• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • خاکہ
  • /
  • ڈاکٹر خالد سہیل -ممتاز دانشور/ انسان دوست / لکھاری/ ماہر نفسیات- تحریر : صادقہ نصیر

ڈاکٹر خالد سہیل -ممتاز دانشور/ انسان دوست / لکھاری/ ماہر نفسیات- تحریر : صادقہ نصیر

ڈاکٹر خالد سہیل کے سنجیدہ خیالات اور سنجیدہ انسانی فلاح کے تمام کار ہائے نمایاں کے باوجود قلم اس بات پر مائل نہیں ہو پا رہا کہ ان کے بارے میں لکھنے کے لئےسنجیدگی کی روشنائی میں قلم کو بھگویا جائے ۔ سنجیدہ لکھنا ضروری بھی نہیں اور کوئی خوف بھی نہیں کہ توہین یا بلاسفیمی کا فتوی لگ جائے ۔ بلکہ شاید بہت سے لوگ خوش ہی ہوں گے ۔ لیکن لوگوں کو خوش کرنے کا بھی کوئی خبط نہ مجھے ہے اور نہ ہی اس خوشی کا مذکورہ اور زیرِ تحریر شخصیت کی ساکھ کو کوئی نقصان یا فائدہ ہوگا کیونکہ زیر تحریر شخصیت ڈاکٹر خالد سہیل اتنے پر عزم اور دھن کے پکے ہیں کہ وہ یا تو ڈیلیٹ کرنے کا ایکشن لے سکتے ہیں یا ریپیٹ ۔ تو پھر لکھاری ہونے کے ناطے مجھے بھی کیا خوف کہ میں اپنے قلم کو پابندِ سلاسل کروں ۔ تو کیوں نہ کھل کرشخصیت نگاری کی جائے ۔
ویسے مزاح لکھنے میں خواتین کم ہی فراخ دل ہیں ۔ شاید عورتیں رونے کو آسان سمجھتی ہیں ۔ لیکن مجھے مزاح لکھنا اتنا ہی پسند ہے جتنا رونا ۔ ڈاکٹر سہیل کے بارے میں رو کر بات کرنا ان کی توہین ِدہریت ہے ۔ کیونکہ دہریہ لوگ زندگی کو کھل کر اور ہنس کر جیتے ہیں اور عاقبت سنوارنے کے لئے خوف خدا میں آنکھیں نم کرنے کے بجاۓ ہنسنے پر توجہ دیتے ہیں ہاں ہنستے ہنستے آنسو نکل آئیں تو اس کو بھی روحانی تجربہ سمجھتے ہیں لہذا اسی سہولت کے پیش نظر قارئین کی خدمت میں ان کا شخصی خاکہ یوں ہے ۔
جہاں تک مجھے گمان ہے کہ سات کا ہندسہ اس ممتازشخصیت کی زندگی میں کافی اہم ہے اور اسی گمان میں یہ شک ہے کہ یہ ان کا ساتواں جنم ہے جس میں وہ اپنے نظریات ، خیالات اور انسان دوستی کے مشن سے ساری دنیا کے دماغوں کو درست کرکے محبت اور امن و سکون قائم کرکے امن کا نوبل پرائز حاصل کرکے ہی دم لیں گے یا خود کو بدل کر لوگوں جیسے بن کر چین کی بنسی بجائیں گے ۔ وہ جانتے ہیں کہ مولوی سبق نہ دے گا تو گھر بھی نہ جانے دے گا ۔ ویسے مولوی کو وہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ وہ کبھی گھر نہیں جانے دیتا ۔ تو ہماری شبھ کامنائیں ہیں کہ لگے رہیں اپنی دھن میں ڈیلیٹ اور ریپیٹ کی آپشننز کے ساتھ مگر بڑے اوکھے ہیں اس راہ میں ۔ ممتاز اور مقبول تو اتنے ہیں کہ دنیا کا ایسا کون سا کونہ ہے جہاں پر آپ موصوف کو کوئی نہیں جانتا میاں چنوں اور راجن پور اور
ہر جھیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاک کاشغر ۔ اور قطب شمالی کی برفانی ریگزاروں تک ۔ اور اب تو زرد ملبوس بھی زیب تن کرتے ہیں تو لگتا ہے کھٹمنڈو کے دلائی لامہ کے ماننے والے بھی مشرف بہ سہیل ہو جائیں گے ۔ البتہ افریقہ ان کی زد میں نہیں آیا ۔ شاید وہ بھی خدا کی طرح جمیل ہیں اور جمال پسند ہیں ۔ یقینا یہ سات جنموں کا ہی یوگ ہے ورنہ تو ایک جنم میں اتنی خلقت اکٹھی نہیں ہو سکتی اور وہ بھی سب کی سب معتقد اور راسخ عقیدہ گرین زون ۔ لیکن ڈر ہے کہ ڈاکٹر سہیل یہ سن کر اور پڑھ کر خوش گمانی میں کوئی دعوی نہ کر بیٹھیں ۔ ویسے امید تو ہے کہ ایسی نادانی وہ نہیں کریں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پھر وہ امن جس کے وہ خواہاں ہیں وہ کبھی قائم نہ ہو سکے گا ۔ شاید کوئی جنگ ہی چھڑ جائے ۔ انہیں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہئے ۔ اس کرہ ارض کے بے چارے انسان ابھی تو وائرس کے خوف سے نہیں نکلے ۔ اور ایک لاکھ چوبیس ہزار دنیا کو نہ سدھار سکے تو آپ یہ کشٹ نہ اٹھائیں ۔ ہر وقت مزے میں رہیں ۔ دھیرج !
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ میں اس خلقت کا حصہ کیسے بنی جو ان کے معتقدین ہیں ۔


قصہ کچھ یوں ہے کہ کوئی دس بارہ سال پہلے یا معلوم نہیں کب بس یہ کہ جب میں نے فیس بک لانچ کی ۔ تب تو ڈر بھی بہت لگتا تھا کہ کسی غلط بندے کو ایڈ کرنے کی غلطی سر زد نہ ہو جائے ۔ اور ویسے بھی کچھ روایتی پن بھی دامن گیر تھا کہ مردوں کو دوست بنانا تو اتنی اچھی بات نہیں ۔ اور یہ کہ کوئی ایسا کارنامہ تو مجھ سے سرزد نہیں ہوا کہ کوئی مجھے دوست بنائے کیوں ؟
اور اپنے پہلے جنم میں ہی مردوں کو دوست بنا کر اگلے جنموں میں بدنام ہونے کا کوئی ارادہ نہیں تھا یا ابھی روایت کے طلسم میں ہونے کی وجہ سے اتنا لبرلزم؟ ابھی دل آمادہ نہ تھا ۔ اور روزگار ہستی کے بکھیڑوں نے بھی وقت کی رعایت نہ دی تھی ۔
کوئی دس سال پہلے فیس بک سے ڈرتے ڈرتے اٹھکیلیاں کرتے ہوئے نہ جانے کسی پوسٹ پر اس ممتاز شخصیت کی تصویر دیکھی ۔ اور تعارف تھا “ڈاکٹر خالد سہیل نامور سائیکاٹرسٹ” جو کینیڈا میں قبل مسیح سے آباد ہیں اور لکھاری ہیں اور  پہلا خیال جو یقیناََ روایتی مصائب کی وجہ سے تھا وہ یہ تھا یہ تو کوئی عجیب سی شخصیت ہیں ۔ ٹھیک ہے میرے ہم پیشہ ہیں ۔ ہم پیشہ لوگ اچھا حلقۂ دوستاں بناتے ہیں مگر میری روایتی عقل نے ساتھ نہیں دیا کیونکہ تاثر ہی اچھا نہیں تھا ۔ طرز لباس، بالوں کی پونی ٹیل ، دراز گیسو اور عورتوں کے گھیرے میں بے انتہا خوشگوار تصاویر۔ تو اور نہ جانے کیا ہوتا ہوگا ۔
کہتے ہیں کہ پہلا تاثر آخری ہوتا ہے ۔ اسی پہلے تاثر کے ساتھ فیس بک کو سختی سے تنبیہ کی کہ اس شخصیت کو حلقۂ فیس بک میں شامل نہیں کرنا ۔ اس پہلے تاثر میں ڈاکٹر سہیل کہیں گم ہو گئے ۔
آٹوا شفٹ ہونے کے بعد یہاں کی بے رونق طرز زندگی نے بہت اداس کردیا ۔ تو سوچا کہ کہ اپنے افسانے جمع کر کے انہیں چھپوایا جائے ۔ کتاب چھپوانے کی خوشی میں فیس بک کی کی سرگرمیاں بھی تیز کر دیں ۔ کچھ مزید لوگ شامل ہوئے ۔ کتاب شائع ہوئی تو اعلانِ اشاعت کی دیر تھی کہ کسی کی وساطت سے ڈاکٹر سہیل سے رابطہ ہوا ۔ وہ پہلا تاثر پس پشت ڈال کر ڈاکٹر خالد سہیل حلقۂ فیس بک میں شامل کر لئے گئے ۔
میری کتاب کے کینیڈا پہنچنے کی بے تابی مجھ سے زیادہ ڈاکٹر سہیل کو تھی ۔ اس بےچینی پر قابو پانے کے لئے جھٹ سے مجھے اپنی کتاب ” دی سیکر” بھیجی جو ایک یونیک کتاب تھی جس پر میں نے تبصرہ لکھنے کی رسم نبھائی ۔ میں نے پہلے ہی انہیں اپنے ارادے کا انتباہ کر دیا تھا کہ اگر آپ کو یونیک انداز تحریر سے اپنی سوانح حیات لکھنے کا حق ہے تو میں بھی اس کتاب پر اپنے یونیک طرز تحریر سے طبع آزمائی کرنے کا حق رکھتی ہوں ۔ خیر تبصرہ لکھا اور پسند کیا گیا ۔ یہ میرا کسی کتاب پر پہلا تبصرہ تھا اس کتاب نے میرے پہلے تاثر کو جھنجھوڑا اور سوچ کی نئی راہ سجھائی ۔ اور اس دوران میری افسانوں کی کتاب ” پہلے نام کی موت” پبلشر نے بھجوا دی ۔ کتاب گھر آگئی اور ابھی ڈلیوری باکس سے کتاب نکلی بھی نہیں تھی کہ ڈاکٹر سہیل بھی ٹورنٹو سے میرے گھر تشریف لے آئے ۔ میرے لئیے یہ حیران کن صدمہ نما مسرت تھی ۔ لیکن شاید انہیں معلوم تھا کہ وہ تنہا یعنی ” سنگل ” ہیں تو انہوں نے حفظ ما تقدم کے طور پر اپنی ایک خاتون ادبی دوست کو ساتھ لے لیا ۔ ان خاتون کی ہمراہی بطور لائسنس تھی ۔ شاید وہ میری خاندانی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے اور تحریم عورت کا ثبوت دینے کے لئے ، جس سے کم از کم مجھے سکھ کا سانس آیا کہ میری روایتی اقدار کو دھچکا لگنے سے بچت ہو گئی ۔ ایسا نہیں ہے کہ میں بہت روایت پسند ہوں یا روایات میں جکڑی جبر میں ہوں ۔ میں ایک مکمل آزاد ، ملازمت پیشہ لبرل ، خود مختار عورت ہوں اور تمام زندگی مردوں کے ساتھ کام کیا ہے ۔ مگر یہ تو سارا ڈاکٹر خالد سہیل ہی کا قصور تھا جنہوں نے اپنے طرز زندگی کو ایسا شریفانہ بنا رکھا ہے دس ہاتھ کا فاصلہ ہی نیکی ہے ۔ خیر آئے اور چلے گئے ۔ آتے ہوئے میری کتاب لے کر گئے اور جاتے ہوئے سلامی کے طور پر اپنی تین کتابیں دے گئے اور خدا حافظ کہتے ہوئے ڈیلیٹ اور ریپیٹ کی دھمکی کے کلمات بھی ادا کئے شکر ہے ان دو الفاظ کے ہم قافیہ چیٹ[Cheat]کا کلمہ ادا نہیں کیا جس سے پہلے تاثر کو ٹوٹنے میں مدد ملی کہ کھرے الفاظ دھوکہ سے بہتر ہیں اور سچائی آفاقی اچھائی ہے ۔

ان کی کتاب” دی سیکر” بھی یہی بتاتی ہے کہ وہ سچائی کے متلاشی ہیں اور خبر ہو کہ ہم بھی کونسا جھوٹ کے شوقین ہیں ۔ باقی دلوں کے بھید تو خدا ہی جانتا ہے وہ خود سنبھال لے گا ۔ جبکہ ڈاکٹر خالد سہیل کا تو خدا ہی کوئی نہیں ۔ یہاں پریشانی ہوئی کہ کیا کریں تو سوچا کہ دیکھا جائے گا ۔ یہ باقی سب دنیا بھی تو ٹرائل اینڈ ایرر پر چل رہی ہے ۔ اور کوئی بھی کام نہ تو قدرت کے اختیار میں ہے نہ انسان کے تو جیسے فطرت کا نظام خود بخود چل رہا ہے تو ڈاکٹر سہیل بھی تو اس عارضی دنیا میں ہمارے جیسے مسافر ہیں جہاں ڈیلیٹ ہونا ہوگا تو ہم کیا کر پائیں گے ۔ تو شانتی پکڑی اور خوف سارے ٹھکانے لگا دئیے۔
بہت دنوں تک یہ خوش گمانی نے گھیرے رکھا کہ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ اتنے بڑے سکالر ، سائکیاٹرسٹ ، ملحد ،عالم دہریت ، انسان دوست دانشور شخصیت نے میری کتاب کی مبارکباد بہ نفس نفیس اتنی دور سے ڈرائیو کرکے میرے گھر آ کر دی اور میری حوصلہ افزائی کی بلکہ اپنے ملحدانہ وچاروں سے میرے گھرانے کو خدا سے دور کرنے کی غیر محسوس رضاکارانہ سعی کی اور مذہبی شیطان کو کنکریاں مارنے کی سعادت حاصل کی ۔ اور دہریت کی برکات سے ثواب ایصال کیا اور وہ بھی ماہ صیام میں ۔ شاید یہ اس بابرکت ماہ کی برکت سے ہوا ۔ خیر میرے لئے تو کوئی نیا ثواب نہ تھا ۔ یہ جراثیم میرے خاندان کے بہت سے لوگوں میں بھی پائے جاتے تھے تو گراں نہیں گزرا ۔
پھر وقت کے ساتھ معلوم ہوا کہ میری کتاب میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ ڈاکٹر سہیل مبارکباد دینے آتے بلکہ اس شہر میں ہم جیسے لاکھوں لوگ ہیں جو کتابیں لکھتے ہیں اور ڈاکٹر سہیل وہاں جھٹ پہنچ جاتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے شریکے کے لوگ بچے کی پیدائش کا سن کر لڈو پہنچنے سے پہلے مبارکباد دینے آتے ہیں ۔ پھر یہ تصدیق ہو گئی کہ موصوف کتاب کی اشاعت کو پیدائش کہتے ہیں اور کتاب کی پبلشر کے ہاں سے ڈلیوری سے پہلے بے بی شاور اور بعد میں گود بھرائ کی رسم میں جانا ، مصنف یا مصنفہ کی خیریت دریافت کرنا اور مصنف اور کتاب کے تمام نفسیاتی اور طبی معائنے کرنا اپنا فرض اولین بلکہ اعلیٰ وصف انسانی سمجھتے ہیں ۔ یہ ابھی تک نہیں معلوم ہو سکا کہ ایسا وہ مروتا ََکرتے ہیں یا کسی گہری سازش یعنی مصنف اور اس کی تصنیف کے پیچھے کار فرما عوامل جس نے کسی کو لکھاری بننے کے قابل بنایا یا مجبور کیا اور یہ دن دکھایا ۔ اس عظیم تحقیقی سازش کی خاطر وہ طویل راستوں پر خود ڈرائیو کرکے پیدائش والے گھر پہنچتے ہیں ۔ اپنی نوع میں اس خیر سگالی کی عادت اور نفسیات کے علم کا استعمال کرتے ہوئے وہ سراغ رسانی کا کام بھی لیتے ہیں اور کرمنل سائیکولوجی کے مجرمانہ ماحول میں بھی طبع آزمائی کرنے میں پیچھے نہیں یوں لگتا ہے کہ شرلاک ہوم کی روح بھی اس خضر میں پھونکی گئی ہو ۔ اس سلسلے میں کافی مشکل مہمات پر بھی نکلنے کے شواہد ان ہی کی زبانی سنے ۔ جن میں سے ایک واقعہ ایک پاکستانی سائیکو پیتھ سیریل کلر کا بھی ہے جس کو ڈھونڈ کر اس کی مجرمانہ شخصیت کی پرتیں کھول کر قانون کی مدد کی ۔
ایک سال کی شناسائی کے دوران معلوم ہوا کہ ڈاکٹر سہیل 70 سال کے ہو گئے ہیں اور ان کے 70 بچے ہیں اور ابھی بھی افزائش نسل جاری ہے ۔ پہلے تو حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ ایسا اکثر خبروں میں میں آ ہی جاتا ہے کہ فلاں قصبے میں بڑی عمر میں کسی جوڑے کے ہاں چوتھی شادی سے بیسویں بچے کی پیدائش ۔ دونوں شریک حیات اس عمر میں اللہ کی دین سے بہت خوش ہیں ۔ مگر ورطۂ حیرت والا ماجرہ تو یہ کہ انہوں نے اپنی زبان سے بتایا کہ میں ” سنگل” ہوں ۔ کانوں کو یقین نہیں آیا کہ یہ معجزہ ہے یا کرامت؟ پھر خیال آیا کہ ہم سب کا خدا بھی تو “سنگل” ہے اور اکیلے ہی بھانت بھانت کی پراڈکٹس یعنی مخلوقات پیدا کرتا ہی ہے ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم ڈاکٹر سہیل کے سنگل ہونے کے باوجود ان کے ہاں ہونے والے بچوں پر انگلی اٹھائیں ۔ ڈاؤن دا روڈ پتہ چلا ڈاکٹر سہیل کے بچے خدا کے بچوں سے مختلف سپیشیز سے تعلق رکھتے ہیں اور پیدا ہونے کے بعد خاموشی سے الماریوں میں دھر دیئے جاتے ہیں ۔ ہاں خدا کے بچے کسی کو اچھا کہہ دیتے ہیں اور تعصب میں آکر کسی کو برا ۔ ڈاکٹر سہیل کی اس مخلوق کو کتابیں کہتے ہیں ۔ یہ بات تو سمجھ میں آ گئی کتاب نامی مخلوق بھی پیدائش کہلوانے کا حق رکھتی ہے ۔ چونکہ ڈاکٹر سہیل کو خوف خلقت خدا کی وجہ سے خدا نہیں کہہ سکتے ۔ یہ توہین خدا ہے ۔ توبہ کرنے کے باوجود یہ سوال دل میں کلبلاتا ہے کہ اگر ڈاکٹر سہیل خدا نہیں تو جن ہیں یا مان لیں کہ انسان ہیں تو بلا شرکت غیرے یا کسی سویٹ ہارٹ کے بغیر اتنے کتابی بچے کیسے پیدا ہو گئے ۔ بہت تحقیق کی تو مفروضہ قائم کرلیا کہ ہو نہ ہو موصوف دراصل اپنی نوع میں سیپیو سیکشوئل ۔
{Sapio. Sexual}
ہوں گے ۔ اور اس کے شواہد بھی ملتے ہیں کہ کم از کم نارتھ امریکہ کے ہر رائٹر، سکالر ، سوڈو سکالر کی سنگتوں اور کتابوں کی رونمائی کی تقریبات میں بلا تخصیص جینڈر ، کاسٹ ،کلر ، کریڈ ، عمر اور مذہب ہر وقت رہتے اور پائے جاتے ہیں ۔ اور ریسرچ بتاتی ہے کہ ایسے لوگ کوئی بعید نہیں کہ وافر تعداد میں بچے پیدا کر لیں جو گناہ کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ عزت و ناموس پر بھی حرف نہیں آتا ۔ یہ سب جائز اولادیں ہیں ۔ ڈاکٹر خالد سہیل کی ہر اولاد نے ان کا نام روشن کیا ہے کہ جو انہیں پسند نہیں بھی کرتا ان کے بچوں کو گود لینے یعنی پڑھنے کا شائق ضرور رہتا ہے ۔ 70 بچوں یعنی کنبہ بڑا ہونے کی ہی وجہ ہے ڈکٹر سہیل لباس پر اخراجات کم کرتے ہیں کیونکہ 70 کتابوں کی کفالت پر کثیر بجٹ لگ جاتا ہو گا تبھی تو ایک گرے سویٹر ، ایک تھری پیس سوٹ ،ایک کیسری سادھوانہ لباس یا ایک براق سفید اس سے زیادہ وہ شاید افورڈ ہی نہیں کر سکتے ۔ یعنی کسی غریب کی بیٹی کی طرح تین جوڑوں میں ہر بارات کے ساتھ ہر جگہ رخصت ہو جاتے ہیں ۔ تبھی کہتے ہیں کہ چادر دیکھ کر پاوں پھیلانے چاہئیں ۔ اسی غربت کو چھپانے کے لئیے اپنے کو درویش کہلواتے ہیں ۔ خیر ہم کون ہوتے ہیں کہ ان کے بچوں کو نظر لگائیں ۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔
ان کے بچوں کے نام کچھ اس طرح ہیں :
دی سیکر جو ان کی مختصر و منفرد سوانح حیات ہے اس کو تو میں نے خود پڑھا ہے ۔ ان کے بے شمار ادبی کارنامے ، ٹی وی پروگرام ، ٹک ٹاک شو، کالم ، ادبی خطوط ، اور 70 کتابیں کس کس کا نام لیں ۔ میرا تو قلم سست روی کا شکار ہو رہا ہے ۔ کیوں نہ اس ویب سائٹ کا نام لکھ کر کام سہل کردوں ۔ قارئین خود ہی زحمت کر لیں ۔
ویب سائٹ :
www.drsohail.org
خالد سہیل کی انسان دوستیاں اور دشمنیاں : دنیا کے ہر کونے میں موجود ان کی دوستیاں ہیں ۔ شہرت یہ ہے کہ جھرمٹ پری وشاں ، مہ وشاں ، میں رہتے ہیں لیکن ہر عمر کی بیوگان ، مطلقہ ، سنگل ، ڈبل ہر قسم کی خواتین بھی بلا تخصیص عمر اس انسانیت پسند کی دانشورانہ جادو گری کے سحر میں ہیں ۔ لیکن ایسا بھی اندھیر نہیں ہے کہ مردوں نے ان کی اس سحر انگیزی سے حسد کرتے ہوئے انہیں ریجیکٹ کردیا ہو ۔ ہر مکتبہ فکر کے چھوٹے بڑے مرد ان کے طلسماتی قلعے کی طرف جوق در جوق کھینچے چلے آتے ہیں ۔ اس کی وجہ میرے خیال میں ان کے دعوٰی انسان دوستی سے زیادہ ان کا ماہر نفسیات ہونا ہے ورنہ انسان دوست لکھاری تو اور بھی بہت ہیں ۔ اس کے پیچھے معتقدین کی ایک بہت معصوم نفسیات ہے ۔ دراصل دنیا میں ماہر نفسیات سے لوگ کراما ََکاتبین سے زیادہ ڈرتے ہیں ۔ ہر شخص جو ان کا دوست بن جاتا ہے وہ دراصل اس گمان میں آجاتا ہے کہ ڈاکٹر سہیل کے ساتھ دوستی سے مجھے بھی ماہر نفسیات ہونے کا شرف حاصل ہو جاۓ ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہر وہ جو ڈاکٹر سہیل کی دوستی کے قلعے میں ہے وہ لکھاری نہیں بھی ہے تو بن ہی جاتا ہے اور ہر اس دھکا سٹارٹ لکھاری کی ہر تحریر میں نفسیات کی سند نہ رکھنے والے بھی نفسیاتی فیلسوفیاں مارتے نظر آتے ہیں ۔ یا کم از کم تحریروں میں ایک مرتبہ ہی لفظ “نفسیات” کا استعمال دیکھنے کو ملے گا ۔
گرچہ ڈیلیٹ کی آپشن ہر وقت جیب میں ہوتی ہے لیکن دوستی اس طرح نبھاتے ہیں کہ مدد کو بلا نخرے کے دوڑتے ہیں ۔ خاص طور پر مجھ جیسے دھکا سٹارٹ ان ہی کے مخلص جذبوں اور تحریک سے ہر قسم کے مضامین لکھنے کے قابل ہوئے ۔ اسی لئے کوئی کہے یا نہ کہے وہ اپنی کتاب “دی سیکر” میں اپنے آپ کو خضر کے لقب سے نوازتے ہیں ۔ پانچویں جماعت کی اردو کی کتاب کی ایک نظم
“خضر کا کام کروں رہنما بن جاؤں” یاد آتی ہے ۔
اس میں شک نہیں بہت مختصر گفتگو میں غیر محسوس طور پر رہنمائی کر ہی جاتے ہیں ۔ اپنے دوستوں کو ناممکن ہے کہ لکھاری نہ بنا ڈالیں ۔ دراصل وہ دوست بناتے ہی اس لئے ہیں کہ ہر شخص کے ہاتھ میں قلم پکڑا دیا جائے ۔ اور پھر کراما ََکاتبین کی طرح اس کے کندھوں پر سوار ہو کر اس کی تحریروں کی رپورٹنگ کرتے ہیں ۔ فیڈ بیک اور اگلے ہدف کے لئے تاکید در تاکید حتی کہ ہر دوست لکھاری بن کر سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کس مصیبت میں پھنس گئے ۔ اورجب ٹھان لیں کہ اس کو رائٹر بنانا ہے تو کیا کیا جتن نہیں کرتے ۔ ایک ایسا ہی جتن ان کا بار بار شائع ہونے والا آرٹیکل “کیا آپ دھکا سٹارٹ رائٹر ہیں” ایک ایسا تیر بہ ہدف نسخہ ثابت ہوا کہ مجھ سے بھی کم از کم بارہ کی تعداد میں آرٹیکل سرزد ہوئے اور میری شہرت کا باعث بنے ۔ اب آگے آگے دیکھئے ہوتاہے کیا ۔ لیکن سچ یہی ہے کہ ڈاکٹر خالد سہیل لکھاری کو لکھاری بننے کے لئے سہولت فراہم کرتے ہیں شاید یہ ان کے نام کا خاصہ ہے ۔ سہولت بانٹنے والا ۔ سارے معتقدین میں سے جس میں ذرا سا بھی فلسفی پن نظر آئے اسے ادب عالیہ کا جھانسہ دے کر پہلے ادبی خطوط لکھواتے ہیں پھر کالم اور پھر اس کی عزت نفس کو بلند کرکے ادب عالیہ نہ سہی ادب حالیہ تو ضرور تخلیق کروا ہی لیتے ہیں مگر نگاہ پر امید ہی رکھتے ہیں کہ یہ سب دھکا سٹارٹ لوگ ادیب عالی بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اس غیر متعصبانہ روش سے کیوں نہ ان کے معتقدین کی تعداد میں اضافہ ہو ۔ ورنہ تو کوئی کسی کو ایک لفظ آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھ سکتا ۔ لیکن ڈاکٹر سہیل بلا وجہ تنقید کی بجائے مشورہ دیتے ہیں جو گراں نہیں گزرتا بلکہ فائدہ مند ہی ہوتا ہے ۔ اس سلسلے میں دل بھی نہیں توڑتے ۔ بلکہ مایوس لکھاریوں کو نہ لکھنے کی نحوست سے نکال کر لکھنے کی برکات عطا کر ہی دیتے ہیں ۔ اور اسی برکت کے احسان کا بدلہ چکانے کے لئے ہر لکھاری ان کے بارے میں بھی ضرور لکھ بیٹھتا ہے ۔ اپنے بارے میں لکھا مواد ان کو بہت مرغوب ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ حہاں وہ دوسروں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں ، اتنے ہی شوق سے اپنے بارے میں بھی دوسروں کے دل کا حال جاننا چاہتے ہیں ۔ عام طور پر بڑی مشکل سے چمن میں دیدہ ور پیدا ہوتا ہے لیکن موصوف اپنے دیدہ ور خود پیدا کرنے کی کمال ہوشیاری رکھتے ہیں ۔ مجال ہے کہ کوئی ان کے بارے میں لکھے بغیر عدم کو سدھارے ۔
ذاتی زندگی کی رنگینیوں اور لا پرواہیوں کے برعکس وہ ادب کے بارے میں سنجیدہ رویہ رکھتے ہیں کہ ادب کو براۓ عیش و عشرت اور تفریح کی بجائے انسانیت کی فلاح اور مقصدیت کا حامل ہونا چاہئے ۔ اس لئے ان کا ہر کتابی بچہ زندگی کے سنجیدہ مسائل کی نشان دہی کرکے عام انسانوں کو بھی عقل اور شعور کے راستوں پر ہاتھ پکڑ کر لے چلتا ہے ۔ “دی سیکر” ان کی مختصر سوانح حیات ہی کو لیجئے یہ ایسا ابتدائی قاعدہ ہے جو پورا وجود بدل سکتی ہے ۔ دیوانے سیانے اور سیانے مزید سیانے بن سکتے ہیں ۔
شرط قاری کا غیر متعصب ہونا ہے ۔ بس یہی بات ہے کہ ان کے تمام متعصب دوست دشمن بننے میں دیر نہیں لگاتے ۔ خیر ہر ایک کی مرضی ہے کہ دین پر جبر نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب ذرا دشمنیوں کی طرف بھی آتے ہیں ۔ جتنے دوست ہیں اتنے ہی دشمن بھی ۔ کہا جاتا ہے کہ جس کے دشمنوں کی صفوں کی جتنی زیادہ تعداد ہوتی ہے وہ اتنے ہی گن رکھتا ہے ۔ بہت سی دشمنیاں تو ان کے بے خدا ہونے کی وجہ سے ہیں ۔ حلقہ احباب بھی بے خُداؤں کا ہے ۔ یہ ابھی واضح نہیں ہو سکا کے ان بے خداؤں میں کوئی نا خدا تو نہیں ۔ لیکن سیکولر روئیےکی وجہ سے ہر متنازعہ عقیدے دھرم اور شرم کے لوگوں کو اپنی بیعت پر مائل کر ہی لیتے ہیں اور پھر بھلا ڈیلیٹ کے بعد کوئی کسی عقیدے کے قابل رہتا ہے ؟ لوگ ان کی موجودگی سے بے آرام بھی ہوتے ہیں اور یہ خود بھی دشمنوں کی قدر کرتے ہیں اور اپنی بے آرامی کا بھی برملا اظہار کرنے سے نہیں چوکتے ۔ اور ڈیلیٹ کی آپشن کو آپریٹ کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں ۔ اور لوگ بھی خوب ڈٹ کر دشمنی نبھاتے ہیں ۔ اور یہ بھی ڈیلیٹ شخص کی محفل میں نہیں جاتے اور دشمن بھی اس گلی میں داخل نہیں ہوتے ۔ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ یہ حق رکھتے ہیں ۔ ایک اور وجہ عداوت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کہ انہیں حکومتی سیاستوں سیاستدانوں ، ازم ، عقیدے ، سیاسی پارٹیوں سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ اگرچہ ادبی گروہ بندی کے جرم کا الزام بہت سے دشمن ان پر لگاتے ہیں ۔ خیر اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
ایک اور وجہ یہ ہے کہ یہ روایتی خاندانی رشتوں سے دور بھاگتے ہیں ۔ شاید انہیں روایتا شریف نہیں سمجھتے ۔ اسی لئے لوگ ان سے دور رہتے ہیں مگر ڈاکٹر سہیل کی اپنی بہن اور بھانجی سے محبت اور احترام ان کی اپنے خاندان اور خونی رشتوں سے سچی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ وہ کس طرح اپنے چچا ، والد اور بہت قریبی رشتوں کا ذکر کرتے ہیں اور ایثار کا جذبہ رکھتے ہیں ۔ بلکہ ان کا ایک شعر خاندانوں کی ٹوٹ پھوٹ سے متعلق ہے جس سے ظاہر ہتا ہے کہ وہ موجودہ خاندانی نظام کی مسخ شدہ لاش پر نوحہ خواں ہیں ۔ وہ شعر ان کے دکھی دل کی آواز ہے اور پوری دنیا کے لئے سنجیدہ فکریہ شعوری کاوش ہے
شعر : ہمارے عہد کے ذی ہوش خاندان سوچیں
وہ دلدلوں کی طرح ہیں یا ساحلوں کی طرح
اس شعر کی بدولت ہے کہ ابھی دوستی کو ڈیلیٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔ یہ شعر ان کی رشتوں سے وابستگی اور احترام کی دلیل ہے ۔
شاید وہ رشتوں کی منافقت کی مذمت کرتے ہیں اور کہیں ضرور ٹھوکر کھائ ہوگی ۔ اسی لئے اب کہتے ہیں “میں مزے میں ہوں” ۔ یا شاید روایتی رشتے ان کی آزاد سر زمین پر کسی منافق رشتے کا معاندانہ شبخون ہے ۔
ڈاکٹر خالد سہیل بحیثیت ماہر نفسیات : جب میں نے نفسیات کا مضمون حصول علم کے لئے چنا تو اس وقت علم نفسیات پڑھنا اتنا مروج نہ ہوا تھا ۔ لیکن ماہر نفسیات کے بارے میں ایک رائے عام تھی کہ ماہر نفسیات خود ذہنی مریض ہوتے ہیں یا ہو جاتے ہیں ۔ مجھے یہ سن کر بہت صدمہ ہوتا تھا لیکن بھلا ہو والد محترم کا کہ انہوں نے سمجھایا کہ ایک اچھا ماہر نفسیات وہی ہوتا ہے جو خود بھی نفسیاتی مسائل کا شکار ہو تبھی وہ دوسروں کے مسائل کو سمجھ سکے گا ۔ کیونکہ انسانی دماغ کو کسی کتاب سے زیادہ خود انسان کا اپنا مشاہدہ باطن ہی کھول سکتا ہے اور ایک نفسیات کے طالبعلم کے لئے یہ بہترین تجربہ گاہ ثابت ہوتی ہے جو دوسروں کو سمجھنے اور اچھا معالج بنانے میں مدد دیتی ہے ۔ ڈاکٹر سہیل بھی ایک بہترین معالج ہیں کیونکہ ان کے پاس بھی مشاہدہ باطن کے انمول تجربات کا خزانہ معلوم ہوتا ہے ۔ بلکہ کبھی کبھی تو لگتا ہے ڈی ایس ایم ایم کا چلتا پھرتا نسخہ معلوم ہوتے ہیں ۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے اس تشخیصی مینول میں لکھی ہر مرض ڈاکٹر سہیل میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے ۔ تاہم کمال یہ کہ انہوں نے اپنی ذات کی تمام تشخیصات کو کمال فن سے اپنے مریضوں کو سمجھنے اور علاج معالجے کے لئیے استعمال کیا اور جہاں یہ ثابت کیا کہ ماہر نفسیات ذہنی مسائل میں مبتلا ہوسکتے ہیں بلکہ یہی دیوانے دوسرے دیوانوں کے لئے بہترین مسیحا ہوتے ہیں ۔ اور انسانی ذہن کوئی یسرنا الکتاب کا قاعدہ نہيں کہ صرف کتاب پڑھ کر ماہر نفسیات کی ڈگری مل جائے ۔ اپنے ذہن کے اندھیرے اجالوں کے سمندر پاٹنے پڑتے ہیں تب ہی ہوتا ہے مشکل کا آساں ہونا ۔
ڈاکٹر خالد سہیل کی مسیحائ کی روش بھی باغیانہ ہے ۔ اورانہوں نے اپنے پیشے کی روایتوں کو بھی چیلنج کیا اور اپنی اعلی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ” کری ایٹو تھیراپی ” کی ابتدا کی وہ بھی کینیڈا میں ۔ ڈاکٹر سہیل کی اس “کری ایٹو تھیراپی” سے میں بھی متفق ہوں ۔ کیونکہ مجھے بھی عرصہ دراز سے بحیثیت ماہر نفسیات یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی کہ کتابوں کے حرف بہ حرف نفسیاتی طریقہ علاج ہر مریض پر اطلاق نہیں کئے جا سکتے اور کوئی بھی معالج ایسا موجود نہیں جو مریض کو اندر تک جھانک کر اس کی یونیک مرض کے لئے یونیک طریقۂ علاج تجویز کرنے کی جرات کرے ۔ یہ کام ڈاکٹر خالد سہیل کی دیوانگی اور جنون ہی کر سکتا تھا ۔ ٹریفک کی ہری پیلی لال بتیوں کی روشنی پر مشتمل گرین زون کا فلسفہ دیوانے کا خواب نہیں وقت کی اہم ضرورت ہے ۔
اس مسیحائ کی نئی روش یہ ہے کہ فنون لطیفہ کی تمام اصناف یعنی افسانہ ، ناول ، موسیقی اور ڈانس کو دیوانوں کی دیوانگی کو فرزانگی میں بدلنے کا طریقہ قرار پایا ہے خوب با رونق رنگین اور شوخ تھیراپی ہے ۔ کوئی ناچ گا کر بھی نہ ٹھیک ہو خلاف فطرت ہے ۔مگر سچ پوچھیں تو میں عرصۂ دراز سے یہ ہی کہنا چاہ رہی تھی اور اب ڈاکٹر سہیل کو اس اسلوب پر کام کرتے دیکھ کر نہ صرف متفق ہوں بلکہ اس بات پر کھل کر بات کر سکتی ہوں کہ یہ طریقۂ علاج لاجواب ہے جس کی بنیاد کا سہرا ڈاکٹر سہیل کے دراز زلفوں والے سر پر ہی باندھا جا سکتا ہے گرچہ اس پر تو ہر وقت بغیر دھوپ اور بارش کے انگریزی کاؤ بوائے کا ہیٹ دھرا رہتا ہے ۔
اس بے خدا ، ملحد رنگین لاپرواہ مگر انسانیت کے علم بردار کے لئے سیکولر دعائیں ۔ یہ دنیا گرین زون بن جائے
آمین کہہ تو دیں مگر پھر ریڈ الرٹ لڑاکا جنگجو کدھر جائیں گے ۔

 

 

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply