آزمائش کے لمحات اور جادوئی فارمولے/خواجہ مظہر صدیقی

آپ کو کسی سے دکھ پہنچا ، دل پر چوٹ لگی ، ذہن و روح دکھ سے معمور ہوئے ، دماغ کو بے سکونی ہوئی ،شدید تکلیف ہوئی ، پریشانی بڑھی ، مسائل پیدا ہوئے ، الجھنوں میں پھنس کر رہ گئے ، کوئی بڑا جانی و مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا اور ارمان بھی کرچی کرچی ہو گئے، قیمتی و ان مول رشتے بکھر گئے ،

Advertisements
julia rana solicitors london

 

 

 

کچھ لوگ پہچانے گئے، اب آنسو رکنے اور تھمنے کا نام نہیں لے رہے ، دل کی دھڑکن کی رفتار تیز ہوئے جارہی ہے ، رشتوں سے اور زندگی سے اعتبار اٹھ گیا ۔ دل پہ پڑا بوجھ اترتا نہیں ، صدمہ ہے کہ اس نے گہرا اثر چھوڑا ہے ۔
مسائل اور پریشانیاں زندگی کا لازمی جزو ہیں ۔ آزمائشوں میں سے نکلنے اور سرخرو ہونے کے لیے چند باتیں جاننا ، سمجھنا اور سیکھنا ضروری ہیں۔
پہلی بات تو یہ سمجھ لیں کہ اس نوعیت کی کسی بھی صورت حال میں مایوس نہیں ہوتے اور ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتے۔ امید کے دائرے سے نہیں نکلتے ، مایوسی کو نہیں اوڑھتے ، یقین رکھیں کہ دنیا میں مواقع اور امکانات ختم نہیں ہوئے ۔ مایوسی کو کفر کہا جاتا ہے۔ اور بھلے لوگ تو کہہ گئے ہیں مایوس تو وہ ہو جس کا رب نہ ہو ۔ اسی رب نے یوسف کو کنویں سے اور یونس کو مچھلی سے زندگی بخشی ۔ بس صورت حال جیسی بھی ہو مایوس نہیں ہوتے۔
دوسری بات سمجھ لیجیے کہ چاہے کچھ ہو جائے ، آپ کے لیے زمین پھٹ جائے اور آسمان آپ کے سر پر آ گرے ۔ ۔ ۔ صبر نہیں چھوڑنا ۔ مشکلات کے طوفان اور مسائل کے زلزلے آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ آپ نے ہر حال میں صبر کرنا ہے۔ پہلے لمحے کے صبر کا اجر ہے کیوں کہ صبر رائیگاں نہیں جاتا ۔ برداشت کی چوٹی صبر ہے ۔ انعام یافتہ لوگوں کی بڑی تعداد صبر کی عادی ہوتی ہے ۔ اسی کا نتیجہ میٹھا پھل ہوتا ہے۔ ذہن میں رکھو کہ صبر مستقل مزاجی کا تقاضا کرتا ہے ۔ ان لمیٹڈ صبر ہی اثرات مرتب کرتا ہے ۔
تیسری بات، جس بھی نوعیت کا معاملہ ہو ، ردعمل میں جلد بازی کا مظاہرہ کرنا نادانی اور بے وقوفی کہلاتا ہے ۔ جلد بازی شیطانی صفات میں سے ایک ہے ۔ فوری رد عمل سے نقصانات کا اندیشہ ہوتا ہے۔ چھوٹے موٹے نہیں بلکہ بڑے بڑے نقصانات ۔ معاملہ پیش آیا ۔ رک کر ،ٹھہر کر، سوچ سمجھ کر ، کچھ تاخیر سے، مشاورت سے اور تدبیر کو اختیار کرتے ہوئے رد عمل دکھائیے ۔ فوری ردعمل جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ رک جانے سے نوعیت مختلف ہو سکتی ہے ۔ نتیجہ آپ کے حق میں آ سکتا ہے۔
اب باری ہے چوتھی بات کی، آپ کو کسی کی ہر بات کا جواب دینے ، صفائی پیش کرنے اور معاملہ صاف کرنے کی عادت کو ترک کر نا ہو گی ۔ ہر بات کا جواب ترکی بہ ترکی ، رو بہ رو دینے سے بھی الجھنوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اچھے بھلے رشتے ناتے اس ایک جواب دینے کی عادت سے ٹوٹ جاتے ہیں ۔ کہنے والے کمال نہیں کرتے سہنے والے کمال کرتے ہیں ۔ جب کبھی ایسا معاملہ پیش آئے ، جواب دینا ضروری ہو بھی تو موقع محل دیکھتے ہوئے حکمت و دانائی سے جواب دیجئے ۔ میں نے دیکھا ہے کہ دانا لوگ ہر الجھا دینے سوال کو جس سے بدگمانی ، لڑائی جھگڑا اور نفرت کے پیدا ہونے کا احتمال ہو اس کے جواب کو موخر کر دیتے یا ٹال جاتے ہیں۔
پانچویں اور انتہائی اہم بات کی طرف بڑھتے ہیں ۔ ہم نے اکثر سنا ہوتا ہے کہ ایک چپ سو سکھ، خاموشی آوازوں کی مرشد ہوتی ہے۔ پھر پتہ نہیں کیوں ہم پڑھی اور سنی ہر قابل عمل بات کو فراموش کر دیتے ہیں ۔ اچھی اور سچی باتوں پر عمل کا جب جب وقت آتا ہے ،ذہن بھی کہیں گھاس چرنے چلا جاتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ خاموشی دانا کا زیور اور احمق کا بھرم ہوتی ہے ۔ خاموشی کو وجود پر نہیں دل میں اترنے کا موقع دیجئے ۔ میں کہا کرتا ہوں کہ غصے اور نفرت کا علاج خاموش رہنے میں ہے ۔ جب جب مخالفوں ، حاسدوں اور دشمنوں کی طرف سے برا ہو ، حالات نا مناسب اور نا موافق ہوں تو فوری طور پر خاموشی اختیار کرنا دانشمندی ہی کہلائے گا ۔
چھٹی اور سب سے چوٹی کی بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے وہ یہ کہ جو ہے اس پر شکر گزار ہوں اور جو نہیں ہے اس کی فکر چھوڑ دیجئے ۔ شکر ادا کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہیں ۔ رب کی طرف سے بہت انعام اور زیادہ برکت عطا ہو گی ۔ شکر کے درخت ہی پھل دار اور رس دار ہوتے ہیں ۔ شکر کو اپنے اوپر لازم کر لیں ۔ ہر ہر قدم اور ہر ہر سانس پر شکر کے عادی بن جائیں ۔ کتنی ساری نعمتیں آپ کو حاصل ہیں کہ زندگی کا سفر آسان ہو جاتا ہے ۔ ناشکری کفر کے قریب کرتی ہے ۔ دیکھی سنی بات ہے کہ شکر کے بیج پر ہری بھری فصل ،لہلہاتی سرسبز و شاداب کھیتی نکلتی ہے۔
بشکریہ فیسبک  وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply