گیارہ برسوں پر محیط 5جولائی 1977/حیدر جاوید سیّد

ہماری نسل کے لوگوں کی زندگیوں میں آئے تاریک دنوں کی تعداد روشن دنوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے لیکن 16دسمبر 1971ء اور 5جولائی 1977ء دو ایسے تاریک دن ہیں جو بھلائے نہیں بھولتے۔ 16دسمبر 1971ء کا حادثہ یا سانحہ بھی عجیب ہے۔ مملکت پاکستان کی مجموعی آبادی کے 61فیصد پر مشتمل صوبہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔

پاکستان کے دو لخت ہونے کی کہانی فقط اتنی ہی ہے کہ ہماری سول و ملٹری اور سیاسی اشرافیہ نے جس کی بھاری اکثریت کا تعلق اس وقت کے مغربی پاکستان سے تھا، مشرقی پاکستان والوں کو برابر کا شہری اور سیاسی و سماجی حقوق کا حقدار سمجھنے کی بجائے تیسرے درجہ کی مخلوق سمجھا۔

یہاں تک کہ پاکستان کے پہلے فوجی آمر اور خودساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان تو تحقیر آمیز انداز میں مشرقی پاکستان والوں کو بھوکا بنگالی کہہ کر تمسخر اڑاتے تھے۔

عدم مساوات نے دوریوں کی خلیج بڑھائی اور پھر باہر والوں کو اپنا اپنا لُچ تلنے کا موقع ملا۔ یوں 16دسمبر 1971ء کے دن مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور یہاں آج بھی اس سانحہ کے حوالے سے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے سارا ملبہ بھارت پر ڈال کر کچھ لوگ اپنی تسکین کا سامان کرتے پھرتے ہیں۔

5جولائی 1977ء وہ تاریک اور منحوس دن ہے جب آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں تیسرا مارشل لاء نافذ کردیا۔ بھٹو کو ضیاء الحق پر اندھا اعتماد تھا اس لئے وہ اپنی حکومت اور جمہوریت سمیت اندھے کنویں میں جاگرے۔

بھٹو ایک جعلی مقدمہ میں 4 اپریل 1979ء کی نماز فجر سے قبل پھانسی چڑھادیئے گئے لیکن جمہوریت کو اس اندھے کنویں سے نکلنے میں 11 سال لگے افسوس کے وہ لولی لنگڑی تھی۔ وہ بھی اگر جنرل ضیاء کا سی ون تھرٹی فضا میں نہ پھٹتا تو اس ملک کے لوگوں کو نجھانے ایسے کتنے جنم اندھے کنوئیں میں گزارنے پڑتے۔

ذوالفقار علی بھٹو 16دسمبر 1971ء کے المناک سانحہ کے بعد اقتدار میں آئے تھے۔ زخم خوردہ ملک اور بے سمت عوام کے لئے انہوں نے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ ان کی جماعت اپنے نظریات کے حساب سے ترقی پسند عوام دوست اور سامراج دشمن جماعت سمجھی جاتی تھی۔ ان کے دور میں 1973ء کا دستور تشکیل پایا۔ 90ہزار قیدی بھارت کی قید سے واپس وطن آئے۔ 11 سے 14 لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو بیرون ملک روزگار کمانے کے مواقع ملے۔

بھٹو نے ہی بھارت کے پہلے ایٹمی دھماکہ کے بعد پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ بڑے انسان تھے سو ان سے جو غلطیاں سرزد ہوئیں وہ “آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے” کے مصداق ثابت ہوئیں۔

1970 کی قومی اسمبلی کے نواب خیر بخش مری اور مخدوم نور محمد ہاشمی سمیت تین چار کے سوا تمام ارکان نے 1973ء کے دستور پر دستخط کئے تھے مگر خود انہوں نے اس میں سات ترامیم کروائیں۔

ان ترامیم کی منظوری میں جس عجلت سے کام لیا گیا اس سے بنتی سنورتی قدم قدم چلتی جمہوریت کے چہرہ پر داغ لگا اور یہ داغ ان کے عدالتی قتل سے کچھ کم تو ہوا لیکن صاف نہیں۔ بھٹو انسان ہی تھے، گوشت پوست کے انسان، ولی کامل یا آسمانی اوتار ہرگز نہیں۔ سو خوبیاں بھی تھیں اور خامیاں بھی۔ ہم ایسے طالب علموں کے نزدیک خوبیوں کا پلڑا بھاری تھا۔

ان کے خون کے پیاسے رجعت پسند خامیوں کا پلڑا بھاری قرار دیتے تھے (آجکل ان کے کچھ پرانے چاہنے والے نئے عشق کے جنون میں انہیں اسٹیبلشمنٹ کا ٹوڈی ثابت کرنے میں جُتے ہوئے ہیں)۔ یہ اور بات ہے کہ بھٹو کے خون کے پیاسے رجعت پسندوں میں سے بعض ان کی پھانسی کے چند سال بعد ان کی بیوہ بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ ایم آر ڈی نامی سیاسی اتحاد میں بیٹھنے پر مجبور ہوئے۔

ہاں جماعت اسلامی ثابت قدمی سے آخری وقت تک فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے نظام اور ذات کے ساتھ کھڑی رہی کہ اس کا دال دلیہ ضیاء کی وجہ سے ہی چلتا رہا۔

5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا۔ 90 دنوں میں اچھے ریفری کے طور پر انتخابات کرواکر واپس جانے کا اعلان کیا لیکن یہ 90 دن 17اگست 1988ء کو تمام ہوئے۔

امریکی ڈالروں اور سول ملٹری اشرافیہ کی پشت پناہی سے بھٹو کے خلاف تحریک چلانے والے پاکستان قومی اتحاد کی بعض جماعتوں نے فوجی اقتدار کے سول حصہ دار کے طور پر وزارتیں بھی پائیں۔ ہمارے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کی پی ڈی پی کو بھی دو وفاقی وزارتیں ملی تھیں۔

گجراتی چودھری ظہور الٰہی بھی وفاقی وزیر بنے اور سکہ بند روایت کے تحت وہ جنرل ضیاء الحق سے کہا کرتے تھے “سانپ اور سندھی دکھائی دیں تو پہلے سندھی کا سر کچلنا چاہیے”۔ چودھری ظہور الٰہی نے اپنے مربی و محسن جنرل ضیاء الحق سے وہ قلم بھی مانگ لیا تھا جس سے ضیاء نے ذوالفقار علی بھٹو کے لئے آئی رحم کی درخواستیں مسترد کرکے پھانسی کے حکم نامہ پر دستخط کئے تھے۔

جنرل ضیاء الحق کے 11سالہ عہد ستم میں مذہبی انتہا پسندی کو رواج ملا۔ ان کے ماتحت اداروں نے فرقہ پرستوں اور لسانی شائونزم کے علمبرداروں کی کھل کر سرپرستی فرمائی۔ جنرل ضیاء کہتے تھے “آئین کیا ہے 32 صفحات کی کتاب، وہ میں نے پھاڑ کر پھینک دی۔ میں جب ہڈی ڈالوں گا سیاستدان کتے کی طرح دم ہلاتے ہوئے میرے پاس آئیں گے”۔

ان کے 11سالہ عہد اقتدار کے تیسرے سال افغانستان میں نور محمد ترکئی کی قیادت میں انقلاب ثور برپا ہوا۔ جنرل کی لاٹری نکل آئی۔ امریکہ سے سعودی عرب اور انڈونیشیا سے مصر تک انسانیت دشمن حکمران ان کے پشت پناہ بنے۔ اس پشت پناہی نے انہیں طاقتور ترین بنادیا۔

ان کی فوجی عدالتوں نے ہزاروں سے زیادہ سیاسی کارکنوں، دانشوروں، شاعروں، ادیبوں، صحافیوں اور دوسرے جمہوریت پرستوں کو ایک سال قید بامشقت سے عمر قید اور پھانسی کی سزائیں سنائیں۔ ان کے دور اقتدار میں ہی 1983ء میں جب ایم آر ڈی نے پاکستان بچائو کے نام سے اپنی سیاسی تحریک کا ڈول ڈالا تو ضیاء کے ماتحت اداروں نے سندھ میں سفاکی و بربریت کے ریکارڈ توڑدیئے۔

5جولائی 1977ء کے مارشل لاء کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ذات برادری، فرقے اور دوسرے تعصبات کے کاروباریوں کی موجیں لگ گئیں۔ جنرل ضیاء نے افغانستان میں لڑی گئی سوویت یونین، امریکہ کی جنگ میں پاکستان کو فرنٹ لائن سٹیٹ بنادیا۔ دنیا بھر سے جہادی بھرتی کرکے لائے گئے۔ اس جہادی کلچر کی کوکھ سے فرقہ وارانہ جہاد کی بیماری نے جنم لیا۔

آج کے تکفیری طالبان ہوں یا کالعدم فرقہ پرست عسکریت پسند تنظیمیں ان کی بوئی ہوئی فصلیں ہیں جو کاٹے نہیں کٹ رہیں۔ ان کے دور میں ہی گریڈ 17کے سرکاری ملازم نے لشکر طیبہ کے نام سے جہادی تنظیم قائم کی۔

جن مولویوں کے اباوں نے کبھی سائیکل خریدنے کی “ہمت” نہیں کی تھی وہ لینڈ کروزروں پر گھومنے لگے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات نے سیاسی ورکرز کے کلچر کا خاتمہ کردیا۔ اسی انتخابات کی کوکھ سے سیاسی کرپشن کا وہ سیلاب پھوٹا جس کے آگے بند باندھنا بہت مشکل ہوچکا۔

Advertisements
julia rana solicitors

5 جولائی 1977ء کے تیسرے مارشل لاء نے جو جن بوتلوں سے نکالے وہ اب دندناتے پھررہے ہیں۔ انسان سازی کی جگہ دولے شاہ کے چوہے تخلیق کرنے کا کاروبار آج بھی عروج پر ہے۔ دولے شاہ کے ان مذہبی، سیاسی، صحافتی، ادبی اور دوسرے شعبوں کے چوہوں نے ہمارا جو حال بنارکھا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کاش 5جولائی 1977ء کا منحوس دن ہماری تاریخ میں نہ آتا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply