روس سے گیا امریکہ/ڈاکٹر مجاہد مرزا

مثل برگ آوارہ’سے

Advertisements
julia rana solicitors london

 

 

 

 

ماورائیت کے حوالے سے میری سوچ میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آ سکی تھی۔ کونیات اور متوازی نفسیات پڑھنے کے بعد بھی میری تشکیک میں شاید ہی کمی آئی تھی۔
مجھے امریکا جانے کا کوئی اتنا شوق نہیں تھا مگر اول تو ماسکو میں اب زندگی کاٹنا دشوار ہوتا جا رہا تھا، دوسرے جب سے میرا مینیجر مقرب تاجک مجھے غچہ دے کر امریکا گیا تھا، میں سمجھتا تھا کہ امریکا جا کر میں اسے شاید پکڑ سکوں مگر اس خام خیالی پر مجھے کئی بار شک ہوا تھا پھر بھی دو سال پیشتر میں نے امریکا کے ویزے کی درخواست دے ہی دی تھی۔ انٹرویو کے دوران متعلقہ کونسلر سے تب میں نے سچ ہی بولا تھا جب اس نے پوچھا تھا کہ آپ امریکہ کیوں جانا چاہتے ہیں، جس کے جواب میں میرے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا کہ میں امریکا جانے کے لیے مرا نہیں جا رہا مگر چونکہ میرا مینیجر مجھے لوٹ کر وہاں بھاگ گیا ہے، چنانچہ میں چاہتا تھا کہ اسے وہاں جا لوں۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ میں نے ایسا بیباک جواب کیوں دیا کہ امریکی کونسلر نے تڑ سے کہا تھا “اور اگر آپ وہاں جا کر اس کو قتل کر دیں تو؟” میں اس کی کہی اس بات پر بھنا گیا تھا اور میں نے کونسلر سے پوچھا تھا،” کیا میں آپ کو شکل سے قاتل لگتا ہوں؟” کونسلر نے میری جانب دیکھے بغیر میرے پاسپورٹ پر ریجیکٹ کا ٹھپہ لگا کر مجھے تھما دیا تھا۔
لیکن اب میرے پاس روس کا پاسپورٹ تھا۔ ایک پرانے ہم خیال دوست نے مجھے تلاش کر لیا تھا اوراای میل کے ذریعے اصرار کر رہا تھا کہ میں امریکا آئوں۔ یہ دوست بہت عرصہ پہلے جرمنی چلا گیا تھا اور وہاں سے امریکا منتقل ہو گیا تھا۔ میرے رشتے کے ایک بھائی بھی امریکا میں تھے، جن سے میں نے دعوت نامہ اور ان کے ٹیکس ریٹرنز کی نقول منگوا لی تھیں تاکہ ویزا کی درخواست کا کیس کمزور نہ ہو۔ اس بار میں پوری فائل تیار کرکے امریکی سفارت خانے میں اپنے ساتھ لے گیا تھا مگر کونسلر نے وہی ایک سوال پوچھا تھا، “آپ امریکا کیوں جانا چاہتے ہیں” اس بار بھی میں نے سچ بولا تھا کہ میلینیم کے جشن میں شامل ہونے کی خاطر جس پر کونسلر نے کہا تھا کہ دو بجے آ کر پاسپورٹ لے جائیں۔ مجھے خود کہنا پڑا تھا “کیا آپ کو کیس فائل نہیں دیکھنی؟” کونسلر مسکرا دیا تھا۔ دو بجے مجھے ویزا لگا ہوا پاسپورٹ واپس مل گیا تھا۔
میں ماسکو سے نیویارک کی پرواز پر روانہ ہو گیا تھا۔ ساڑھے گیارہ گھنٹے کے بعد میں نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایر پورٹ پر اترا تھا۔ امیگریشن لاؤنج میں داخل ہو کر مجھے مایوسی ہوئی تھی۔ باوجود ماہ دسمبر کے امیگریشن کی لائن میں کھڑے بہت سے لوگوں کو نجانے کیوں گرمی لگ رہی تھی۔ جب میری باری آئی تھی تو امیگریشن انسپکٹر نے میری جانب دیکھا تھا، میں نے کہا تھا “یہاں بہت گرمی ہے” انسپکٹر نے میری کہی بات نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا تھا،”جناب کیا آپ پہلی بار ریاستہائے متحدہ امریکا آئے ہیں؟” میرے اثبات میں جواب دینے پر اس نے چھ ماہ کے دخول کی مہر لگائی تھی اور پاسپورٹ واپس کرتے ہوئے کہا تھا ”
ریاستہائے متحدہ امریکہ میں خوش آمدید جناب”۔
میں سامان وصول کرنے کے بعد باہر نکل گیا تھا لیکن مجھے اپنا بھانجا کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس زمانے میں موبائل فون تو ہوتے نہیں تھے چنانچہ میں نے انتظار کرنا مناسب سمجھا تھا۔ میرا بھانجا کوئی ایک گھنٹے بعد پہنچا تھا کیوں کہ وہ پہلے ٹریفک جام میں پھنس گیا تھا، پھر اسے پارکنگ فل ہونے کی وجہ سے گاڑی دور لے جا کر کھڑی کرنی پڑی تھا۔ ہم دونوں سامان کے ساتھ کوئی سات منٹ پیدل چل کر گاڑی تک پہنچے تھے۔ میرے بھانجے نے گاڑی سٹارٹ کرنے کے فورا” بعد بتا دیا تھا کہ ہمیں نیویارک شہر سے باہر کوئی سوا سو کلومیٹر دور کے ایک شہر جانا ہے جہاں وہ رہتا تھا۔
گاڑی چلتی جا رہی تھی۔ میں اپنے بھانجے سعد وقاص سے باتیں بھی کر رہا تھا اور گاڑی کی کھڑکی سے باہر بھی دیکھ رہا تھا۔ میرے ذہن میں تو فلک بوس عمارتوں والا نیویارک بسا ہوا تھا جو میں نے فلموں اور تصویروں میں دیکھا تھا۔ جس شہر کو میں دیکھ رہا تھا وہ تو مجھے صاف ستھرے گوجرانوالہ یا اوکاڑہ کی طرح کا شہر لگ رہا تھا۔ میں نے جب یہی بات سعد سے کہی تھی تو اس نے زور کا قہقہہ بلند کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اونچی عمارتوں والا تو نیویارک کا صرف ایک حصہ ہے جو مین ہیٹن کہلاتا ہے، باقی نیویارک میں زیادہ اونچی عمارتیں نہیں ہیں۔
پہاڑی راستے پر، جس کے ارد گرد خوش کن مناظر تھے، سفر کرتے ہوئے ہم ڈیڑھ گھنٹے بعد ایک گھر کے گیٹ میں داخل ہوئے تھے، سڑک گھر کی عمارت تک جاتی تھی جو گیٹ سے پینتالس پچاس میٹر اندر تھی۔ گھنٹی بجانے پر میری بھتیجی نذہت نے دروازہ کھولا تھا جو سعد کی اہلیہ تھی۔ وہ اپنے چچا کے آنے پر بہت خوش تھی۔ میں ان کے قریبی عزیزوں میں سے ان کے گھر آنے والا پہلا مہمان تھا۔ مجھے جو کمرہ دیا گیا تھا، اس کی کھڑکی سے صحن کے بیچ کھڑا بلوط کا ایک قدیم درخت دکھائی دیتا تھا اور صحن کی بغل سے بہتی ہوئی ایک چھوٹی سی آب جو بھی۔
واپنجر فال نام کا یہ علاقہ کچھ زیادہ ہی پرسکون تھا اور سعد کا قدیم گھر تو کچھ زیادہ ہی پرسکون تھا جسے سنسان کہنا زیادہ مناسب لگتا تھا۔ یہاں نہ تو کسی انسان کی اواز آتی تھی اور نہ ہی کسی گاڑی کا شور۔ یا ٹیلیویژن کی آواز تھی یا ویکیوم کلینر کا شور کیونکہ نذہت کو ویکیوم کلین کرنے کا جنون تھا۔ نذہت کا ایک اور جنون بلاوجہ خریداری کرنا تھا۔ اس کے گھر کی الماریاں ٹنڈ فوڈ اور الا بلا سے اٹی پڑی تھیں۔
ایک روز آرام کرنے کے بعد میں نے سعد سے کہا تھا کہ وہ مجھے بھی ساتھ لے جائے تاکہ وہ شہر دیکھ سکے۔ سعد نیویارک شہر کے ایک حصے میں ریڈیو ٹیکسی چلاتا تھا۔ وہ مجھے ساتھ لیتا گیا تھا۔ ابھی شام کے آٹھ بجے تھے۔ اندھیرا چھانے لگا تھا لیکن شہر کے گھروں کی شاید ہی کسی کھڑکی سے گھر میں روشن بلبوں کی روشنی دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے استفسار کیا تھا کہ لوگ کہاں ہیں؟ سعد نے بتایا تھا کہ لوگ سو رہے ہیں۔ کیوں اتنی جلدی سونے کی کیا وجہ ہے؟ میں نے حیران ہو کر پوچھا تھا جس کے جواب میں سعد نے پرسکون انداز میں کہا تھا، اس لیے چونکہ صبح سب کو کام پر جانا ہوتا ہے۔ میں نے مزید کچھ نہیں کہا تھا۔
سعد نے مجھے بلا جھجھک بتا دیا تھا کہ وہ چونکہ رات کو ٹیکسی چلاتا تھا اس لیے مجھے گھما پھرا نہیں سکے گا۔ وہ صرف اتوار کے روز چھٹی کرتا تھا اور اس روز بھی زیادہ سوتا ہی تھا مگر تم پریشان نہ ہو کیونکہ احمد سہیل ہفتہ اتوار کے روز نیویارک سے آیا کرے گا اور مجھے سیر کروا دیا کرے گا، مقامی علاقے میں کسی شاپنگ مال پر جانا ہو تو علی لے جایا کرے گا، گھر میں ایک گاڑی کھڑی ہی ہوتی تھی۔ احمد سہیل، سعد کا چھوٹا بھائی تھا جو نیویارک شہر میں ایک ریستوران میں مینیجر تھا اور علی سعد کا بڑا بیٹا جو فی الحال بیروزگار تھا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply