ایموجی مخلوق۔ بتول

کچھ عرصہ پہلے میسج پہ بات کرتے ہوۓ ایک دوست کو مذاق میں کچھ کہہ دیا جو ان کی نازک طبیعت پہ گِراں گُزرا۔ ہم تو خیر اِس بات سے تاعُمر لاعِلم ہی رہتے لیکن شُکر ہے انہوں نے خود ہی بتادیا کہ ہمیں فلاں بات بُری لگی ہے ۔ہم نے کہا وہ بات تو مذاق میں کَہی ہم نے۔آپ کاہے مُنہ بنا لیے ؟ تو کہا اچھا! مذاق تھا؟ ٹھیک ہے ۔لیکن تم مذاق کرتے وقت کوئی اِیموجی نہیں لگاوگی تو ہمیں کیسے پتاچلے گا کہ مذاق تھا ؟
پس! یہی وہ حَسین لمحہ تھا جب ہمیں ایموجی نامی مخلوق کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ اللہ بھلا کرے اُس انسان کا جس نے یہ مخلوق ایجاد کر لی ورنہ کسی کو کیا خبر کہ کوئی مذاق کر رہا یا کوئی غمگین ہے ۔ کوئی ہنسنے والی بات کررہا ہے یا افسوس کرنے کی۔
آج کل حد تو یہ ہے کہ اگر کوئی بغیر ایموجی لگاۓ بات کر دے تو دوست احباب پُوچھ پُوچھ کے ہلکان ہونے لگتے ہیں کہ طبیعت خراب ہے یا ناراضگی ہے کوئی ؟ ویسےسچ کہیں تو سہولت بھی اس مخلوق کی دریافت سے انسان کو بڑی ہوئی ہے۔ اکیلے ہنسنے والے ایموجی کی ہی کم سے کم بھی پندرہ سے زیادہ اقسام دستیاب ہیں ۔اب یہ آپ پہ منحصر ہے چاہیں تو منہ پھاڑ کے ہنسنےوالا ایموجی لگا دیں یا آنسو اور ہنسی کے ملے جلے تاثر والا لگائیں ۔ اور تو اور فیس بک پہ کسی کی موت کی خبر چھاپتے ہوۓ اگر ساتھ میں ٹسوے بہاتے ہوۓ ایموجی کی قطار نہ لگائیں تو کسی کو کیا خاک پتا چلے گا کہ مرحوم کی موت پہ ”إِنَّا لِلّهِ“ پڑھ کے افسوس کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایسا تھوڑاہی ہے کہ ہماری یہ نسل ایموجیز کی محتاج ہوئی ؟، بس جناب بات سیدھی ہے بھلا کوئی کیسے کسی تحریری جُملے سے اندازہ کرے کہ سنجیدہ بات ہے یا مزاح !
اردو ادب کی نامور شخصیات نے اپنی تحاریر سےکتابوں کے خوامخواہ انبار لگا دیے۔ عرصہ ہوا لوگ اُن کو پڑھتے ہیں ، مزاح ہو تو ہنس بھی لیتے ہیں ۔لیکن اب جب سے ایموجی کی اھمیت ہم پہ آشکار ہوئی ہے اردو ادب کے دانشوروں کی تحاریر پہ شبہ سا ہونے لگا ہے۔ ہمارا شبہ کچھ غلط بھی نہیں، چونکہ اُن کی تحاریر میں کہیں کوئی ایموجی نامی مخلوق ہے ہی نہیں تو عین ممکن ہے کہ جس تحریر کو ہم نے سنجیدہ سمجھا وہ مزاحیہ ہو۔ یا جس تحریر کو ہم مزاح سمجھ کے ”ہی ہی ہی “کر کے ہنستے رہے ہیں کیا پتا وہ سنجیدہ بات ہو ! اب اگر سنجیدہ جملے کے آگے ”سپاٹ سے منہ والا“ ایموجی لگا ہوتا تو سمجھ میں بھی آتا نا ں کہ یہ ایک سنجیدہ بات ہے ۔
اچھا چلو اور کچھ نہیں تو مزاحیہ فقرے کے آگے ایک عدد ”پیلے رنگ کا بتیسی باہر نکالا“ ایموجی لگا ہوتا تو سمجھنے میں آسانی تو رہتی کہ فلاں حضرت نے مزاح لکھا ہے۔
ہم تو کہتے ہیں کہ بھیا کوئی تحقیقاتی کمیشن ہی بٹھا دو جو کھوج لگاۓ کہ دانشور حضرات میں سے کس کی تحریر سنجیدہ ہے ، کس کی مزاح تاکہ آنے والی نسل کو ایسی پیچیدہ باتیں سمجھنے میں کوٸ دقّت نا ہو۔ لیجیۓ آپ ہماری اِس تحریر کو ہی دیکھ لیں ایموجی میاں کی عدم موجودگی کی وجہ سے سب کو خوامخواہ طنز و مزاح کی جھلک دکھائی دے گی .حالانکہ ہم نے سب کچھ سنجیدگی سے ہی لکھا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply