اپنے آپ سے ملاقات/توقیر بُھملہ

کان پر اَڑسے ہوئے قلم کو اُتار کر اور آڑھے ترچھے لکھے گئے سیاہ شبدوں کے بوجھ سے دوہرے ہوتے سفید پنوں کو سمیٹ کر بھورے رنگ کی میز کے  نیچے جھانکتی ہوئی اَدھ کُھلی دراز میں بند کیا، عرق آلود پیشانی پر بکھرے، ایک دوجے میں الجھے سیاہ و سفید چند بالوں کو دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے سنوارا، ٹھوڑی کو بائیں ہاتھ کی اوک میں رکھا اور ادھر اُدھر دیکھ کر اطمینان کے ساتھ گہرا سانس لیا۔

مدت   ہوئی کہ خود سے ملاقات نہ ہو سکی تھی، اور آج جب نہ کوئی کام پاس تھا اور نہ کوئی ملاقاتی باقی رہا تو تنہائی کی نعمت میسر ہونے پر خود سے ملنے کا سوچا، خود سے ملنے کے خوش کن تصور سے ہی بڑے دنوں سے روٹھی ہوئی مسکراہٹ چہرے پر خود بخود عود کر آئی۔ بالا خانے کے دالان میں تلسی کے مہکتے ہوئے پودوں کے قریب پڑی منقش پایوں والی چارپائی پر بچھی شکن آلود سفید چادر پر میں اب تقریباً نیم دراز ہوچکا تھا اور چارپائی کے ساتھ دھری میز پر نجانے کب سے رکھا ادھ ادھوری تحریروں سے اٹا ہوا مسودوں کا پلندہ پڑا اونگھ رہا تھا۔

کب سے خالی پڑے کافی کے کپ میں کسی کے ہاتھ کا لمس لیے کافی کی مہک اب تک باقی تھی۔ دن کے بدن پر لپٹا سنہری لباس بوسیدہ ہونے کے قریب تھا، دن کے پہلو سے جدا ہوتے جوان سائے اب قدیم روشنیوں کے تعاقب میں تھے، دن بھر من مرضی کرتا آگ برساتا سورج اب اپنی کرنوں کو عجلت میں مٹی کے ذرے ذرے سے کھینچتے لپیٹتے ہوئے افق سے بھی پَرے بھاگ رہا تھا۔ فضا میں گھلی ہوئی چڑیوں کی چہچہاہٹ بتا رہی تھی کہ گھر کے پائیں باغ میں لگے لسوڑوں اور نیم کے درختوں پر پرندوں کے لوٹنے کا وقت ہوگیا تھا۔

میں نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو سورج کا نصف چہرہ زیر نقاب تھا۔ فلک کے کونوں کھدروں میں زرد روشنی والے چند ہی دیپ بچے تھے ،باقی ہر سُو طلسماتی شام اپنا فسوں پھونکتی جا رہی تھی۔ صبح سے ہشاش بشاش دن اب افسردگی سے الوداع ہو رہا تھا، دن لپیٹا جا چکا تھا، شام پھیل رہی تھی کسی کے زوال میں بھی کسی کا عروج لکھا ہوتا ہے، ڈھلتے ہوئے بوڑھے سورج کی جھونپڑی سے خوابیدہ شام انگڑائی لے کر بیدار ہو رہی تھی۔

شام جوان تھی اور رنگین تھی، گھر سے باہر سڑک کے پار جھیل تھی اور جھیل کا پانی دن بھر فطرت کے ہزاروں مظاہر کو آئینہ دکھانے کے بعد چاند تاروں کا دھندلا سا عکس لیے نیم رقصاں تھا۔ فلک سے شام اتری تھی یا سکون نازل ہوا تھا، یا پھر کسی نے سحر پھونک دیا تھا۔ سڑک پر فراٹے بھرتی گاڑیوں کو یکدم کسی نے لگام ڈالی تھی، بے ہنگم شور تھا جو وہ تھم چکا، دھول تھی جو وہ پانی میں اتر گئی تھی۔ لوگ تھے جو روشنیوں کے تعاقب میں کہیں روپوش ہوگئے تھے۔

جھیل کے اس پار کوئی اکیلا جھینگر اب نغمہ سَرا تھا۔ شاید دن کے دامن سے دھیرے دھیرے سے سرکتی ہوئی سرمئی لبادوں والی شام کو وہ اکلوتا جھینگر خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ شاید اسی لمحے مجھ پر ادراک ہوا کہ بعض اوقات خاموش تنہائی بھی ہزار غموں کا علاج ہوتی ہے۔ خاموش تنہائی بھی کسی ایسے خوبصورت جزیرے سے کم نہیں ہے جہاں پر من چاہی زندگی بِتائی جاتی ہے۔

شاید خود کو مکمل میسر ہونے کے لیے تنہائی سے بہترین کوئی دوسرا لمحہ ابھی تک تخلیق نہیں ہوا۔ اس وقت آپ خود اپنے گلے نہیں ملتے بلکہ آپ کا تخیّل بھی مہربان ہو کر کسی خوشنما بیل کی مانند بدن سے آ لپٹتا ہے۔ وہ تخیّل جس کے پانیوں میں کائی جم چکی ہو، وہ اچانک گوہر آبدار لٹانے لگتا ہے، ذہن، دل اور روح کی تازگی اور عیاشی کے لیے تنہائی سے بڑھ کر بھلا اور کون سی گھڑی ہو سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تنہائی جس سے جنوں بہلتا ہو، تنہائی جو وحشت کو رفاقت بخشے، تنہائی جو نارسائی کے کرب سے آزاد ہو، تنہائی وہ جس میں من کی گہرائیوں میں اتر کر اپنا سراغ لگایا جا سکتا ہے، جہاں خود سے کیے گئے سوالات کا جواب تلاش کیا جا سکتا ہے، جہاں چونکا دینے والی خبروں کی بجائے خود کو سنا جا سکتا ہے۔ جیسے بوڑھے برگد پر پرندوں کی ڈاریں اترتی ہیں، جیسے شہر سے دور صحرا کے ویرانے میں اکلوتی جھیل کے دامن میں شاد کونجوں کا آباد مسکن ہوتا ہے ویسے ہی تنہائی میں امڈتے خیال اور اترتی یادیں بے پایاں مسرت ہیں۔

Facebook Comments

توقیر بھملہ
"جب خلقت کے پاس آؤ تو زبان کی نگہداشت کرو"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply