• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔۔پروفیسر رفعت مظہر

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔۔پروفیسر رفعت مظہر

تحریکِ عدم اعتماد آنے کے بعد وزیرِاعظم دھڑادھڑ جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں جس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انتخابی موسم لوٹ آیا ہو۔ سپیکرقومی اسمبلی نے آئین سے انحراف کرتے ہوئے 22 مارچ کے بجائے 25 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا اور مرحومین کے لیے دعا کے بعد برق رفتاری سے غائب ہو گئے۔ اِس اجلاس ہی نے عیاں کر دیا کہ وزیرِاعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو چکی کیونکہ اپوزیشن کے تمام ارکان موجود تھے جبکہ حکومتی بنچوں پر آدھے سے بھی کم۔ اب حکمرانوں کے پاس سوائے تاخیری حربوں کے کچھ باقی نہیں بچا۔

آرٹیکل 63-A پر صدارتی ریفرنس کی سپریم کورٹ سے مشاورت محض تاخیری حربہ ہے۔ سپریم کورٹ کے فُل بنچ نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ کسی بھی منحرف رکنِ پارلیمنٹ کو ووٹ ڈالنے سے نہ صرف یہ کہ روکا نہیں جا سکتا بلکہ ووٹ شمار بھی ہوگا جبکہ فوادچودھری کہتا ہے کہ ووٹ کو شمار کرنا یا نہ کرنا سپیکر کی مرضی پر منحصر ہے۔ یہ فوادچودھری کا آئین سے کھلم کھلا انحراف ہے۔ اِسی طرح کے کئی غیر آئینی بیانات وفاقی وزراء کی زبانوں پر ہیں جبکہ وزیرِاعظم امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تلوار سونت کر نکل کھڑے ہیں۔

ساڑھے تین سال گزرنے کے بعد جب وزیرِاعظم کے خلاف قوم کی غالب اکثریت یک زبان ہوئی تو اپوزیشن بھی میدان میں اُتر آئی۔ تلخ حقیقت یہی کہ اگر وزیرِاعظم کو شیروانی سے چمٹے رہنے کا شوق ہے تو اپوزیشن بھی اِسی تگ ودَو میں ہے البتہ اپوزیشن مذہب کی آڑ میں شکار کو نہیں نکلی جبکہ وزیرِاعظم ایک دفعہ پھر مذہبی پیرہن پہن کر میدان میں ہیں۔

آجکل وہ اپنی ہر تقریر میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں۔ حتیٰ کہ اُنہوں نے قوم سے خطاب میں بھی اِسی آیت مبارکہ کا ذکر کرتے ہوئے 27 مارچ کو اسلام آباد پہنچنے کی تلقین کی جہاں وہ جلسے سے خطاب کرنے والے ہیں۔ اُدھر متحدہ اپوزیشن نے بھی اِنہی تاریخوں میں عظیم الشان جلسے کا اعلان کر رکھا ہے جس سے تصادم کا شدید خطرہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اِس آیت مبارکہ کی روح یہی ہے؟

سورۃ آل عمران آیت 104 میں ارشادِ رَبی ہے “تم میں سے کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے”۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا وزیرِاعظم امر بالمعروف و نہی عن المنکرکے اِس

معیار پر پورا اُترتے ہیں؟ وزیرِاعظم کے فرائض تو عام مسلمانوں سے کئی گُنا بڑھ کرہوتے ہیں کیونکہ قوم کی باگ ڈور اُن کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ وزیرِاعظم اپنے آپ کو “برانڈ” بھی کہتے ہیں اور اپنے آپ کو نیکی کا “سِمبل” قرار دیتے ہیں۔ یہ کیسا اسلامی “برانڈ” ہے جس نے پارلیمانی سیاست میں غیرپارلیمانی زبان کو رواج دیا ہے؟ یہ کیسا برانڈ ہے جس کے مقرب ترین افراد وہی ٹھہرتے ہیں جو بدتمیزی، بَدتہذیبی اور گالی گلوچ میں لاثانی ہو جاتے ہیں؟ یہ کیسا برانڈ ہے جو اپنے مخالفین کو سرِعام بُرے القاب سے نوازتا ہے حالانکہ قرآنِ مجید کی سورۃ الحجرات آیت 11 میں بُرے ناموں سے منع کرتے ہوئے رَبِ لَم یَزل نے فرمایا “اور نہ ایک دوسرے کو بُرے ناموں کے ساتھ پُکارو، ایمان کے بعد فاسق ہونا بُرا نام ہے اور جنہوں نے توبہ نہ کی سو وہی اصل ظالم ہیں “۔

وزیرِاعظم کو تحریکِ انصاف کے اتحادی چودھری شجاعت حسین اور کچھ دیگر علماء نے یہی سورۃ مبارکہ پڑھنے کی تلقین بھی کی تاکہ وہ راہِ راست پہ آجائیں لیکن اُن پر اِس کا کچھ اثر نہیں ہوا اور وہ آج بھی اپنے مخالفین کو بُرے القاب ہی سے پکارتے ہیں۔ جس شخص پر قُرآنِ مجید فُرقانِ حمید کے اِس واضح حکم کا کچھ اثر نہیں ہوا وہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تبلیغ وتلقین کیسے کر سکتا ہے۔

حقیقت یہی کہ اِس بدتہذیبی کا نقصان بھی وزیرِاعظم کو ہی ہوااور بات سیاست سے نکل کر ذاتیات تک جاپہنچی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ سچائی کہاں تک ہے لیکن قائدِحزبِ اختلاف میاں شہباز شریف اور مریم نواز نے سرِعام بَنی گالہ میں جادوٹونے کا الزام لگایا ہے۔ میاں شہبازشریف نے عاصمہ شیرازی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا “میں یہ بات بلاخوفِ تردید کہہ رہا ہوں کہ امر بالمعروف کی بات کرنے والوں کے بَنی گالہ میں منوں مُرغی کا گوشت جلایا جاتا ہے۔

پاکستانی عوام دال روٹی اور اُن کے بچے دودھ کو ترس رہے ہیں لیکن دوسری جانب بنی گالہ میں جادوٹونے کے لیے ایسا کام کیا جاتا ہے”۔ مریم نواز نے کہا “لاہور کی فرح نامی ایک خاتون ہے جس کے سارے تانے بانے بَنی گالہ اور جادوٹونے سے ملتے ہیں۔ کوئی پوسٹنگ، کوئی ٹرانسفر اور کوئی تبدیلی کروڑوں روپے سے کم رشوت میں نہیں ہوتی۔ وہ سارے تانے بانے عمران خاں کے گھر سے ملتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ثبوتوں کی بھرمار میڈیا پر دیکھیں گے”۔

مریم نواز نے یہ بھی کہا “صرف پوسٹنگ ٹرانسفرز کے لیے دی گئی رشوت میں 6 ارب سے زیادہ کمایا گیا۔ آنے والے دنوں میں ہوش اُڑا دینے والے ثبوت سامنے آئیں گے”۔ اگر میاں شہبازشریف اور مریم نواز کے یہ الزامات سچ ہیں تو پھر سوال اُٹھتا ہے کہ دینِ مبیں میں تو جادوٹونے کو شیطانی فعل قرار دیتے ہوئے اِس کی سخت ممانعت کی گئی ہے تو پھر کیا وزیرِاعظم امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی بات کرکے دین کی آڑ میں اپنا اقتدار بچانے کی کوشش تو نہیں کر رہے؟ اگر یہ سب غلط ہے (خُدا کرے کہ ایسا ہی ہو) تو پھر وزیرِاعظم کو اپنی اوّلین فرصت میں میاں شہبازشریف اور مریم نواز کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کرنا چاہیے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا ورد کرنے والے وزیرِاعظم کے سیاسی سفر کا جائزہ لیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ اُنہیں صرف اقتدار سے پیار ہے جس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ اپنے دَورِ حکومت کے ساڑھے تین سال میں اُنہوں نے گالم گلوچ کی سیاست کو رواج دیا، اداروں کو کمزور کیا، انتظامی اداروں کو اپنی ذات کے لیے استعمال کیا، نیب اور ایف آئی اے جیسے اداروں کو اپوزیشن کو نشانِ عبرت بنانے کے لیے استعمال کیا، آئین کو الماری میں مقفل کرکے 65 صدارتی آرڈیننسز کے ذریعے کاروبارِ سلطنت چلانے کی کوشش کی، آئینی ادارے الیکشن کمیشن کو پرکاہ برابر حیثیت نہیں دی اور اب اپنے اقتدار کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے کے لیے آئینی بحران پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

آئینی بحران تو خیر اُنہیں پہلے بھی بہت مرغوب تھا۔ 2014ء کے 126 روزہ دھرنے میں وہ اِس کی بھرپور کوشش بھی کر چکے اور اب اُسی جگہ ایک دفعہ پھروہ عوام کو خونم خون دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ آئینی بحران کی صورت میں “کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے” جیسی صورتِ حال پیدا ہو سکے۔ پی ڈی ایم اور تحریکِ انصاف کے قافلے اسلام آباد کی طرف محوِسفر جہاں یہ میدان سجنے والا ہے۔ ملک وقوم سے محبت کرنے والے سبھی اہلِ نظر دست بہ دعا کہ رَبِ کردگار وطنِ عزیز کو نظرِبَد سے بچائے۔

بات امربالمعروف کی نہیں صرف کرسی کی کہ شکست واضح، منحرفین کی کثیر تعداد وزیرِاعظم کے سامنے اور اتحادی بھی پَرے پَرے۔ اِن حالات میں غیض وغضب کا یہ عالم کہ حکومتی وزیر شہریار آفریدی نے کہا “اگر خودکُشی حرام نہ ہوتی تو میں اپنے جسم پر بارود باندھ کر پارلیمنٹ کے سب منافقین کو اُڑا دیتا تاکہ اُن کی بنیاد ہی ختم ہو جائے جو ملک کا سودا کرتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ تمام چینلز یہ چلائیں “۔

Advertisements
julia rana solicitors

چینلز کو یہ بیان چلانے کی مطلق ضرورت نہیں کیونکہ شہریار آفریدی کا یہ پیغام پہلے ہی پوری دنیا میں پہنچ چکا۔ اِس سے پہلے وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خاں بھی ایسا ہی بیان دے چکے۔ اِن بیانات کے بعد اگر عالمی میڈیا ہمیں دہشت گرد قوم قرار دیتا ہے تو ہم اُس کی کیسے تردید کر سکتے ہیں؟

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply