قربانی ایک تحقیقی مطالعہ(4)-انور مختار

بدھ مت میں قربانی کا تصور موجود نہیں۔ بلکہ بدھ مت سرے سے قربانی کی مخالفت کرتا ہے۔بدھ مت کے نزدیک کسی انسان یا دیگر جانداروں کی قربانی جائز نہیں۔بدھ مت کے بانی لارڈ بدھا جانوروں کو قربان کرنے کے خلاف تھے۔ان کا کہنا تھا کہ تمام جاندار ہماری محبت کے حق دار ہیں۔
بدھا کے زمانے میں برہمنوں کی جانب سے مختلف طریقوں سے قربانی کا عمل کیا جاتا تھا۔ بدھا اس قربانی کو کوئی اہمیت دینے پر تیار نہ تھے کیونکہ ان کے نزدیک یہ محض دکھاوے کی رسومات تھیں۔ان کے نزدیک اگر کوئی صححیح قربانی ہوسکتی ہے تو وہ اپنے ’’اندر‘‘ یا روح سے دی جانے والی قربانی ہے۔بدھا کا کہنا تھا:
اے برہمن ، میں لکڑی ڈال کر آگ نہیں جلاتا
میں صرف اندرکی حرارت سے آگ جلاتا ہوں
جانوروں کی قربانی مختلف مذاہب میں دیوتائوں کو خوش کرنے اور موسم میں تبدیلی لانے کی استدعا کے طور پر دی جاتی تھی۔یہ قربانی لگ بھگ تمام مذاہب کے پیروکاروں جیسے عبرانیوں ، یونانیوں ، رومنوں ، قدیم مصریوں ، مایا، ایزٹک کے ہاں دی جاتی رہی ہے۔
Human sacrifice
Human sacrifice is the act of killing one or more humans as part of a ritual, which is usually intended to please or appease gods, a human ruler, an authoritative/priestly figure or spirits of dead ancestors, and/or as a retainer sacrifice, wherein a monarch’s servants are killed in order for them to continue to serve.
انسانی قربانی
انسانی قربانی ایک رسمی حصے کے طور پر ، ایک سے زیادہ انسانوں کو ہلاک کرنے کا فعل ہے ، عام طور پر کسی دیوتا کو پیش کرنے کے طور پر۔ پوری تاریخ میں مختلف ثقافتوں میں انسانی قربانی کا اطلاق ہوتا رہا ہے۔ متاثرین کو عام طور پر اس طریقے سے ہلاک کیا جاتا تھا جس میں معبودوں ، روحوں یا میتوں کو خوش کرنا یا راضی کرنا تھا ، مثال کے طور پر کسی فرضی پیش کش کے طور پر یا اس کے خادم کی قربانی کے طور پر جب کسی بادشاہ کے نوکروں کو اپنے آقا کی خدمت جاری رکھنے کے لئے ہلاک کیا جاتا ہے۔ اگلی زندگی کچھ قبائلی معاشروں میں بہت قریب سے پائے جانے والے عمل نسبت پسندی اور ہیروئنٹنگ ہیں۔
آہستہ آہستہ ، مذہب میں وابستہ واقعات (محوری دور) کے ساتھ ، پوری دنیا میں انسانی قربانیوں کو کم جانا پڑتا جارہا تھا ، اور کلاسیکی قدیم دور میں اسے وحشی سمجھا جاتا تھا۔ تاہم ، نئی دنیا میں ، امریکہ کی یورپی نوآبادیات تک انسانی قربانیوں کا سلسلہ مختلف درجوں تک وسیع پیمانے پر جاری رہا۔
جدید دور میں ، یہاں تک کہ جانوروں کی قربانی کا رواج بھی بہت سارے مذاہب سے غائب ہوچکا ہے ، اور انسانی قربانی انتہائی نایاب ہوچکی ہے۔ زیادہ تر مذاہب اس عمل کی مذمت کرتے ہیں ، اور جدید سیکولر قوانین اسے قتل سمجھتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں جو انسانی قربانی کی مذمت کرتا ہے ، رسم قتل کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
ہم دونوں (ہیتومیتسوکو)۔ خدا کے قہر کی حوصلہ شکنی کے لئے انسانوں کو قربانی دینا ۔ یہ قدیم اورینٹ ، ہندوستان ، میکسیکو ، چین وغیرہ میں منعقد ہوتا ہے۔ ہر ایک جگہ پر مختلف مقامات پر داستانیں موجود ہیں جن میں خدا کے لئے انسان کو قربان دکھایا جاتا ھے
جانوروں کی قربانی سے بہت پہلے انسانوں کو قربان کیے جانے کا تصور قدیم ادوار میں موجود رہا ہے۔حتیٰ کہ سولہویں صدی میں جنوبی امریکا کے ایزٹک دور میں انسان کو قربان کیا جاتاتھا۔انسانوں کو قربان کرنے کا مقصد دیوتائوں اور ارواح کو خوش کرنا ہوتا تھا۔اس کے علاوہ کسی نئے مندریا پل کی تعمیر کے موقع پربھی انسانی قربانی دی جاتی تھی۔کسی بادشاہ ، عظیم پیشوا یا لیڈر کی موت پر بھی انسانوں کی قربانی دی جاتی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ مرنے والے کی خدمت کے لیے اس کے ساتھ جاسکیں۔کسی بڑی آفت جیسے خشک سالی ، زلزلے ، آتش فشاں پھٹنے کی وجہ سے بھی انسانوں کو قربان کیا جاتا تھا تاکہ دیوتائوں کی ناراضگی ختم ہو۔
کولمبین دور سے قبل امریکا کے وحشی قبائل میں بڑے پیمانے پر انسانوں کی قربانی دی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر ایزٹک قبائل سورج کو طلوع ہونے پر ’’تیار‘‘ ہونے یا کسی عظیم مندر کی تعمیر کے موقع پر انسانوں کی قربانی دیا کرتے تھے۔اس موقع پر ایک انسان کے بجائے سیکڑوں انسانوں کی قربانی دی جاتی تھی۔ یہ لوگ عام طور پر دشمن قبیلے کے ہوتے تھے۔ ہسپانوی مہم جوئوں نے جب میکسیکو کو فتح کیا تو بڑی تعداد میں ہسپانوی لوگوں کو وحشی قبائل نے پکڑلیا۔ وہ ان کی قربانی دینے والے تھے لیکن انھیں بچالیا گیا۔ سکینڈے نیویا اور جرمن قبائل کے غیرالہامی مذہب کے پیروکار انسانی قربانی کی رسم ادا کرتے تھے۔
اس طرح الہامی مذاہب سے قبل کے یونان کے مختلف خطوں میں انسانی قربانی کا تصور تھا اور اس سلسلے میں آثار قدیمہ سے ملنے والی باقیات کو شواہد مانا جاتا ہے۔قربانی کے لیے بچوں اور نوجوان مرد اور عورتوں کو استعمال کیا جاتا تھا۔کریٹ کے قلعے سے ملنے والی بچوں کی ہڈیوں سے پتہ چلتا ہے کہ انھیں ذبح کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ ایتھنز سے ایسے شواہد ملے ہیں جن سے ان روایات کی تصدیق ہوتی ہے کہ وہاں پر منوٹار دیوتا کو خوش کرنے کے لیے سات نوجوان مردوں اور سات نوجوان عورتوں کو قربانی کے لیے کریٹ بھیجا جاتا تھا۔اس طرح سمندروں کے دیوتا ’’پوسیڈن‘‘کو خوش کرنے کے لیے بھی انسانی قربانی جیسا قبیح فعل رائج تھا اس کے علاوہ بچوں کی قربانی کا مقصد کسی معبود کی رضامندی یا کسی مافوق البشر جان دار کی خوش نودی حاصل کرنا ہے کہ تاکہ کوئی مطلوبہ نتیجہ حاصل ہو سکے۔ یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے انسانوں کی قربانی ہے۔ اس رسم کو پوری تاریخ میں قابل لحاظ حد تک تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور یہ بہ طور ان اصحاب کے لیے ایک ہتھیار کا کام کرتا ہے جو مذہب کی تنقید سے جڑے ہوئے ہیں۔ بچوں کی قربانی اُس خیال کی انتہائی توسیع سمجھی گئی ہے اور اس کا اہم عنصر جو قربانی ہے، اس کا انجام دینے والا اپنے آپ میں عقائد کی رو سے خدا ترس سمجھا جاتا ہے۔ بچوں کی قربانی کی تاریخ ہزاروں سالوں سے چلتی آئی ہے۔ یہ کئی ملکوں کو تہذیبوں میں رائج رہی ہے۔ چوں کہ بچے عمومًا اپنا دفاع خود نہیں کرتے، اس لیے بالغوں کے مقابلے یہ عمل ان بچوں کے لیے سہل ہے۔ تاہم اس رسم و رواج میں ماں باپ کی کئی بار مرضی شامل رہی بھی اور کبھی کبھی یہ عمل جبری طور پر بھی انجام پایا ہے جس میں ماں باپ کی مرضی کا کچھ عمل دخل نہیں تھا۔ حالاں کہ بیشتر ممالک میں یہ رسم اب مفقود ہے، تاہم بھارت جیسے کچھ ممالک میں یہ رسم آج بھی گاؤں دیہاتوں اور قبائل میں پائی جاتی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی بچوں کی قربان گاہ کی دریافت 2011ء میں پیرو میں ہوئی۔ اس مقام پر شاید 140 بچوں کو قربان کیا گیا تھا۔ ماہرین کے مطابق قربان کیے جانے والے ان بچوں کی عمر پانچ سے 14 برس کے درمیان تھی۔ اسی طرح کے شواہد قدیم میکسیکو میں بھی ملے۔
اس کے علاوہ پیرو کے شمالی ساحلی علاقے میں محقق جان ویرانو نے ایک اجتماعی قبر دریافت کی ہے جس میں اندازوں کے مطابق 550 سال بچوں کی قربانی دے کر انھیں دفن کیا گیا تھا۔ یہ دریافت شہر تروہیلو کے قریب کی گئی ہے جو کہ قدیم شمئو تہذیب کے وسطیٰ مقام کے قریب ہے۔ ان بچوں کے ساتھ سو لاماز کو بھی وہاں دفنایا گیا تھا اور بظاہر یہ سب ایک ہی موقعے پر ہلاک کیے گئے تھے۔ نیشنل جیوگرافک کی جانب سے اعلان کردہ اعداد و شمار کے مطابق قربان کیے گئے یہ 140 بچے 5 اور 14 سال کی عمر کے درمیان تھے تاہم ان میں سے زیادہ کی عمریں 8 سے 12 کے درمیان تھیں۔ بہت سے بچوں کے جسم پر شوخ لال رنگ بھی لگایا گیا تھا اور قوی امکان ہے کہ یہ قربانی کی رسم کا ایک حصہ تھا۔ بہت سے بچوں کے جسم پر شوخ لال رنگ بھی لگایا گیا تھا اور قوی امکان ہے کہ یہ قربانی کی رسم کا ایک حصہ تھا۔ ان بچوں کی انسانی قربانی ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی ہڈیوں کو ایک مخصوص انداز میں مخصوص مقامات سے کاٹا گیا ہے اور کچھ کی پسلیاں بھی ٹوٹی ہوئی ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کے دل نکال لیے گئے تھے۔
اس کے علاوہ بہت سے بچوں کے جسم پر شوخ لال رنگ بھی لگایا گیا تھا اور قوی امکان ہے کہ یہ قربانی کی رسم کا ایک حصہ تھا۔
بچوں کے ہمراہ دفن کیے گئے لاماز کو بھی اسی طرح تیار کیا گیا تھا۔ ان سب کی عمر 18 ماہ سے کم تھی اور سب کے چہرے مشرق کی طرف اینڈیز پہاڑوں کی جانب کر کے دفن کیا گیا تھا۔
بحوالہ
1.”LacusCurtius” • Greek and Roman Sacrifices
(Smith’s Dictionary, 1875)
2.رچرڈ کولیٹ ( بی بی سی کی سیاحتی صحافی) کا آرٹیکل “مایا تہذیب کی پوشیدہ دنیا تک لے جانے والا غار جہاں انسانی قربانی دی جاتی تھی”
3. نیشنل جیوگرافک سوسائٹی
جاری

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply