کسان آئے ہیں ، جی آیاں نوں/آصف محمود

رات بلیو ایریا کی طرف بڑھا تو پولیس نے روک دیا۔ آگے احتجاج ہو رہا تھا۔ انتہائی کوفت اور اذیت کے احساس کے ساتھ میں نے عرض کی کہ کون احتجاج کر رہا ہے؟ جواب ملا: کسان۔

اس جواب میں جانے کیا جادوئی اثر تھا کہ تکلیف اور اذیت کا احساس خوشی میں تبدیل ہو گیا۔ اس ملک کا عام آدمی عمران کی سمارٹ نس ، زندہ بھٹو کی کرامات اور شرافت کی سیاست کی قصیدہ خوانی سے بالاتر ہو کر اگر اپنے مسائل کے لیے باہر نکل ہی آیا تھا تو اس سے مبارک چیز اور کیا ہو سکتی ہے۔ میں ان لوگوں کو دیکھنے چلا گیا جو کسی کی مجاوری کی بجائے اپنے حق کے لیے نکلے تھے ۔ جو کسی رہنما کے حصے کے بیوقوف نہیں تھے ، جو اپنے حصے کے دانا تھے۔ تب سے اب تک بہت سے سوالات دوویوار دل پر دستک دیے جا رہے ہیں۔

میں یہ سوال آپ کے سامنے بھی رکھ دیتا ہوں شاید مل جل کر ہم یہ گتھی سلجھا سکیں۔

اسلام آباد میں کسانوں کا احتجاج کیا بدلتے موسموں کی خبر دے رہا ہے؟ کیا ہم یہ سمجھیں کہ سیاست پیچھے رہ گئی اور معاشرہ آ گے بڑھ گیا؟ کیا یہ اس بات کی علامت ہے کہ اہل سیاست صرف اپنے گروہی مفادات کے اسیر ہو کر رہ گئے ہیں اور معاشرے کے حقیقی مسائل سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں؟ کیا یہ اس بات کی علامت ہے کہ معاشرے کے کسی بھی طبقے کو اپنا حق لینے کے لیے اہل سیاست کی طرف دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ اس سے کوئی فائدہ حاصل ہونا نا ممکن ہے؟ کیا اس سے یہ سوال بھی پیدا ہو رہا ہے کہ یہ لوگ جو تجوری کی بنیاد پر ایوانوں میں جا بیٹھتے ہیں یہ عوام کے نمائندے ہی نہیں؟ کیا پارلیمان میں عوامی نمائندگی کے تعین کا کوئی نیا فارمولاسوچنے کی ضرورت ہے یا ملک کے یہ ایک فیصد طبقہ ہی اپنی دولت کی بنیاد پر باقی کے ننانوے فیصد کا نمائندہ بنا رہے گا؟ کیا جاگیردار کسی ہاری کا نمائندہ ہو سکتا ہے؟ کیا سرمایہ دار کسی مزدور کی نمائندگی کا حق رکھتا ہے؟ کیا چند مخصوص گھرانوں کی خواتین کو مخصوص نشستوں پر قومی اسمبلی میں لا بٹھانے سے وہ عوام کی نمائندہ بن جاتی ہیں؟ کیا ہر طبقے کو اپنا حق لینے کی جدوجہد اہل سیاست سے بے نیاز ہو کر خود کرنا ہو گی؟ کیا وجہ ہے کہ ایک زرعی ملک میں کسان اور زراعت کو بے یارومددگار چھوڑ دیا گیاہے؟ ایسا کیوں ہے کہ کسانوں کی محرومیاں قومی سیاسی بیانیے میں کہیں کوئی جگہ نہیں بنا سکیں؟ قومی سیاست جب گفتگو کرتی ہے تو اس کے موضوعات صرف اس کے مفادات کے گرد کیوں گھومتی ہیں؟ کیا سیاست صرف مفاد پرستی اور بد زبانی کا نام رہ گیا ہے؟ اسلام آباد میں اتنے بڑی تعداد میں کسانوں کا احتجاج مین سٹریم میڈیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کیوں نہیں کرواسکا؟ کیا یہ کسان ہینڈ سم نہیں تھے یا ان کے ساتھ کوئی ڈی جے  بٹ نہیں تھا اس لیے ، یا ان کے ووٹ کو عزت دو کے نام پر جملہ انجمن ستائش باہمی کی معاشی ضروریات پورے کرنے کا کوئی ’ چپ چاپ‘ سا انتظام نہیں تھا ،اس لیے؟

اسی بلیو ایریا میں ایک شخص اپنے اہل خانہ کے ساتھ سڑک پر مسلح پایا گیا تو مسلسل اس کی کوریج ہوئی ، یہاں تک کہ وہ رفع حاجت کو جھاڑیوں میں گیا تو فرط جذبات سے ایک نیوز اینکر نے دعوی کر دیا ناظرین یہ مناظر اس وقت صرف ہم اپنی سکرین پر آپ تک پہنچا رہے ہیں۔لیکن اتنی  بڑی تعداد میں کسان آئے تو کوئی کوریج ہی نہیں ، کوئی لائیو شو نہیں ہوا۔ ایسا کیوں ہے؟

کوریج لینے کے آداب کیا ہیں اور کوریج دینے کے معیارات کیا ہیں؟ کسانوں کے احتجاج میں آخر کس چیز کی کمی تھی کہ آزاد میڈیا کی نگاہ التفات کا وہ مستحق نہ بن سکا؟ کیا آزاد صحافت اس قوم کی رہنمائی فرما سکے گی کہ وہ کون سا اصول ہے جو کسی جلسے یا احتجاج کو کوریج دینے ، نہ دینے اور کتنی کوریج دینے جیسے سوالات کا جواب فراہم کرتا ہے؟ کہیں تو درجن بھر لوگ ہوں تو میڈیا ان پر صدقے واری جا رہا ہوتا ہے اور کہیں ایک کثیر تعداد میں لوگ احتجاج کر رہے ہوں تو میڈیا ایک کونے میں دہی کے ساتھ کلچہ کھانے لگ جاتا ہے؟ محبوب اور میڈیا کی نگاہ التفافات کے آداب اور پیمانے آخر کیا ہیں؟ اس کا تعلق رومان سے ہے ، معیشت سے ہے یا رونق محفل سے ہے؟بے چارے کساان نہ رومان رکھتے ہیں نہ معیشت اور نہ ہی ان کے پاس کوئی رونق محفل ہے۔دیہاتی ، پینڈو ، اور سادہ سے لوگ ، میڈیا بھی شاید سوچتا ہو گا کہ اب یہاں آخر کیا دکھائے کیوں دکھائے اور کس کو دکھائے؟ زراعت پر بات کرنا آؤٹ آف فیش سمجھا جاتا ہے۔ ہم ایک زرعی ملک ہیں لیکن ہمارے مین سٹریم میڈیا میں زراعت اور اس کے مسائل اور امکانات پرکتنی بات ہوتی ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

ذرا غور کیجیے ، یادداشت پر زور دیجیے اور بتائیے کہ کیا کبھی ایسا ہوا کہ اہتمام کے ساتھ اس نکتے پر کوئی ٹاک شو ہوا ہو ، کوئی پریس ٹاک ہوئی ہو یا پارلیمان میں کوئی سیشن ہوا ہو کہ ایک زرعی ملک کو زراعت کی دنیا میں کون کون سے چیلنج در پیش ہیں اور اس کے سامنے امکانات کیا ہیں؟ یہاں معاملات ہی اور ہیں۔ یہاں بے نیازیاں ہی الگ ہیں۔ جن کے پاس ابھی تک پاسپورٹ بھی نہیں ہے وہ بھی امور خارجہ کی گتھیاں سلجھانا قومی ذمہ داری سمجھتے ہیں، کوئی دفاعی امور کا ماہر ہے کوئی سفارتی امور کا لیکن اس زرعی ملک میں کوئی ایک ایسا آدمی بتا دیجیے کہ جس کا عمومی تعارف یہ ہو کہ یہ زرعی امور کا ماہر ہے اور اس مہارت کے ساتھ اسے قومی ذرائع ابلاغ میں بات کہنے کا موقع دیا جاتا ہو۔ اسی زراعت کی وجہ سے ہم بڑے سے بڑے بحران سے نکل جاتے ہیں کہ کم از کم فوڈ سیکیورٹی کا مسئلہ کھڑا نہیں ہوتا۔ ہم نے سیٹھوں اور طاقتوروں کی ہائوسنگ سوسائٹیوں کے لیے زمین ہتھیانے کا قانون بنا لیا اور دل چسپ بات یہ ہے کہ لینڈ ایکوی زیشن کا یہ نکتہ کمال ’ ہوشیاری‘ سے آئین میں بھی شامل کر دیا تا کہ کسی موقع پر یہ مال غنیمت غیر آئینی قرار نہ دیا جاسکے لیکن زراعت کی بقاء اور بہتری کے لیے ہم کچھ نہ کر سکے۔ دیہی علاقوں سے آئے اراکین پارلیمان بھی دلچسپی کے میدان میں زراعت کی بجائے سپیس سائنس لکھ دیتے ہیں تا کہ کوئی انہیں پینڈو نہ سمجھ بیٹھے۔ جس زرعی ملک میں پینڈو کا لفظ تضحیک کے لیے استعمال ہوتا ہو اس کو اپنا انجام جاننے کے لیے سرشام کسی نیم خواندہ سنیئرتجزیہ کار کا تجزیہ سننے کی کوئی حاجت نہیں رہتی۔اس کا نامہ اعمال ہی اس کے لیے نوشتہ دیوار بن جاتا ہے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply