنے کردار و عمل کے باعث تہذیبی تناظر میں تصورِ رام راج کا اشاریہ ہے ـ وہ یورپ (بن باس) میں رہائش پزیر نرم مزاج کا ایک ایسا رومانٹک نوجوان ہے جسے بھارتی (ایودھیا) اقدار و روایات کا مکمل پاس ہے ـ وہ سیتا (سمرن) کو جیتنے کے لئے سوئمبر (شادی کی تقریب) میں شرکت کرکے اسے “راونڑ” سے بچانے کی کوشش کرتا ہے ـ اس پورے عمل کو وہ بڑی نفاست سے انجام دیتا ہے ـ سمرن کا دیہی باپ جو نہرو پالیسی کی یادگار ہے کو نرم و ملائم انداز میں سمجھاتا ہے کہ اب زمانہ بدل چکا ہے ، ملک میں لبرل انقلاب آچکا ہے ـ دیہی جاگیردارانہ ثقافت بالآخر شکست تسلیم کرکے لبرل معیشت کو قبول کرکے سمرن کو اسے اپنانے کی یہ کہہ کر اجازت دے دیتا ہے کہ “جا جی لے اپنی زندگی” ـ
اس فلم میں رام راج اور لبرل معیشت کا جو امتزاج پیش کیا گیا اس نے شاہ رخ خان کی طاقت کو دوگنا کردیا ـ یہاں سے جنم ہوا اس سپراسٹار کا جس نے لبرل معیشت اور تصورِ رام راج کو سینما اسکرین پر وہ طاقت فراہم کی جو آج بھی ناقابلِ شکست ہے ـ اسے ناقابلِ شکست بنانے کے لئے تاہم عشق کے امتحاں اور بھی تھے ـ جن کا ذکر آگے آئے گا ـ
جاری ہے

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply