صندل/شاہین کمال(1)

آج کی صبح بھی روز ہی جیسی چبھتی ہوئی تھی۔ وہی غصیلا قہر برساتا سورج، نروٹھی ساکت ہوا اور کائیں کائیں کرتے ہوئے سمع خراش کؤے۔ شہر ہے یا کنکریٹ کا جنگل، درخت ناپید سو کانوں کا مقدر چڑیوں کی چہکار کے لیے ترسنا ہی ٹھہرا۔ نہ ہوا میں تازگی اور نہ ہی سائے میں ٹھنڈک، ہر چیز میں بے کیفی اور کھردرا پن۔ جانے ماحول ہی ایسا تھا یا میرے دل کی اداسی نے شہر کو بھی حبس میں ملوف کیا۔

دل تو میرا اداس ہے ناصر

شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

اب کمبخت دل بھی ایسا نامراد کہ نہ سنبھلتا ہے اور نہ ہی بے اعتنائی کا عادی ہوتا ہے۔ سو بار دل کو سمجھایا، صبح و شام اس نامراد کو مصلحت کی معجون بھی چٹائی۔ یار مٹی ڈال، بیاسی فیصدی بیویاں ایسی ہی کلستی، جھلستی زندگیاں گزرتی ہیں۔ پر نہ جی دل کی وہی پرانی ہٹ۔

ہر بار کہا دل سے چل بھول بھی جا اس کو

ہر بار کہا دل نے، تم دل سے نہیں کہتے

میری شادی میرے اٹھارہواں لگتے ہی ہوگئی تھی۔ ایف اے کا رزلٹ بھی میں نے کانپتے ہاتھوں سے سسرال میں دیکھا تھا۔ دل اس دہشت سے دھڑک دھڑک کر ادھ موا ہوگیا تھا کہ کہیں سسرال میں سبکی نہ ہو جائے۔ میں مارے باندھے کی طالب علم تھی، پڑھائی کی قطعاً شوقین نہیں۔ بس سب پڑھتے ہیں سو میں بھی پڑھ رہی تھی اور کچھ ابا جان کی زور زبردستی بھی تھی۔ میرا تو بچپن سے بس ایک ہی شوق تھا اور وہ تھا دلہن بننے کا۔ بچپن، لڑکپن اور آتی نوخیز جوانی یہی میرا اکلوتا محبوب سپنا تھا اور آٹھوں پہر میں نے اُسی سندر پل کو جیا۔ ہے تو یقیناً دیوانہ پن پر اختیار سے باہر۔ جب فارس کا رشتہ آیا اور بات آگے بڑھی تو فارس بر دکھوے کے لیے گھر آئے۔ میں نے پردے کی جھری سے جھانکا اور برسوں سے پہلو میں دھڑکتا دل لمحوں میں مچل کر بے ایمان ہوگیا۔ اب میری رات دن بس یہی دعا تھی کہ ابا جان اس رشتے کے لیے ہامی بھر لیں کہ ابا جان ہر رشتے میں بہت مین میخ نکالتے تھے۔ کسی ساعتِ سعد میں دعا باب قبولیت میں باریاب ہوئی اور میں قیصرہ قادری سے قیصرہ فارس ہوئی۔

ابا جان کو فارس کا فقط انٹر پاس ہونا بہت کھٹک رہا تھا۔ فارس صرف آئی کام پاس تھے اور جوبلی میں اپنے باپ اور بڑے بھائی کے ساتھ دکان سنبھالتے تھے۔ ان لوگوں کی کپڑوں کی بہت چلتی ہوئی دکان تھی۔ ہماری برادری چوں کہ ایک ہی تھی سو کچھ امی کے سمجھانے بجھانے پر لیکن حقیقتاً اپنی بیماری سے خوفزدہ اور اپنی طرف جھپٹتی موت سے ہراساں میرے باپ نے بے دلی سے ہاں کہ دی۔ ابا جان گردوں کی بیماری میں مبتلا تھے اور ہفتے میں تین دن ان کی ڈائیلسسز ہوتی تھی۔ ڈاکٹر ان کی جانب سے پر امید نہیں تھے اور میرے باپ کی آنکھوں میں میرے لیے تفکر واضح پڑھا جا سکتا تھا۔ میرا چھوٹا بھائی نویں میں تھا اور ابھی منزل بہت دور تھی۔

فارس شاید بہت کم گو تھے یا پھر شدید نروس کہ ابا جان کے بیشتر سوالات کا مختصر ترین جواب اور وہ بھی زیادہ تر سر ہلا کر ہاں، ناں ہی میں دیا۔ باوجود کم پڑھے لکھے ہونے کے فارس کی شخصیت ایسی شاندار کہ تختِ یوسف پر جچتے۔ انہیں دیکھ کر کوئی بھی لڑکی با اسانی دل ہار سکتی تھی۔ میں سرشار تھی کہ ایسے یوسف ثانی کی ہمراہی نصیب ہوئی۔ میرے حسن کا شہرہ بھی چار دانگ تھا۔ کالج کی ہمجولیاں مجھے ماہیما چودھری سے ملاتی تھیں۔ ہم دونوں کی جوڑی یقیناً چاند سورج کو شرماتی۔

ہائے وہ کیسے رومان پرور اور خوابناک دن تھے۔ آنکھوں میں دھنک بستی تھی تو ہونٹوں پر مسکراہٹ کی پھوار برستی۔ لوگوں کی موجودگی کے باعث دن کھٹکتے اور پیا کی ہمراہی میں جگ راتیں سہانی لگتی تھیں۔ ہم لوگ ہنی مون منانے مری گئے تھے۔ میں نے زندگی میں پہلی بار ٹرین کا سفر کیا تھا اور میرا روم روم خوشی سے رقصاں تھا۔ میری کراچی کی صحرائی آنکھوں نے زندگی میں پہلی بار ہرے بھرے سرسبز و شاداب پہاڑ اور وادیاں دیکھی۔ میں تو پہاڑوں کی شیدائی ہوگئی تھی۔ مارے خوشی کے نہ میرے پاؤں زمین پر ٹکتے تھے اور نہ ہی میری قل قل کرتی ہنسی قابو میں آتی تھی۔ ایک شام مری مال روڈ پر اچانک برستی بارش میں ہم دونوں بری طرح بھیگ گئے اور مجھے معمولی سا نزلہ بخار ہوگیا۔ اف! میری بیماری پر فارس کی بے قراری دیدنی تھی۔ جب ایسا دلبر تیماردار ہو تو کون کافر صحت یاب ہونا چاہیے گا۔ فارس کا بس نہیں چلتا تھا کہ جہاں میں قدم رکھوں وہاں وہ اپنی ہتھیلیاں رکھ دیں یا پلکیں بچھا دیں۔ میں محبت کے ہنڈولے میں پیا سنگ ساتویں آسمان پر تھی۔ مری اور ایبٹ آباد میں گزارے وہ محبت بھرے سات دن شاید سات جنموں کے لیے کافی ہوتے مگر محبت کی ایک مجبوری یہ بھی کہ وہ مستقل اعتراف کے اضطراب میں مبتلا رہتی ہے۔ جانے محبت بے یقین کیوں ہوتی ہے؟ اسے مسلسل اعادہ چاہیے اور وہ محبوب کے ہونٹوں سے جام محبت کی سلسبیل کی متقاضی بھی۔

محبت کے روپہلے دن اور سنجوگ کی جگمگاتی راتیں تھیں کہ شادی کی پہلی سالگرہ کے قریب مجھے اپنے مکمل ہونے کی نوید ملی۔ ہم دونوں گویا خوشی سے دیوانے ہی ہو گئے۔ ڈاکٹر کی بتائی گئی ہر بات کو حرف آخر مان لیا گیا اور ہر ہر احتیاط برتی گئی۔ میں خرابی طبیعت کے باوجود کھلتی جا رہی تھی اور خوشی میرے روم روم سے چھلکتی تھی۔ میں نے آنے والے مہمان کے لیے چھوٹی بڑی کئی چیزیں جمع کر لیں تھیں۔ فارس بھی دکان سے واپسی پر آنے والے کے لیے کچھ نہ کچھ لیتے آتے۔ ان دنوں مجھے ٹھیلے کے بن کباب کھانے کی ہڑک اٹھتی تھی اور فارس لازمی میرے لیے بن کباب لاتے۔ کبھی دل جلیبی کے لیے مچل اٹھتا اور فارس پلک جھپکتے میں بوتل کے جن کی طرح میری فرمائش پوری کر دیتے۔ اللہ جانے میرا یہ اول فول کھانے کا شوق تھا یا کیا کہ میرا وزن تیزی سے بڑھ رہا تھا پر میں ہر چیز سے بے نیاز آنے والے کی تیاریوں میں مگن و مصروف تھی۔ کوئی اس وقت مجھے جنت کی پیشکش بھی کرتا تو میں اسے اپنے آنے والے بچے صدقے ٹال دیتی۔

پھر۔۔ پھر میرا انتظار ہجر میں ڈھل گیا۔ اس رات سب کچھ ہی تو ٹھیک تھا، میری جٹھانی یخنی پلاؤ اور کباب بنا کر لائیں تھیں۔ سب نے ہنسی خوشی کھانا کھایا اور کھانے کے بعد برنس روڈ کی ملائی مکھن جیسی ربڑی اور فارس میرے لیے اسپیشل فالودہ بھی لائے تھے۔ سونے تک سب ہی کچھ تو نارمل تھا۔ میرے پیٹ کی معمول ہلچل اور اس ننھی جان کی شرارتی ککس۔ آدھی رات کو جانے کیا ہوا کہ اچانک مجھے بلیڈنگ شروع ہوگئی اور فارس پڑوسیوں کی گاڑی لیکر مجھے سیون ڈے ہسپتال لے کر بھاگے مگر میرا ننھا کھیلنڈرا بچہ نہیں بچا۔ میں ہسپتال میں ایک ہفتہ، موت اور زیست کی کشمکش میں پینڈولم کی طرح جھولتی آدھ موئی اور کئی بوتلیں خون کی چڑھوا کر خالی کوکھ اور ویران دل کے ساتھ گھر لوٹ آئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply