ڈومورنہیں, اب نومور۔۔۔بلال شوکت آزاد

پاکستان کو امداد دے کر بے وقوفی کی۔ پاکستان ہمارے حکمرانوں کو بے وقوف سمجھتا ہے۔ پاکستان نے امداد کے بدلے ہمیں دھوکہ دیا۔ اب ایسے نہیں چلے گا ۔۔ٹرمپ کی ایک اور دھمکی !

پاکستان کی بنتی ہوئی عالمی ساکھ اور تیزرو بڑھتی ہوئی طاقت اور اعتماد امریکہ کو اس قدر  تکلیف دے  رہی ہے کہ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ گاہے بگاہے ہلکی پھلکی دھمکیاں دے کر اور ڈومور ڈومور کرکے منہ سے کف اڑائے جارہے ہیں ۔بیشک امریکہ کی اس بے چینی کو اور بڑھنا چاہیے اور یہ پاکستان کے لیے ایک اہم پیشرفت ہے خومختاری کی جانب۔جو لوگ پاکستان میں بیٹھ کر امریکی ڈالر حلال کرتے ہیں اور پاکستان کو معمولی ملک ثابت کرنے کے  لیے  انتھک محنت کرتے ہیں اب ان کے بھی دن گنے جاچکے ہیں۔آئیے ذرا امریکی صدر کی تازہ اور بھونڈی دھمکی اور الزام کا پوسٹمارٹم کرتے ہیں۔

امریکی صدر کا کہنا ہے کہ”پاکستان کو ہم نے 15 سالوں میں 33 ارب کی امدادی رقم دی اور پاکستان نے بدلے میں ہمیں صرف دھوکا دیا۔”

جی جی بالکل پندرہ سالوں میں امریکہ نے 33 ارب ڈالر امداد سینٹ سے منظور کی لیکن پاکستان کو اس کا صرف 60% فیصد وصول ہوا کولیشن فنڈ کی مد میں جو کہ وہ پیسہ تھا جو پاکستان نے ابتدائی سالوں میں خود سے اخراجات کیے  امریکہ کی پھیلائی ہوئی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں, یعنی وہ کوئی امدادی پیکج کی رقم نہیں بلکہ اخراجات اور نقصان کی مد میں ری امبرسمنٹ ویلیو تھی جو کہ پاکستان کا حق تھا۔یہ سب آن ریکارڈ موجود ہے امریکہ اور پاکستان کے متعلقہ اداروں کے پاس۔اور ایک محتاط عالمی تخمینہ لگانے والے ادارے کے مطابق ان پندرہ سالوں میں پاکستان کا 100-125 ارب ڈالر کا نقصان آن ریکارڈ ہوا انفراسٹرکچر اور جانی ومالی مد میں اس خوفناک مصنوعی جنگ کی وجہ سے جو امریکہ نے افغانستان میں شروع کی درحقیقت اسے پاکستان پر مسلط کرنے کے لیے۔33 ارب ڈالر کو اگر مکمل تسلیم بھی کرلیا جائے تو یہ کوئی بھیک اور مال مفت بے دام نہیں تھا بلکہ ہماری قربانیوں کا قصاص اور شمولیت کی قیمت ہے۔

امریکہ ان 40% فنڈز کی بھی منصفانہ تحقیق کرے جو کہ پاکستان کو ادا نہیں ہوئےلیکن امریکہ کے آڈیٹر جنرل اس کو پاکستان کے کھاتے ڈال رہے ہیں۔امریکہ دائیں بائیں منہ کرکےالزام تراشیاں ترک کرکے پاکستان کو اسکی بقایا  رقم ادا کرے کولیشن فنڈ کی مد میں۔عالمی تخمینہ کے مطابق اگر ہم 100 ارب ڈالر کا نقصان بھی تسلیم کرلیں تو بھی امریکہ کی طرف ہمارا 85 ارب ڈالر بقایا  ہے 33 ارب ڈالر کی 60% فیصد وصولی کے بعد۔اس وقت امریکہ کی بے چینی اور پریشانی کا اصل منبع سی پیک ہے جو کہ واقعی ایک گیم چینجر منصوبہ ہے۔

امریکہ بھارت کو خطے کی سپر پاور اور ایشین ٹائیگر بناکر چین و پاکستان سمیت روس کو کنٹرول میں رکھنا چاہتا تھا افغانستان کی جنگ کی آڑ میں لیکن چین, روس اور پاکستان کی سٹرٹیجک و اقتصادی پارٹنر شپ کے آگے امریکہ اور بھارت کے ہاتھ بندھ گئے ہیں اور ان کے جاگتی آنکھوں سے دیکھے ہوئے بچگانہ خواب ملیا میٹ ہونے جارہے ہیں۔اس لیے  امریکہ اور بھارت اب مل کر پاکستان کے پیچھے پڑ گئے ہیں اور امریکہ ہاتھ دھوکر پیچھے پڑ گیا ہے بھارتی مقاصد کی تکمیل کے لیے اور وہ نہیں چاہتا کہ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں امن قائم ہو۔پاک افواج کا “ڈومور” کے جواب میں دوٹوک جواب “نو مور” امریکہ کو مل چکا ہے۔اس لیے امریکہ اب اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر خراج وصول کرنا چاہتا ہے۔بھارت کی افغانستان میں موجودگی بھی امریکہ کے لیے بے سود ثابت ہورہی ہے۔امریکہ کی حالیہ سبھی جارہانہ اور الزام پرمبنی دھمکیاں پاکستانی سیاست کی کمزور کڑیوں اور غدار حکمرانوں کی بدولت ہے۔امریکی صدر پاکستان کی نفرت میں اندھے ہوکر اپنے ملک اور اپنے خلاف عالمی نفرت بڑھارہے ہیں۔

ملکوں کو ایک دوسرے سے توقعات ہوتی ہیں  اور رکھنی بھی چاہییں  لیکن دھوکہ اور یوٹرن پالیسیز بھی عالمی سیاست کا حصہ ہے۔اگر کبھی امریکہ پاکستان کو دھوکہ دے کر صاف ستھرا نکل سکتا ہے تو پھر یہی سہی کہ اب پاکستان کی باری ہے سو امریکہ دھوکہ کھائے ہم سے۔سارے مسئلے کا ایک نقاطی اور بنیادی حل ہے۔اور وہ ہے افغانستان میں مکمل امن!!!

یہ تب ہی ممکن ہے جب امریکہ سمیت نیٹو اور بھارت کی فوجی و نیم فوجی مداخلت ختم ہوگی, مطلب سبھی غیر افغان فورسز کا انخلاء اور 40% فیصد افغانستان پر حکمران طالبان کی گلبدین حکمت یار خان کی سربراہی میں پورے افغانستان پر حکومت تشکیل ہو۔تب افغانستان میں امن قائم ہوگا اور اس کی وجہ سے پاکستان کے قبائل دہشت گردوں سے پاک ہوں گے اور پھر دونوں ملک امن سے رہ پائیں گے۔خطے سمیت پوری دنیا میں امن بھی ہوگا اور پسماندہ ایشائی ممالک اقتصادی و معاشی ترقی کا مزہ چکھ سکیں گے۔جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا تب تک پاکستان میں مکمل طور پر امن قائم ہونامشکل ہے۔اب تو تمام تر پاکستانی طبقات ایک پیج پر ہیں کہ پاکستان کو کراس بارڈر جنگوں میں کسی بھی چینل سے نہیں کودنا چاہیے۔خواہ آفیشلی ہو یا ان آفیشلی۔

امریکہ کو اپنا جارہانہ انداز بدلنا ہوگا اور پاکستان کی اس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خدمات کا اعتراف کرنا ہوگا بصورت دیگر امریکہ معمولی سا موجود سافٹ کارنر بھی کھو دے گا۔کیا پاکستان کی 75 ہزار قربانیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں؟۔۔نہ دے امداد امریکہ ہم پہلے بھی امریکی امداد پر نہیں بیٹھے تکیہ کرکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک تحقیقی اندازے کے مطابق پاکستان میں سیاستدان اور بیورکریسی مل کر سالانہ 20 سے 35 ارب ڈالر کی کرپشن کرتے ہیں۔اگر پاکستانی اتھاریٹیز میرٹ کو لاگو کریں اور مزید کرپشن کی روک تھام کرکے 10 سے 15 ارب ڈالر سالانہ بھی بچالیں تو پاکستان ویسے ہی خودمختار ملک بن سکتا ہے۔بہرحال دیر ہے اندھیر نہیں۔سی پیک کا پچاس فیصد تکمیل تک پہنچنا اور حالیہ کرپشن کے خلاف مہم سے ہم بہت جلد اپنے پیروں پر کھڑے ہوں گے۔لیکن ان مقاصد کے حصول کی خاطر اس وقت بیرونی ڈومور کی صداؤں کا نومور ہی بہترین جواب ہے۔اب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی طرح حکومت بھی اس بیانیے کو اپنالے تو اچھی امید باندھی جاسکتی ہے مستقبل سے۔اب وقت بدل چکا ہے۔اب ڈومور بھی ہم کہیں گے اور نو مور بھی ہم ہی کہیں گے۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply