ہزار آدمی /اقتدار جاوید

عین عید قربان کے موقع پر وفاقی وزیر داخلہ رانا صاحب نے کہا اگر ایک ہزار آدمی پھانسی چڑھا دیے جائیں مطلب ہے بکروں کی طرح قربان کر دئے جائیں تو اس غریب ملک کے حالات درست ہو جائیں گے۔اردو زبان میں غریب کے مترادفات میں ” بیچارہ” مناسب ترین ہے۔ غریب کو اردو دان طبقہ اور معنوں میں لیتا ہے۔انگریز اسے Poor کہہ کر اپنا مطلب ادا کر لیتے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ انگریزوں میں ایک ہزار لوگوں کی بلی چڑھانے کا تصور ہی نہیں ہے۔ انہوں نے لوگون کو مارنا ہو تو اپنے ممالک سے باہر آ کر یہ نیک کام کرتے ہیں۔اپنا ایک بندہ بچانے کے لیے دوسرے ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں۔یقین نہ آئے تو دی کنٹریکٹر نامی کتاب مصنف عالی جناب ریمنڈ ڈیوس پڑھ لیں جو ہمارے ملک ہمارے لوگوں اور ہمارے حکمرانوں کے بارے میں ہے۔اس نے دن دہاڑے دو آدمیوں کو قتل کیا تھا اور کیسے مکھن کے بال کی طرح اپنے ملک عزیز کے ہر سسٹم کو جوتے کی نوک پر رکھ کر واپس اپنے ملک سدھار گیا تھا۔تب وفاق میں آصف علی زرداری اور تخت لاہور پر شہباز شریف فائز تھے۔ہم لوگوں کے سامنے تو یہی آیا کہ ایک تھانے میں ہمارے جی دار پلسیے جو آج کل دیواریں پھلانگنے میں جواب نہیں رکھتے تب گلابی انگریزی بولنے پر اکتفا کرتے رہے۔کالم میں ریمنڈ ڈیوس سے جو سولات جوابات ہوئے تھے جی چاہتا ہے کہ وہ سب کچھ سینہ ِ مجبور سے سینہ ِ قرطاس پر منتقل کر دیا جائے۔مگر بہت سے راز کبھی افشا نہیں ہوتے اگرچہ معلوم سب کو ہوتے ہیں جن کو رازدار وہ راز بتانا چاہتا ہے ان پر سب پر ظاہر ہو چکے ہوتے ہیں۔
ایک راز ایسا تھا جو ہم نے کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیا تھا۔ وہ وہی تھا جو رانا ثنااللہ نے کہا ہے وہی ایک ہزار والا۔ہم بھی چاہتے ہیں کہ اس ملک کے حالات ٹھیک ہوں اور جن لوگوں کی توندیں عوام کے حقوق غصب کر کے بڑھی ہیں ان سے وہی سلوک کیا جائے جو رانا صاحب نے تجویز کیا ہے۔ وہ والا نہیں جو ہمارے گرائیں پورو (اصل نام پورس نہیں ہے) نے کہا تھا کہ وہ سلوک کرو جو بادشاہ بادشاہوں سے کرتے ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ ان سے وہ سلوک کیا جائے جو وہ عوام سے کرتے ہیں۔
رانا صاحب نے ایک ہزار لوگوں کی پھانسی کے متعلق تو کہہ دیا مگر یہ نہیں بتایا کہ پھانسی کے بعد ان کی لاشوں یا میتوں سے کیا سلوک کیا جائے۔ہمارا دین ِاسلام تو کہتا ہے کہ دشمنوں کی لاشوں کی بھی بےحرمتی نہ کی جائے۔کسی درخت کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔یہاں سے ہمارا اور رانا صاحب کا فقہی اختلاف شروع ہو جاتا ہے کہ ہزار لوگوں کی لاشوں یا میتوں کا کیا جانا ہے۔کیا انہیں اسی طریقے سے کفن دفن میں لپیٹ کر ان کی مغفرت کی دعا کا اہتمام کرنا ہے۔ہماری روایت یہی ہے اور علما کرام بھی امت ِمسلمہ کے سب مرحومین کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ ممکن ہے اور اغلب امکان بلکہ یقین ہے کہ ان میں ان ایک ہزار لوگوں سے بھی برے لوگ ہوں گے۔خود ہمارے مسلمان بادشاہ سروں کے مینار بنانے کے بڑے خواہشمند تھے۔سروں کے مینار بنانا ہمارے ڈی این اے میں شامل ہے تیمور میاں جنہیں ایک موجودہ لیڈر کی طرح تیمور لنگڑا یا تیمور لنگ کہا جاتا ہے نے اپنی دلی میں سروں کے مینار بنائے تھے۔اس قومی مذہبی فریضے پر یعنی سروں کے مینار بنانے پر دو کماندار اور ایک ہزار سپاہیوں نے مل کر مینار بنائے تھے۔مینار بنانے کے لیے ایک لاکھ افراد کے گلے تو کاٹے گئے ہوں گے۔تب ہی ایک دیدہ زیب مینار کھڑا ہو سکتا ہے۔ یہ سب کچھ تاریخ ہے۔ جیسٹن میزوری کی کتاب تیمرلین پڑھ لیں۔ڈیڑھ لاکھ گھوڑوں پر اس کا سامان رسد لدا تھا۔
نادر شاہ دی وار نجابت میں نجابت کہتے ہیں
تے چڑھے چگتا بادشاہ تیمور جوں دھاناں
تے گھوڑا ساڈھے ست لکھ سنے مغل پٹھاناں
ہمارے لیے نادر شاہ کی وار بھی میزوری کی کتاب سے کچھ کم نہیں۔یہاں نجابت نے گھوڑوں کی تعداد ساڑھے سات لاکھ لکھی ہے۔ہمارے لیے یہی درست ہے۔کیونکہ ہمارا اور رانا صاحب کا تھیسز تو ایک ہزار بندے بنے لگانے سے ہے۔
اگے نظر ودھائی سی سیداں لے ملک انعامی
اوہناں کُٹھا سی فلک شعر نوں کر ظلم تمامی
اوہ اپنا کیتا لے موئے مار لئے ہسانی
جنّ فرشتے تے آدمی کل آکھن عامی
(فلک شعر=فرخ سیئر، عامی=آمین)
اب یہاں فرخ سیر کو نجابت نے فلک شعر باندھا ہے۔مطلب نجابت کا فرخ سیر ہی ہے جیسے ہمارا اور رانا صاحب کا مطلب ایک ہی ہے۔
ہم تو شمال سے آئے تھے سو ہمارے ڈی این اے میں مینار بنانے کا شوق فطری اور لازمی ہے۔ رانا صاحب تو اس دھرتی کے بیٹے ہیں ان کے بڑوں کے بھی مسلمان بادشاہوں نے مینار بنائے تھے ان کے اندر یہ خواہش مینار بنانے کی خواہش کیسے پیدا ہو گئی۔ راجپوت جو بات کہتا ہے اس پر پہرہ دیتا ہے۔مگر کالم کے اختتام پر شک سا ہونے لگا ہےکہ رانا صاحب ملک کے حالات اپنے نقطہ نظر سے درست کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ایک ہزار لوگوں کی لسٹ بھی ضرور بنا لی ہو گی یا بنوا لی ہو گی اور ہمیں لگ سا رہا ہے وہ ایک ہزار بندے قاسم کے ابا کی پارٹی کے لوگوں سے چنے ہوں گے۔باقی جو لوگ ہیں جس کام کاج میں مشغول ہیں وہ بے چنت مشغول رہیں۔خواہ وہ اشرافیہ سے ہوں بیوروکریسی سے ہوں ٹیکس چوروں سے ہوں یا اسمگلرز وغیرہ ہوں۔وہ رانا صاحب کا مسئلہ نہیں ہیں کہ انہوں نے
قاسم کے ابا کی پارٹی کے کارکنوں کا ناطقہ بند کرنے کا وچن دیا ہوا ہے۔ساری مصیبت صرف قاسم کے ابا کی پارٹی کے لوگوں کی پیدا کردہ ہے۔آخر 2018 سے قبل تمام پارٹیاں ہنسی خوشی رہ رہیں تھیں رنگ میں بھنگ کا مسئلہ تازہ تازہ اسی جماعت کا پیدا کردہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ 92نیوز

Facebook Comments

اقتدار جاوید
روزنامہ 92 نیوز میں ہفتہ وار کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply