اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے /بلال حسن

زندگی محض  سیکھنے  اور آگے بڑھنے کا نام ہے، انسان حیوان چرند پرند سب زندگی کے ہر گزرتے پل کے ساتھ بس سیکھتے ہی رہتے ہیں اور جس پل انہیں زندگی گزارنے کے راز معلوم ہوجاتے ہیں اس پل انکی موت واقع ہوجاتی ہے.

اب چونکہ میرا شمار بھی انسان میں ہوتا ہے اور الحمد للہ اللہ نے عقل و شعور سے بھی نوازا ہے تو میں بھی باقی انسانوں کی طرح ہر وقت سیکھنے کے عمل میں ہی رہتا ہوں.
اور اسی عمل کے دوران میں نے اپنی بہت سی پرانی سوچ و نظریات کو بھی مزید واضح، اور کہیں کہیں بہت حد تک وسیع تر ہوتے محسوس کیا ہے.

مثلاً پہلے مجھے لگتا تھا کہ میڈیا پر بتائی جانے والی ہر بات درست ہے پھر معلوم پڑا کہ وہ اکثر اوقات فلٹرڈ سچ دکھاتا ہے، اور کئی چینل تو باقاعدہ پارٹی کے اسپوک پرسن بنے ہوتے ہیں.

اسی طرح گزشتہ چند روز پہلے رونما ہونے والے واقعے سے مجھے میرا ایک نظریہ کچھ حد تک غلط لگا،
اکتوبر 2018 کو میرا ایک بلاگ اسی ویب سائٹ پر شائع ہوا تھا    جس میں مَیں نے نظریہ پاکستان کو بھلانے اور یاد نہ رکھنے کا ذمہ دار صرف نوجوانوں کو ٹھہرایا تھا، مگر افسوس !میں غلط تھا.
کاش میں اس بات کو آج یوں بیان کر رہا ہوتا کہ افسوس میں غلط تھا اور لوگوں کو نظریہ پاکستان آج بھی یاد ہے مگر فی الحال معاملہ اس کے برعکس ہے.
نظریہ پاکستان یقیناً قائداعظم کا اس وطن عزیز کو لے کر نظریہ تھا جس کو بنانے کے  لئے وہ دن رات کوشاں تھے مگر اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نظریہ پاکستان کے پیچھے بہت سے اکابرین، دانشور اور ہمارے محسنین کا کردار شامل تھا جو آزادی کی جدوجہد میں قائد کے ساتھ تھے یا پھر آزادی کے بعد اس وطن کے استحکام کے لئے کام کرر ہے تھے.

سرسید احمد خان، لیاقت علی خان، مولوی عبدالحق یہ وہ نام ہیں جن کو تاریخ سے مٹایا نہیں جا سکتا.

سرسید کے بارے میں تو غالب گمان یہ بھی ہے کہ اصل دو قومی نظریے کی بنیاد انہوں نے ہی رکھی تھی بعد میں جس کے تحت ایک الگ ریاست کا مطالبہ کیا گیا.
مگر کیا ہی ستم ہے کہ آج کے  نوجوانوں کو چھوڑیے بلکہ ہمارے بزرگ اور بزرگ بھی وہ  جو تعلیم کے شعبہ سے وابستہ ہیں وہ بھی ان اکابرین کی قدر کرنا بھولتے جا رہے ہیں.

چند روز قبل ملک کی سب سے بڑی جامعہ،   کراچی کی آرٹس لابی سے ان کے دہائیوں پرانے خاکوں کو انتظامیہ کی طرف سے وائٹ واش کردیا گیا.
یہ بات تو ہے ہی افسوس کی مگر بعد ازاں یہ بھی اطلاعات ملیں  کہ انتظامیہ کی طرف سے انتہائی بیہودہ بہانہ پیش کیا گیا کہ رنگ برنگی دیوار اچھی نہیں لگتی.

یا خدا اب کہاں کہاں سر جا کر ماروں کہ وال آرٹ جسے پوری دنیا میں پذیرائی ملتی ہے اور لوگ شہر گلی کوچوں کی خوبصورتی کے لئے کرواتے ہیں اس وال آرٹ کو رنگ برنگی دیوار کہنا وہ بھی شعبہ آرٹس کی ہی جانب سے انتہائی تشویشناک اور مضحکہ خیز بات ہے.اور سونے پر سہاگہ یہ کہ اسی لابی میں پھول پتیوں کے خاکوں سے سجی دیواریں موجود ہیں مگر رنگ برنگی دیوار کہہ کر اس دیوار کو ہی وائٹ واش کیا گیا جہاں اکابرین، بانیان و محسنین پاکستان کی تصاویر بنی ہوئی تھیں.

میں نظریہ پاکستان سے محبت نہ کرنے اور اس نظریے سے دور ہونے کا جو الزام صرف نوجوانوں پر عائد کرتا آرہا تھا اس پر آج شرمندہ ہوں… اس کی دو وجوہات ہیں پہلی یہ کہ اب یہ واضح ہے کہ ہمارے بزرگ اور اساتذہ بھی کہیں ذاتی یا کسی بھی قسم کے مفاد یا لاپروائی کی وجہ سے نظریہ پاکستان اور اپنے محسنین کو بھلاتے جا رہے ہیں ۔..

دوسری وجہ یہ کہ میں نے اس معاملے پر جتنا غم و غصہ نوجوانوں میں دیکھا اور پھر فی الفور ان کی طرف سے واپس ان تصاویر کا اسی دیوار پر لگنا دیکھا تو مجھے احساس ہوا کہ شاید نوجوان تو نظریے کو آہستہ آہستہ جان رہے  ہیں مگر ہمارے بزرگ و اساتذہ بھولتے جا رہے  ہیں.

کاش ہم یہ بات سمجھ پائیں کہ جو قوم اپنی تاریخ اور محسنین کو بھلا دیتی ہے وہ کبھی ترقی نہیں کر پاتی

اسی لئے اقبال عظیم صاحب نے کیا خوب لکھا ہے کہ

اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے
خواب ہو جاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤ گے

اپنے پرچم کا کہیں رنگ بھلا مت دینا
سرخ شعلوں سے جو کھیلو گے تو جل جاؤ گے

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply