آنکھیں /علی عبداللہ

وہ طلوع ہوتے سورج کو دیکھتے ہوئے بولا، کتنا دلکش منظر ہے یہ۔۔۔جیسے کوئی خوبصورت آنکھ، جس میں موجود سرخ ڈورے دیکھنے والے پر گرہ لگا دیں۔
مجھے ان باتوں کی سمجھ نہیں آتی، میں نے سر کھجاتے ہوئے کہا!

Advertisements
julia rana solicitors

آنکھیں بڑی عجیب شے ہیں۔ کائنات کے سارے رنگ، دلکش مناظر، خوبصورت چہرے، رات کا حسن، سورج کی چاشنی۔۔۔۔یہ سب آنکھوں کے محتاج ہی تو ہیں۔ دیکھنے والا نہ ہو تو لفظ “خوبصورت” دنیا سے مٹ جائے۔ حسن اپنی وقعت کھو بیٹھے اور قدرت کے نظاروں کے کچھ معنی ہی نہ رہیں۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔
میں نے اسے کہا کہ شاعروں نے اور لکھاریوں نے آنکھوں کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے، حالنکہ کہ کائنات میں اور بھی بہت کچھ ہے جس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جا سکتے ہیں۔
وہ مسکرا کر کہنے لگا، آنکھیں تو ستاروں کی مانند ہیں جن کی روشنی اور چمک میں انسان محو حیرت ہو کر سوچ کے نئے دریچوں تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ یہ تو جیسے کوئی کھڑکی ہو، جس میں جھانک کر انسان جذبات، احساسات اور خیالات تک پہنچتا ہے۔ آنکھیں تو محبت کی قاصد ہوا کرتی ہیں۔ پھر یہی آنکھیں غم خوار بھی ہوتی ہیں۔ دل کی چبھن اور تکلیف کو آنسوؤں کی صورت زائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
میں نے طنزاً کہا، تم نے یقیناً میڈوسا کے بارے سنا ہو گا جس کی آنکھوں میں جھانکنے سے انسان پتھر کا بن جایا کرتا تھا۔ پھر بد نظری کا بھی سنا ہو گا کہ یہی آنکھ نظر بد سے کتنا نقصان کرتی ہے، اور تو اور یہی تو وہ آنکھیں تھیں جنہوں نے زلیخا کو “ہیئت لک” کہنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اور اسی آنکھ سے ہی بچنے کے لیے لوگ کبھی نیلے موتیوں والی مالا پہنتے ہیں، کبھی کوئی تعویز لٹکاتے ہیں اور کبھی کچھ پڑھ کر خود پر پھونکتے رہتے ہیں۔ پھر میں کیسے تمہاری طرح ان کی تعریف کرتا پھروں؟
وہ ہمیشہ کی طرح مسکرایا اور سرگوشی کے انداز میں کہنے لگا، میڈوسا کے ساتھ ایسا کیوں ہوا، جانتے ہے؟ کیونکہ اس نے مقدس جگہ پر اپنے محبوب سے ملاقات کی تھی اور مادی خواہشات کے لیے مقدس جگہوں کا انتخاب ہمیشہ ایک سزا کے چناؤ کا باعث ہوتا ہے۔ آنکھوں کی خوبصورتی بعض اوقات تباہی کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ تم جان کیٹس کے اس جنگجو کو تو جانتے ہو گے جو اسی طرح ایک حسینہ کو دیکھ کر اس پر فدا ہوا تھا۔ شاید وہ بھی آنکھوں پر مر مٹا ہو گا، مگر ہر آنکھ مر مٹنے کے لیے نہیں بلکہ روح کو پہچاننے کے لیے ہوا کرتی ہے اور۔۔۔۔۔۔۔
تم کبھی کسی کی آنکھوں سے ہارے ہو؟ میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے اس سے پوچھا۔
وہ سورج کو اپنے پیچھے چھوڑ کر چند قدم چلا اور پھر میری طرف مڑ کر کہنے لگا، ” آنکھیں بیک وقت طاقت اور حساسیت کی علامت ہیں۔ آدم کی آنکھیں آنے والوں کے لیے دانش اور حقیقت پر غور و فکر کا استعارہ بنیں، اس جنگجو کی آنکھیں آنے والوں کے لیے انتباہ کا روپ دھار گئیں کہ بظاہر خوبصورت دکھائی دینے والی اشیا درحقیقت آپ کو اکیلے پن اور تکلیف میں مبتلا کر سکتی ہیں۔ اور الکیمسٹ کے سنتیاگو کے لیے اس صحرائی لڑکی کی آنکھیں محبت کی زبان میں بدل گئیں۔ وہ دیکھنے والے کی منزل اور اس کا خزانہ ٹھہریں۔ لہذا یہ آنکھیں حسن اور خوبصورتی دکھانے کا باعث تو ہیں لیکن ساتھ ساتھ یہ ہماری ذات کی آزمائش کا باعث بھی ہیں۔
میرا سوال تم سے کچھ اور تھا جسے تم نظرانداز کر رہے ہو، میں اسے یاد دلانے کے انداز میں بتایا۔
وہ کچھ دیر خاموش رہا اور پھر میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا، “میں امرالقیس کے اس بہادر جیسا ہوں جس نے کہا تھا،
رجل وما استسلمتُ قبلُ لفارس
وما لي أمام عيونها مُستسلمُ
أعود مُنتصراً بكلّ معاركي
وأمام عينيها البريئة أُهزمُ؟
میں ایسا بہادر تھا کہ کوئی شہسوار مجھے زیر نہ کر سکا، مگر کیا ہوا کہ اس کی آنکھوں کے سامنے مجھے ہار ماننی پڑی۔
اپنے ہر معرکے سے میں سرخرو لوٹا ، پر اس کی معصوم آنکھوں کے سامنے شکست سے چور پڑا ہوں۔”
دھوپ تیز ہو چکی تھی۔ میں نے مسکرا کر اس ہارے ہوئے شخص کو دیکھا اور پھر ہم واپس چل پڑے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply