حج 2022/ڈاکٹر راحیل احمد

پچھلے سال مئی 2022 کے آغاز میں امی جان نے ہم تینوں بھائیوں سے کہا کہ وہ حج پر جانا چاہتی ہیں۔ نبیل، سجیل اور میں نے ان سے کہا ٹھیک ہے امی، آپ کب جانے کا سوچ رہی ہیں۔۔ اگلے سال یا اس سے اگلے سال؟

امّی کا جواب سن کر ہم حیران ہوں گئے: “بچوں میں اس سال جانا چاہتی ہوں، یعنی دو ماہ میں”۔

نبیل, سجیل اور میں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔۔ مسکرائے   اور بولے امی جان اس سال حج میں دو ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ ہم ہسپتالوں سے چھٹی کیسے لیں گے۔ حج کی تیاریاں کیسے ہوں گی۔

“یہ تم لوگوں کو فیصلہ کرنا ہے۔ میں نے اس سال ہی حج کرنا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ میرا ایک بیٹا میرے ساتھ جاۓ۔ اگر میں اس سال نہ  گئی اور مجھے پھر کچھ ہو گیا تو آج کا دن یاد کرتے رہو گے ساری زندگی۔ “

یہ سن کر ہم تینوں ہل گئے۔ اب احساس ہوا کہ یہ معاملہ امی جان کے لئے کافی سیریس تھا۔ امی کی یہ خواہش پوری کرنا بہت ضروری تھا۔

سجیل اور نبیل اپنے کام میں بہت مصروف تھے اور انہیں چھٹی نہیں مل سکتی تھی۔ میں اپنی پی ایچ ڈی کے پہلے سال میں تھا اور وقت نکال سکتا تھا۔ چنانچہ میں نے امی سے عہد کیا کہ میں اسی سال ان کے ساتھ حج پر جاؤں گا انشاللہ۔

نبیل بھائی نے میرے اور امی دونوں کے لیے برطانیہ سے حج پیکج بک کروا دیا جس کا خرچہ 24 ہزار پاؤنڈ تھا۔ مجھے یاد ہے کہ مئی کے آخری ہفتے میں جمعہ کی نماز پڑھتے ہوئے میں دعا کر رہا تھا۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس سال مجھے حج کا موقع ملا ہے۔ لیکن میں نے دعا میں یہ شکوہ بھی کر ڈالا کہ اللہ میاں آپ کے گھر آنا اتنا مہنگا نہیں ہونا چاہیے۔ مغرب کے لوگوں نے حج کو کاروبار بنا دیا ہے۔

ایک ہفتے بعد سعودی عرب نے اعلان کیا کہ مغربی دنیا کی تمام حج ایجنسیوں کو 2022 میں حج کروانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

اب مغربی مسافروں کو انفرادی طور پر قرعہ اندازی کے ذریعے حج کی بکنگ کروانی ہوگی۔ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں تھی کہ ایک ہی خاندان کے دو افراد اکھٹے حج کر سکیں ۔ یہ تبدیلیاں کوویڈ کے بعد کی گئیں تھی۔

میں نے یہ خبر اپنی امی تک پہنچائی تو وہ بہت غمگین ہوئیں۔ وہ اس بات پر بضد تھیں کہ وہ 2022 میں حج کرنا چاہتی ہیں۔ اتفاق سے ڈاکٹر آصف نے اس دن مجھ سے بات کی۔ وہ ابو جان کے  دوستوں میں سے تھے جو پہلے برطانیہ میں ڈاکٹر تھے لیکن اب پاکستان میں کام کر رہے تھے۔ میں نے انہیں صورتحال کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھی اس سال حج پر جا رہے ہیں لیکن پاکستانی حج ایجنسی سے۔ پاکستانی حج ایجنسیوں کو حج پر جانے میں کوئی پابندی نہیں تھی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں پاکستانی پاسپورٹ کے ذریعے پاکستان سے حج پر جانا چاہتا ہوں؟ میں نے کہا کہ یہ تو بہترین ہو جاۓ گا۔ حج کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بھی دو چکر لگ جائیں گے۔ بقول ابو جان کے دوست کرنل علی کاشف کہ پاکستانی پاسپورٹ وہ کھوٹا سکہ ہے جو کبھی کبھی کام آ جاتا ہے۔

پاکستانی حج ایجنسی کے ایجنٹ نے مجھ سے رابطہ کیا اور میں نے تصدیق کی کہ میں اور میری والدہ ان کے ساتھ حج پر جانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا اپنے پاکستانی پاسپورٹ ہمیں بھیج دیں۔ میں اپنے پاکستانی پاسپورٹ چیک کرنے گیا تو پتا چلا وہ دو سال پہلے expire ہو چکے تھے۔ میں نے پھر سوچا لگتا ہے اس سال ہم حج نہیں کر سکتے۔ ہم برطانیہ سے نہیں جا سکتے۔ ہم پاکستان سے نہیں جا سکتے کیونکہ ہمارے پاسپورٹ expire ہو چکے ہیں۔ 3 ہفتوں میں حج شروع ہو رہا تھا۔

اگلے دن میں مانچسٹر میں ایک ریسرچ کانفرنس میں شریک تھا اور مجھے یاد آیا کہ ابو جان کے ایک طالب علم پاکستان میں بیوروکریٹ ہیں۔ میں نے انہیں فیس بک پر میسج کیا اور اس مسئلے کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہمارے پاکستانی پاسپورٹ کو renew کروانے میں مدد کر سکتے ہیں اور مجھے اپنی والدہ کے ساتھ مانچسٹر میں پاکستانی سفارت خانے جانے کا مشورہ دیا۔ ہم نے ایسا کیا۔ ایک ہفتے بعد ہمارے پاکستانی پاسپورٹ renew ہو گئے اور براہ راست مانچسٹر پہنچ گئے۔

ایک ہفتے بعد امی اور میں پہلے لاہور گئے۔ دو دن بعد ہم لاہور سے جدہ کے لیے حج کے لیے روانہ ہوئے۔ پاکستان سے حج کا سارا خرچہ برطانوی حج ایجنسی کے مقابلے میں ایک چوتھائی تھا۔ تجربہ بھی لاجواب تھا۔

جہاں چاہ وہاں راہ۔ یہ بھی سچ ہے کہ جب اللہ اپنے گھر بلاتا ہے تو جہاں رکاوٹیں آتی ہیں وہیں اللہ ان رکاوٹوں کو ہٹا بھی دیتا ہے۔ میں اپنے اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے 31 سال کی عمر میں حج کرنے کا موقع دیا اور وہ بھی میری والدہ کے ساتھ۔ اللہ تعالی سب سے اکبر ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

عرفات کا دن اور مزدلفہ کی رات انتہائی خوبصورت اور یادگار رہی جس کا ہر گزرتا لمحہ میدان حشر کے قرین قیاس ہے اور اس کا ڈوبتا اور چڑھتا سورج حجاج کی توبہ اور آہ  و بکا  سن رہا ہے ، جس دن حج مبرور والوں سے بخشش کا وعدہ ہے لیکن کیا پتہ وہ کون خوش نصیب ہیں۔
لبیک اللھم لبیک!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply