ایک/مختار پارس

دو لمحے ایسے ہیں جن میں حاصل سکون نہ کسی دامن میں اور نہ دامان میں مل سکتا ہے؛ ایک جب دل صاف پانی کے چشمے کی طرح بہتے ہوئے گواہی دیتا ہے کہ اور دوسرے جب ہونٹ ایک دوسرے میں پیوست ہو کر اس کا نام لیتے ہیں۔ دو ہی لمحے ایسے ہیں جہاں ساری کہانی کے سارے کردار رک جاتے ہیں؛ ایک جب پورب کروٹ بدلتا ہے اور دوسرا جب پچھم اپنی بات مکمل کر لیتا ہے۔ دو لمحے ہوتے ہیں جو صرف ایک ہی بات کرتے ہیں؛ جب کوئی کسی سے آشنا ہو جاتا ہے اور جب کسی کی کسی سے شناسائی ختم ہو جاتی ہے۔
کسی اور سے محبت آشنا کر دیتی ہے جبکہ خود پرستی کسی اور کا نہیں ہونے دیتی۔ محبت ہر لمحہ ثبات مانگتی ہے اور ہم نفس ہونے کی خواہش میں ہر چاک گریبان کے گلے میں بانہیں ڈال کر رقص کرنے پر آمادہ نظر آتی ہے مگر۔۔۔ محمل کبھی مخمل ہو نہیں سکتا۔ جسے نیک و بد میں تمیز نہ ہو اور جسے ادنی اور اعلی کا پتہ نہ ہو، وہ پتھر سے بھی احقر ۔ زیست کا ہر وہ لمحہ جو ثبات مانگتا ہے، کسی بے اعتنا کی نظروں کی طرح دیواروں سے ٹکرا کر لوٹ جاتا ہے ۔ ثبات صرف اسے میسر ہے جسے نظر آتا ہو؛ جو دیکھنے والا بھی خود ہو اور دکھائی دینے والا بھی خود ہو۔ جو نظر لوٹ کر پھر اٹھے وہ صرف ایک کی نظر ہو سکتی ہے؛ وہ نظر جو صاف پانی کے بہتے ہوئے چشموں کی طرح گواہی دیتی ہے اور برف کو پگھلا دیتی ہے ۔ خدا ہی ہے جو دلوں میں محبت ڈالتا ہے اور انسان ہی ہے جو اس محبت کو جامد کر دیتا ہے۔
جمود ہر شکل میں موت ہے۔ ویرانے میں ہوا چلے تو زیادہ خوف آتا ہے۔ زبان زیادہ چلے تو دانتوں میں آ سکتی ہے ۔ صاحب فہم کو آتش سخن سے دور ہی دیکھا جائے گا ۔ جو بات کہنے کی ہو، وہ بھی خاموشی سے کہی جاسکتی ہے ۔ جس معاملے میں لفظ درکار نہ ہوں وہاں گفتگو بارود بن سکتی ہے۔ بگل پر اونچی آواز میں لہک لہک کر بھائی چارے کی دعوت سے محبت کی بیل کسی منڈیر پر نہیں چڑھ سکتی۔ رحمت عالم کو دفتری زبان میں نہیں سمجھایا جا سکتا۔ شہر، زمین پر نہیں، دل میں اور آنکھوں میں آباد ہوتے ہیں ۔ کیا کسی نے وہ کنج پنہاں دیکھ رکھا ہے جس کے روزن سے حرم نظر آتا ہے اور جہاں سے وہ نور اولیں رونما ہوا تھا جس کی تمازت سے صنم خانوں میں پڑے پتھر چٹاخ سے ٹوٹ گئے تھے؟ وہاں اب بھی پتھر بکھرے ہیں ۔اس شہر کے لوگوں کی آنکھیں بھی پتھریلی ہیں۔ وہ اب بھی پتھر پوجتے ہیں۔ انہیں کسی سے محبت ہو نہیں سکتی۔ وہ خود کو سجدہ کرتے ہیں۔ عزم اپنی ذات پر ہو تو تمازت بن جاتا ہے اور خدا کی ذات پر ہو تو محبت میں بدل جاتا ہے ۔ محبت جامد نہیں ہونے دیتی کہ یہ تلاش کے جاری رکھنے پر مائل نظر آتی ہے۔
تلاش بر حق ہے مگر کس چیز کی؟ ساری مخلوقات میں صرف ایک انسان ہے جسے رزق کےلیے مال و دولت سمیٹنے کی آرزو ہے۔ ایک یہ انسان ہے جسے کہیں رہنے کےلئے چھتیں تعمیر کرنا پڑتی ہیں؛ اسے گھروں میں رہنے کےلئے کرائے دینا پڑتے ہیں ۔ اسے چلتا پھرتا رہنے کےلئے کبھی کاسب، کبھی قصاب کے پاس جانا پڑتا ہے۔ سلسلہ روزگار کےلئے کبھی وہ ہاتھ چلاتا ہے اور کبھی ہاتھ پھیلاتا ہے۔ ہر شخص کی بسیار بس اتنی ہی ہے جتنا کوئی بھی انسان کھا سکتا ہے لیکن خواہش بسیار اتنی جیسے اسے صدیوں یہاں پر رہنا ہے۔ لوگ ایک دوسرے کی قربت میں یوں احتیاط کرتے ہیں جیسے انہیں یہاں بہت سے برسوں رہنا ہے۔ یہ امکان ان کے دل و دماغ میں نفرت بھر دیتا ہے اور وہ ایکدوسرے کو سکون سے نہیں رہنے دیتے۔ حیف ہے کہ انسان ایکدوسرے کو داغ دینے اور دغا دینے کے طریقے ڈھونڈتا ہے ۔ وہ اس بات پر قادر ہونا چاہتا ہے کہ کون کس کے قریب رہ سکتا ہے اور کون نہیں۔
ایسا اس لیے ہے کہ ساری مخلوقات میں صرف ایک انسان ہے جسے رب نے سوچنے سمجھنے اور بولنے کی طاقت عطا کی ہے مگر انسان نے اپنی خرد اور نطق سے جو منزلیں دریافت کرنا تھیں، ان مقامات تک پہنچنے میں وہ رستہ بھول گیا ہے۔ ذرا سی سمجھ حاصل ہو تو بات سمجھنا اتنی مشکل تو نہیں۔ انسان کے علاوہ باقی ساری مخلوقات کوئی بیوپار نہیں کرتیں؛ انہیں کوئی ماہر تعمیرات نقشے بنا کر نہیں دیتے؛ کوئی پرندہ کسی جنگل میں بھی بھوکا نہیں سوتا۔ کوئی چڑیا کسی کوے، کسی باز کی محتاج نہیں رہتی۔ نہ کوئی جانور نعل لگواتا ہے اور کوئی پرندہ ناک چھدواتا ہے۔ حیوانوں کی دنیا میں کوئی راہداری نہیں، کوئی محصول نہیں ؛ وہ ایک دوسرے سے قریب رہنے کےلئے ایک دوسرے سے معاوضے کے طلبگار نہیں ہوتے۔ ان کی دنیا فطرت کے ہم آہنگ ہو کر بحسن و خوبی چل رہی ہے۔ قرین از قیاس یہی ہے کہ انسان نے اپنی عقل کے غلط استعمال سے خود کو فطرت کے مراتب سے بہت دور کر دیا ہے۔ بے زبان جانور حیرت سے عقل و فراست سے آراستہ اشرف المخلوقات کو دیکھتے تو ہونگے کہ رب نے اسے تخلیق کرکے چیزوں کے نام کیا اس لیے بتائے تھے کہ وہ ان چیزوں کا بیوپار شروع کر دے۔ اسے کون جھنجوڑ کر بتائے گا کہ کوئی مخلوق رب کے علاوہ کسی کی محتاج نہیں ہوتی۔ دوسروں کو محتاج کر دینے کے طریق کار کو زندگی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ فطرت کسی کو کسی کا محتاج نہیں رکھنا چاہتی۔ ایک انسان کسی دوسرے انسان کو اپنا محتاج بنانے کا کیسے روادار ہو سکتا ہے۔
ایک آخری بات جو اس نے کہی اور ہم میں سے کسی نے سمجھی اور کسی نے ان سنی کر دی، وہ تکمیل کے بابت تھی۔ ہم میں سے اکثر نے سمجھا کہ پانچ وقت سر جھکانے کا مطلب ہے کہ ہم مکمل ہو گئے۔ انسان اس وقت تک ادھورا ہے جب تک وہ تیشہ لے کر اپنے بت کے سینے پر وار نہیں کرتا؛ انا کے پہاڑ کو سر کرنا ضروری ہے ۔ پتھر مٹی میں ڈھلتا ہے تو اپنے اصل کی طرف لوٹتا ہے۔ اپنے اصل کی طرف لوٹنے کا نام بندگی ہے۔ چٹان کو ریزہ ریزہ ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ زندگی تیزی سے بدل جاتی ہے۔ جب تک پتھر ، مٹی نہیں ہو جاتے، وہ دونوں اپنے اپنے لمحے میں مقید رہتے ہیں ۔ دو ہی لمحے ایسے ہوتے ہیں جب مٹی خوشبو دیتی ہے؛ جب اس پانی پڑتا ہے اور جب اس پر پھول اگتے ہیں ۔ یہ دو لمحے، دو ہونٹوں کی طرح آپس میں جڑے رہتے ہیں۔ ان کے آپس میں جڑے رہنے کی وجہ صرف ایک ہے؛ صرف ایک۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply