چار سُو غیر یقینی کا راج ہے، حل کیا ہے؟/محمد سلیم حلبی

کرونا وائرس کے نمودار ہوتے ہی دنیا میں غیر یقینی کی کیفیت میں اضافہ ہوگیا جو نہ صرف بدستور جاری و ساری ہے بلکہ اس میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جہاں کاروبارِ زندگی معطل ہوکر رہ گیا تو وہیں تعلیمی اداروں اور دفاتر کو قفل لگ گئے،وہیں سے ایک نئی اصطلاح مارکیٹ میں آن وارد ہوئی،” ورک فرام ہوم”۔لوگوں نے گھروں سے کام کرنا شروع کردیا،دفاتر میں غیر ضروری عملے کو گھر سے کام کاج سنبھالنے اور لائحہ عمل اپنانے کی تلقین کی گئی۔اس وباء نے جہاں لوگوں کے کاروبار کو برباد کیا وہیں بہت سوں کےلئے کمائی کا ذریعہ بن گیا۔

کسی بھی ملک و معاشرے میں غیر یقینی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس ملک و قوم کو رہبر و رہنما میسر نہ ہو،سیاسی انتشار اوجِ ثریا پہ ہو،عدالتیں انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوں،بدعنوانی کو آئینی عمل قرار دیا جائے(جب بڑے پیمانے پہ بدعنوانی ہو اور روک تھام نہ ہو تو خود بخود آئینی ہے تصور کیا جاتا ہے) معاشرے میں عدم تعاون عروج پہ ہو،سب سے بڑھ کر جبر و ستم کے سائے بڑھتے چلے جائے جائیں اور مظلوم کا انصاف اور آئین سے عتماد اٹھ جائے۔

پاکستان اور ہر پاکستانی اس وقت غیر یقینی کی کیفیت سے دوچار ہے،صدر سے لے کر عوام تک بے بس و بے کس نظر آتا ہے،صدر اپنے اختیارات کے غلط استعمال کا رونا رورہا ہے جبکہ عوام بے کسی و لاچارگی کا،صدر کے پاس سب کچھ ہونے کے باجود کچھ نہیں اور ہر پاکستانی کے پاس کچھ نہ ہونے اور کچھ نہ کرپانے کا دکھ ہے۔ جب معاشرے میں دکھ ہر فرد کا اجتماعی شناخت اور حاصل بن جائے تو معاشرہ غیر یقینی کا شکار ہوجاتا ہے جبکہ فرد افراد کا شکار،شکار فرد کا ہو یا کسی دوسرے چیز کا نتیجے میں آنسؤں ،آہ اور فنا کی گٹھڑی حاصل ہوتا ہے،دکھ اور غیر یقینی کی یہ گٹھڑی زندگی سے فرار کی راہ دکھاتا ہے،جب زندگی سے فرار کی جانب قدم بڑھتے ہیں تو راستے اور قدموں میں انسانیت،ہمدردی اور جانثاری کا جزبہ کچلتا چلاجاتا ہے اور یوں غیر یقینی کے راج کےلئے انسانیت خراج دیتا ہے

انسانیت اور ہمدردی کا مادیت پسند معاشرے میں ملنا مفقود ہے،اس جہاں میں مادی اشیا کی دوڑ میں ہم انسانیت کے مجسمے کو کچل کے بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں،اشتہارات،کمپنیوں اور برینڈز کے پھیلاؤ نے ہم سے سکھ چین چھین کے بدلے میں بے سکونی اور پریشانی کا علَم تھمادیا ہے اور یہیں سے غیر یقینی کی کیفیت کا ارتکاز ہوتا ہے اور ہم لٹو کی طرح اشتہارات،کمپینوں اور برینڈز کے محکوم ہوکے رہ جاتے ہیں اور انہی کے حکم کے مطابق قدم اٹھانے پہ مجبور و بے کس ہیں۔

گزشتہ دو ماہ سے انٹرن شپ پہ کسی نجی چینل کے ہاں کام کررہا ہوں،کام سکھایا اور بتایا کم جارہا ہے جبکہ چائے بنا کے پلانے کے احکامات زیادہ دئیے جارہے ہیں،روپرٹر تنخواہوں کے کم ہونے پہ نوحہ کناں ہیں،جبکہ کام ایک آدمی سے تین کا لیا جارہا ہے پھر صحافی اور کیمرہ مین متبادل کمائی کے چکر میں صحافتی اخلاقیات کو پامال اور عوام کو یرغمال بنالیتا ہے۔یونہی صحافت سے شرافت نکل جاتا ہے اور نتیجے میں آفت وصول ہوتا ہے۔

عوام غیر یقینی کا شکار ہے،خودکشیاں کی جارہی ہیں،لوٹ مار اور کرپشن کا دور دورہ ہے،بجلی کے بلوں اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور بڑھتی مہنگائی سے اعتماد میں کمی اور کنفیوژن اور ناامیدی سر چڑھ کے بولنے لگا ہے،جبکہ نوجوان نسل ملک سے بھاگ جانے میں ہی عافیت نظر آرہا ہے۔

ان دو ماہ میں عوام کے مسائل پہ غور کرنے اور ان سے رائے لینے کے بعد مجھ میں بھی غیر یقینی کی کیفیت سر اٹھانے لگا ہے،ناامیدی اور غیر یقینی کو شکست دینے کےلئے بلند ہمت اور صحت مند ذہنوں کے ساتھ رابطے استوار کرنے سے ہم میں غیر یقینی کے امکانات اور رجحانات میں کمی متوقع ہوسکتی ہے۔میرے تین دوست کامران فیاض، تانیہ جمیل اور تیسرا جسے میں پیار سے سروجنی نائیڈو کے نام سے یاد کرتا ہوں ہیں(اسے شاید علم نہ ہو)۔دو کا نہیں علم وہ مجھے کیا سمجھتے ہیں مگر میں ان سے مل کے میں غیر یقینی،کنفیوژن،ناامیدی کے سائے سے فرار حاصل کرلیتا ہوں،گزشتہ دو ماہ سے دو سے میں خود ان سے مل نہ پانے کے باعث ذہنی خلفشار کا شکار ہوں،اس خلفشاری کی وجہ معاشرے میں ایسے افراد کی قلت اور مفقودیت ہے جو ہمیں اس غیر یقینی،غیر واضح ماحول میں بھی امید،امنگ اور ہمت و استقلال کا درس دیتے ہیں جس پہ چل کے ہم زندگی کے ان جھمیلوں اور الجھنوں میں پھنس کے بھی خوش اور پُر مسرت رہ سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

غیر یقینی کا خاتمہ اس وقت ہوتا ہے جب حکومت اور انتظامیہ عوام دوست ہو،عدلیہ انصاف کی جستجو میں مگن ہو،ادارے شفافیت پہ یقین رکھتے ہوں،فرد بغیر کسی پوچھ گچھ اور خوف کے اپنے کام کو تندہی سے کریں اور ہر فرد اپنی ذمہ داری کو بوجھ کی بجائے زمہ داری گردانے اور شفافیت کو نسبُ العین سمجھے۔معاشرے میں فرد کے احترام کا معیار حیثیت اور دولت کی بجائے کردار اور عمل ہو اور آئین پہ یقین اور چلنے کی امنگ ہو تبھی معاشرہ غیر یقینی اور کنفیوژن سے نکل کر امید اور ترقی کی راہ پہ گامزن ہوجاتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply