جذبات اور رواقیت/ڈاکٹر مختیار ملغانی

رواقیت (Stoicism) کا روایتی مطلب اپنے جذبات کو اپنے عقل و فہم کے تابع رکھنا ہے، حسد، رشک، غصہ، لالچ اور خوف جیسے جذبات کا اظہار کمزوری کی علامت سمجھا جاتا ہے

Advertisements
julia rana solicitors

 

 

 

 

لہذا مضبوط شخصیت کیلئے ضروری ہے کہ وہ ان جذبات کو صبر ، عقل اور ضبط کی لگام ڈال کر رکھے تاکہ سماج میں اس کی اہمیت اور افادیت بہتر ہو سکے وغیرہ وغیرہ۔ آجکل سیاست دانوں ، کھلاڑیوں اور کاروباری شخصیات کو رواقیت سکھائی جاتی ہے جسے management of emotions کا نام دیا گیا ہے، گویا کہ رواقیت کو کارکردگی کا اہم آلہ بتایا جاتا ہے۔
ایک اہم بات جو رواقیت کو دوسرے فلسفوں سے جدا کرتی ہے وہ یہ کہ جذبات اپنی اصل میں انسانی فطرت کا حصہ نہیں بلکہ ان کا تعلق حیوانی جبلت سے ہے، دوسرے الفاظ میں جزبات عقل و شعور کی بجائے نفس سے متعلقہ ہیں ۔جذبات کو لے کر stoics کی یہ روایتی رائے ہے۔
لیکن یہاں ایک دوسری رائے بھی ہے، وہ یہ کہ زندگی کے میدان میں جذبات گویا کہ سرائے کی سی اہمیت رکھتے ہیں، آپ کی اندرونی دنیا کا بیرونی دنیا سے ٹکراؤ آپ کے جذبات کی بدولت ممکن ہوپاتا ہے، بیرونی دنیا کو لے کر آپ ابجیکٹیو نہیں رہ سکتے، کچھ چیزیں آپ کیلئے اہم یا پسندیدہ ہیں اور کچھ غیر اہم اور ناپسندیدہ، ایسے میں آپ کے جذبات جب اس بیرونی دنیا سے ٹکرائیں گے تو وہ خالصتاً سبجیکٹیو اگرچہ ہوں گے لیکن ان میں عقلیت اور فہم و شعور کا عنصر ہر حال میں شامل ہوگا کہ آپ کی اندرونی دنیا فطرت و نفس کا امتزاج ہے نہ کہ خالصتاً نفس، آپ کیلئے کسی چیز کی اہمیت یا پسندیدگی کسی حد تک آپ کے اقدار پر منحصر ہے، ایسے میں جذبات کو کامل حیوانی جبلت کہنا درست نہیں ۔
لیکن اگر جزبات کا اظہار اس حد تک سبجیکٹیو ہوکہ پسندیدگی اور اہمیت اقدار کی پسماندہ ترین سطح پر ہوں اور خواہش و عزم کے پورا نہ ہونے پر آپ کو جان کے لالے پڑ جائیں اور آپ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اذیت کی کھونٹی پر ٹانگنا چاہیں تو یہ کیفیت نارمل نہیں، اسے جذباتی افلاس اور درماندگی کہا جائے گا اور رواقیت اسی پیچیدگی کے درست کرنے کا نام ہے ۔ گویا کہ رواقیت پسند کوئی بےحس دھڑ نہیں ، وہ جذبات رکھتا ہے اور اس کی اہمیت سے واقف ہے، لیکن چونکہ اندرونی و بیرونی دنیا کے ٹکراؤ کے دوران جذبات ہی پہلی صف کے جنگجو ہیں اور یہ پرجوش اور بے ساختہ ہیں، اس لئے ان کو لگام ڈالنا ضروری ہے۔
آپ کا اسلوبِ فکر، آپ کا اظہارِ جذبات اور آپ کا پیمانۂ اقدار ایک دوسرے سے ہم آہنگ اور ایک دوسرے میں پیوستہ ہیں، اور ان تین میں عدم توازن ہمیشہ جذباتی بگاڑ کو جنم دے گا ۔اس لئے غیر ضروری جذبابیت کی جڑیں اسلوب فکر اور پیمانۂ اقدار میں ڈھونڈھنی چاہئیں ۔
نفسیات کی ایک اصطلاح cognitive behavioral therapy ہے، رواقیت اور اس تھراپی میں جو چیز مشترک ہے وہ یہ کہ کسی جذبے اور اس جذبے کے تصور میں زمین آسمان کا فرق ہے، مثلآ خوف ایک جذبہ ہے لیکن خوف کو لے کر آگے کی بربادیوں کا تصور آپ کی اپنی اختراع ہے، سامنے دھند ہے کچھ نظر نہیں آرہا، بس کوئی گھاٹی سی ہے، آپ خوف محسوس کر سکتے ہیں کہ نجانے گھاٹی میں کیا چھپا ہے جو دھند کی وجہ سے نظر نہیں آرہا ، لیکن یہ سوچنا کہ گھاٹی میں خونخوار بھیڑیا ہی بیٹھا ہے جو بس حملہ کرنے کو تیار ہے تو یہ آپ کی اپنی اختراع، اپنا تصور ہے۔ ایسے میں ماہرین اس خوف کو A اور خوف کے تصور کو B کا فرضی نام دے کر آپ کو صرف A تک محدود رہنے اور B کو اگنور کرنے کی تلقین و مشورہ دیتے ہیں ۔
لیکن رواقیت اور کوگنیٹیو بیہیویریل تھراپی میں جو فرق ہے وہ بہت اہم ہے، تھراپی میں منفی تصور کو مثبت سے تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر فرد اپنے گرد ریئیلٹی کو کس نگاہ سے دیکھ رہا ہے اس پہ کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا جاتا، اور یہی اس تھراپی کی ناکامی کا سبب ہے ، لیکن رواقیت فرد اور ریئیلیٹی کے درمیان تعلق کو سدھارنے کا نام ہے ۔ رواقیت خوشحال زندگی کے سستے نعرے نہیں بیچتی بلکہ یہ ایک طویل سفر کا نام ہے جس میں فرد کی شخصیت آہستہ آہستہ بلوغت کو پہنچتی ہے ۔
اس بلوغت تک پہنچنے میں جو چیز اہم ہے وہ موضوعیت (subjectivity) کو سمجھنا ہے، ایک ننگی موضوعیت ہے جسے گنوار بھی کہہ سکتے ہیں، وہ یہ کہ آپ کی خواہش ، آپ کی رائے اور آپ کی فکر ہی درست ہے، باقی سب باطل ہے، اس سے اگلی سٹیج یہ ہے کہ اس بلوغت پر تجربات کا ایک خول چڑھتا ہے ، اگر آپ زندگی کے تجربات و حادثات سے واقعتاً کچھ سیکھتے ہیں اور اپنی رائے، پسندیدگی، اقدار اور فکر میں مثبت تبدیلی کو خوش آمدید کہتے ہیں تو آپ اس دوسری نیم پختہ بلوغت کو پہنچتے ہیں، یہاں آپ کی شخصیت بدل جاتی ہے، لیکن اپنا آپ کچھ پرایا سا محسوس ہوتا ہے، تیسری اور بلند ترین سطح یہ ہے کہ یہ نیم پختہ بلوغت واپس اپ کی پہلی اور اصلی بلوغت میں سرایت کر جاتی ہے، اس سے آپ کا تشخص بھی قائم رہتا ہے اور بالیدگی بھی عود کر آتی ہے، یہ تیسری اور بلند ترین بلوغت کی سطح تب ہی ممکن ہے جب آپ اپنے سماج میں مروج ثقافت و ادب کو ساتھ لے کر چلیں، ثقافت و ادب کی بیرونی یلغار کے زیرِ اثر اس بلندی تک پہنچنا ممکن نہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply