پیارے پڑھنے والو
گذرے چند پل بھی یاد گار تھے موسم نے ایسے رنگ بدلے یوں کروٹ لی کہ آنکھوں کو یقین ہی نہ آیا
ایک گرم ترین دن آگ برساتا سورج حبس ایسا کہ سانس بند
اچانک پورب سے اٹھنے والی کالی گھٹائیں امڈ امڈ کے چھائیں ٹھنڈی تیز ہواؤں نے رحمت کی نوید سنائی اور پھر ابر کرم ٹوٹ ٹوٹ کے برسا
جونہی بارش کا زور ٹوٹا بادلوں کی اوٹ سے سورج جھانکنے لگا
رم جھم پڑتی پھوار میں سورج کی کرنوں کا اٹھکھیلیاں کرتی چند شرارتی بوندوں سے ملاپ ہوا تو دھنک کے سارے رنگ نیلے آسمان پر قوس قزح بن کر چھا گئے
بالکل ایسے جیسے کوئی حسینہ روتے روتے اچانک ہنس پڑے
جتنے تھے تیرے مہکے ہوئے آنچلوں کے رنگ
سب تتلیوں نے اور دھنک نے اڑا لئے
ہم نا شکرے نہیں ؟
فطرت اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ سولہ سنگھار کئے ہمیں اپنی اور بلاتی ہے
اپنی آغوش میں لے کر ہمارے بالوں میں انگلیاں پھیرنے کو بے چین
دنیا داری کے جھمیلوں سے ذرا دیر آزاد کر کے ہمیں پیار کی لوریاں دینے کو بے تاب
مصور کائنات نے ہماری دل جوئی کے کتنے سامان پیدا کر رکھے ہیں
اس کے ان جلووں سے ان رنگوں سے منہ موڑنا کفران نعمت نہیں کیا ؟
کیسے میں تیرے فکر کی تصویر بناؤں
سو رنگ ہیں تیرے کیا رنگ میں تیرا سامنے لاؤں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں