دِلم-مصنفہ: زارا مظہر/تبصرہ: قراةالعین حیدر

اب تک تو میں اپنے خیالوں میں اپنی آنے والی کتاب کا انتظار کر رہی تھی لیکن زارا مظہر کی کتاب دِلم کا میں نے باقاعدہ انتظار کیا ہے۔ زارا آپا اپنے فیس بک  آئی ڈی پہ بتا چکی تھیں کہ انہوں نے اپنی تحریروں کو کتابی شکل میں ناشر کروانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور میں اسی دن سے اس کتاب کے انتظار میں تھی کہ کب یہ کتاب میرے ہاتھ میں آئے گی۔ اگرچہ  اس کتاب کے تقریباً چالیس فیصد باب / آرٹیکلز میں پہلے پڑھ چکی تھی لیکن اس کے باوجود تمام آرٹیکلز کو اکٹھا پڑھنے کا اپنا ہی لطف ہے۔

کوئی چار پانچ سالوں سے میں زارا مظہر کو فالو کر رہی تھی ان کی تحریریں بہت اپنی اپنی سی ہیں جس میں کبھی معاشرے کے کچھ قبیح رسوم و رواج کا ذکر ہوتا ہے، کبھی گھرداری کی بات ہوتی ہے تو کبھی ہمارے اچھے اور بُرے معاشرتی رویوں کا ذکر ہوتا ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ وہ بات کا حل نکالنا چاہتی ہیں۔ وہ اپنی تحریر کے ذریعے یہ بتانا چاہتی ہیں کہ مسائل کا حل کیسے بردباری اور دانش مندی سے نکالا جاسکتا ہے۔ ہمیں اپنے معاشرتی رویوں میں بہتری لانے کیلئے گنجائش پیدا کرنی چاہیے۔ اب رہی بات “دِ،لم” کی کہ جیسا نام سے ہی ظاہر ہے دلم کا مطلب ہے میرا دل تو گویا زارا مظہر نے اپنا دل پڑھنے والوں کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔ میں یہ حلفاً کہتی ہوں کہ یہ تحریریں واقعی دل سے نکلی ہیں۔ آپ پڑھ کر دیکھیے آپ کو لگے گا کہ یہ آپ کا ہی ذکر ہورہا ہے۔

کیا ہے اس کتاب میں کہ مجھ جیسی کتابی کیڑا دیوانی ہوئی جارہی ہے؟؟؟ تو جناب یہ کتاب 90 کی دہائی کی ان یادداشتوں پر مبنی ہے جس میں ہم سب جوان ہوئے۔ اس کتاب میں زارا  آپا  کی وہ ساری یادداشتیں ہیں جو ذہن کے کسی کونے میں دفن ہو گئی تھیں  اور اب ایک ایک کر کے وہ ان یادداشتوں کو نکال کر ہم سب کے سامنے لا رہی ہیں۔

مجھے یاد ہے جب 90 کی دہائی شروع ہوئی تو میں اس وقت چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی اور جب یہ دہائی ختم ہوئی اس وقت تک میں گریجویشن کر چکی تھی۔ یعنی کہ میں نے اپنی پوری ٹین ایج اسی 90 کی دہائی میں جی ہے۔ یہ وہ دہائی ہے جس میں سائنسی ٹیکنالوجی اپنے عروج پر تھی، جب پی ٹی وی، انٹرٹینمنٹ ، سینما، میوزک، ادب اور دیگر ہر چیز کا عروج چل رہا تھا۔ یہ خاندانی معاشرت، تہذیب، رواداری اور استقامت کا دور تھا۔ جب نفسا نفسی کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہ تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ہر گھر میں ماں باپ باآسانی پانچ چھ بچے پال لیا کرتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جہاں ہر دوسرے تیسرے مہینے خاندان میں قرآن خوانیوں پر پورا خاندان اکٹھا ہو جایا کرتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جہاں پورے محلے میں ایک ہی گھر میں ٹیلی فون ہوتا تھا اور سارے محلے دار ایک دوسرے کے ساتھ محبت کی اس ڈور میں بندھے ہوئے تھے جس میں دوسروں کی عزت، پاسداری اور رازداری رکھی جاتی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب ہمسایوں کے ساتھ ماں جائیوں جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب بچے اپنے چچا یا ماموں سے جس طرح ڈرا کرتے تھے یا محبت کرتے تھے، اسی طرح محلے کے ہمسایہ چچا ماموں سے بھی ڈرا کرتے تھے اور محبت سے پیش آتے تھے۔ ابھی معاشرے میں ہر ایک کو انکل آنٹی کہنے کا رواج نہیں آیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب سب کی بہنوں بیٹیوں کی عزت سانجھی سمجھی جاتی تھی، سب کے ماں باپ سانجھے ہوتے تھے۔ میں اور میرے جیسے کروڑوں لوگ اسی 90 کی دہائی میں رک سے گئے ہیں۔ ہم نے زندگی کی بہترین فلمیں اس وقت دیکھیں، ہم نے زندگی کا بہترین موسیقی اور فلمی گانے اس وقت سنے، ہمارے پہلے پہلے کرش اسی زمانے میں سامنےآئے اور ہم لوگوں نے اس دور کے بعد ہی اپنی نئی نئی دنیائیں تلاش کیں۔ ہم سب کی زندگی میں کہیں نہ کہیں یہ 90 کی دہائی میں لاپتہ ہیں اور اس سنہرے روپہلے دور کو یاد کرنے کے لیے اپنی اپنی یادداشتیں کھنگالتے رہتے ہیں ۔

یہ تو بات ہو گئی 90 کی دہائی کی اب سوال یہ ہے کہ کیا ہے اس کتاب میں جس نے مجھے مجبور کیا کہ اس کتاب کے بارے میں لکھوں۔ اس کتاب میں کیا نہیں ہے  ۔۔ اس میں ازدواجی اور گھریلو ماحول، شادی شدہ معاشرت، گھرداری، معاشرے کے چند مسائل، ہماری ذاتی خوبیاں اور خامیاں جس کے بارے میں شاید صرف ہمیں پتا ہو اور ایسی خوبصورت یادداشتیں ہیں جس میں ہر شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ جیسے زارا مظہر نے میرے دل کی بات کہہ دی۔ مرزا غالب نے تو ڈیڑھ صدی پہلے کہا تھا
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اُس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

زارا مظہر کی پہلی کتاب ان کے تجربات، مشاہدات اور یادداشتوں پر مبنی ہے۔ منظر کشی اور واقعہ بیان کرنے میں وہ ایسی ماہر ہیں کہ گمان ہوتا ہے کہ جیسے ہم بھی ان کے ساتھ ساتھ ان کے محلے داروں، کبھی گجرانوالہ اور چشمہ کے ہمسایوں کے ساتھ ساتھ انہی کے گھر میں بیٹھے انہی کے گھر کا حصہ بن چکے ہیں۔ میں خاص طور پر یہاں آپ کو بتانا چاہوں گی کہ اس کتاب کے دو باب “تتلی کے پَر “اور”آنول نال” ایسی دل سے نکلی ہوئی تحریریں ہیں جس سے ہر کوئی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ جو باتیں زارا آپا نے اپنی بیٹی سے کہیں، یہ وہی گفتگو ہے جو ہر ماں باپ اپنی بیٹی کے ساتھ شادی کے موقع پر کرتے ہیں۔ خاص طور پر تتلی کے پر پڑھتے ہوئے میری انکھیں ہمیشہ کی طرح نم ہوگئیں۔ پہلی بار جب فیس بک پر پڑھا تب بھی نم ہو گئی تھیں اور اس دفعہ جب بہت تفصیل سے پڑھا اور بہت ساری لائنوں کو ہائی لائٹ کیا تو مجھے یہ یہی احساس بارہا ہوا کہ آپ کچھ کر لیں آپ کی شادیوں کو جتنا مرضی وقت گزر جائے عورت کا دل اس کے میکے کی دہلیز سے باہر نہیں نکلتا۔ لیکن ایک بڑی سیدھی سی بات ہے زارا آپا گھریلو عورت ہیں انہوں نے اس کتاب کے مختلف ابواب کے ذریعے لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ایک گھر چلانے کے لیے، اپنی کائنات بنانے کے لیے، اپنی جنت تخلیق کرنے کیلئے اپنی ہستی مٹانی پڑتی ہے ۔  عورت کو جھکنا پڑتا ہے۔ اور یہ بات بالکل سچ ہے مجھے راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ یاد آگیا جس کا نام لمبی لڑکی ہے۔ اس افسانے میں ایک لمبی لڑکی کی شادی ایک ٹھگنےقد کے آدمی سے ہو رہی تھی۔ لڑکی کو شادی سے پہلے دادی سمجھاتی ہے کہ تم اپنے شوہر کے سامنے جھک کر چلنا تاکہ اسے احساس نہ ہو کہ  اس کا قد چھوٹا ہے تو لڑکی رو پڑتی ہے اور دادی کو کہتی ہے کہ اب تم مجھے یہ بھی بتاؤ گی کہ میں نے چلنا کیسے ہے؟ تب دادی ایک پتے کی بات کرتی ہے اور وہیں افسانہ ختم ہوجاتا ہے “عورت نہ جھکے تو سنسار چلتا کہاں ہے؟” اور واقعی یہی بات زارا مظہر نے اپنی تحریروں کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ عورت کو ہر معاملے میں چاہے وہ گھریلو عورت ہے یا خودمختار اپنا گھر دیکھنے، سنبھالنے اور اسے جنت بنانے کیلئے بہت سی باتوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ کبھی اسے اپنا دل مار کر کئی کئی مہینے بلکہ کئی کئی سال اپنے میکے کی جدائی سہنی پڑتی ہے، کئی بار اپنا دل مار کر اپنی ساری خواہشات، سارے شوق ختم کرنے پڑتے ہیں۔ کئی کئی دن، کئی کئی راتیں اپنے بچے کو پالنے کے لیے رتجگے جھیلنے پڑتے ہیں اور پھر جب وہ اس سخت وقت سے    آگ میں تپ کر کندن بن جاتی ہے تب اس معاشرے میں آئیڈیل بیوی، ماں، بیٹی بن پاتی ہے جو مستقبل کی شاندار نسل کی امین ہوتی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میری ناقص رائے میں اپنی بیٹیوں کو شادی کے موقع پر قرآن   مجید کے ساتھ بہشتی زیور دینے کے بجائے اگر آپ دِلم دیں گے تو شاید آپ کی بیٹیوں کو گھرداری، رشتے نبھانا، ذہنی پختگی اور جہاندیدہ پن ذرا جلد آئے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply