ترقی کا سراب اور استبداد کی نئی شکل !

حضرت علیؓ کا قول ہے کہ کوئی بھی معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم پر نہیں۔ یہ قول ایک بنیادی معاشرتی اصول کی طرف رہنمائی کرتا ہے کہ نظامِ عدل و قسط کسی بھی فرد یا معاشرے کی فطری آواز ہے۔ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ نظام اور قانون میں کیا فرق اور تعلق ہے۔
قانون اُن اصولوں اور ضوابط کا مجموعہ ہے جن کی تنفیذ ریاست یا حکومت کرتی ہے۔ اِس میں افراد کے معاشرتی رویّے یا اقدار شامل نہیں ہوتے۔ نتیجتاً بسا اوقات ایسا ہوتا آیا ہے کہ ریاست یا حکومت کی طرف سے بنائے جانے والے قوانین عوام میں قبولیت اور پزیرائی حاصل نہیں کر پاتے کیونکہ وہ قوانین معاشرتی رویّوں اور اقدار کی نمائیندگی نہیں کرتے۔ اِسکی بہترین مثال جنرل ضیا۶ الحق کی طرف سے نافذ کردہ حدود آرڈیننس ہے۔ چونکہ یہ قانون سماجی روایات اور معاشرتی رویّوں سے ہم آہنگ نہیں تھا تو نتیجتاً نا صرف یہ کہ اِس قانون کو لوگوں نے اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا بلکہ اسلامی قوانین بھی تنقید اور نفرت کے نشانے پر آ گئے۔ اِسکی دوسری بہترین مثال جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاس کیا جانے والا حقوقِ نسواں بل ہے۔ یہ قانون ضیا۶ الحق کے دور میں نافذ ہونے والے حدود آرڈیننس کے ردِعمل میں لایا گیا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ردِعمل میں اُٹھائے گئے اقدامات میں دانشمندی کم اور جذبات زیادہ حاوی ہوتے ہیں۔
اِس کے برعکس نظام معاشرتی رویّوں، اقدار اور قانون کا مجموعہ ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں نظام کی اگر کسی طور کوئی مثال دی جا سکتی ہے تو وہ کسی حد تک مغربی معاشرے ہیں لیکن وہاں بھی اب قانون اور معاشرتی اقدار و رویّوں میں تضاد پیدا ہو کر ظلم اور استحصال کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
ازل سے عدل اور جبر کی کی کشمکش رہی ہے۔ اگر تاریخِ انسانی کی کتاب کھولی جائے تو اُس کے زیادہ تر ورق نظامِ جبر سے بھرے ملیں گے۔ اگر کبھی نظامِ جبر کی دیوار گِرا کر اُس کی جگہ نظامِ عدل کی عمارت کھڑی کی گئی ہے تو اُس کے لیے بھی جبر کی چکّی میں پِسنے والی نوعِ انسانی کو صدیوں جدوجہد کرنا پڑی ہے۔
تاریخِ انسانی نے نظامِ عدل کی اگر کوئی کامل ترین مثال دیکھی ہے تو وہ محمدﷺ کے ہاتھوں برپا ہونے والے انقلاب کی صورت میں دیکھی ہے۔ محمدِ عربی ﷺ نے ایک ایسا نظام دنیا کے سامنے پیش کیا جس کی اساس انسان کا جذبہِ حریت و اخوت و مساوات تھا۔ جس میں حکمرانی استحقاق کے بجائے ایک ذمہ داری قرار پائی۔ جس میں فرد کو نا صرف انفرادی اعمال میں ذمہ دار ٹھہرایا بلکہ اجتماعی معاملات میں بھی اُسے حصہ دار اور ذمہ دار قرار ٹھہرایا۔ لیکن اُس نظامِ عدلِ اجتماعی کی جگہ بھی کچھ ہی عرصے بعد ملوکیت کے نظامِ جبر نے دوبارہ لے لی۔ جیسا کہ کوئی بھی نظامِ جبر لوگوں کو اُن کے انفرادی معاملات تک محدود کر کے اُن سے اجتماعی معاملات کی باگ ڈور چھین لیتا ہے، اُسی طرح اس نظامِ ملوکیت نے بھی لوگوں کو ابتداً اجتماعی سیاسی نظام میں اُن کی ذمہ داری اور حصہ داری سے محروم کر دیا۔ جس کسی نے بھی اپنے اس اجتماعی حق کو حاصل کرنے یا ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش کی اُسے بے رحمی سے مار دیا گیا، چاہے وہ رسولؐ کا نواسہ ہی کیوں نا ہو۔
تاریخِ انسانی نے دوبارہ اِسی جذبہِ حریت و اخوت و مساوات کی عملی شکل کسی حد تک مغرب میں اُٹھنے والی احیائی تحریکوں اور اُن کے نتیجے میں فرانس اور روس میں برپا ہونے والے انقلابات کی صورت میں دیکھی۔ فرد کو سیاسی نظام میں اپنی حصہ داری جمہوریت کی صورت میں ملی۔ اندازِ حکمرانی میں دوبارہ احساسِ ذمہ داری و جوابدہی نےجگہ لی۔ ایک ایسے نظام نے دوبارہ انگڑائی لی جس میں افراد کو برابری کی بنیاد پر انصاف اور حقوق میسر ہوں۔ اگر افراد یہ محسوس کریں کہ اُن کے چُنے گئے نمائیندے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہے تو اُن کے پاس یہ حق ہے کے وہ اپنے چُنے گئے نمائیندوں کو دی گئی ذمہ داری اُن سے واپس بھی لے سکتے ہیں۔ اِسی لیے علامہ اقبالؒ نے یہ کہا تھا کہ مغربی تہذیب کی روح اسلامی ہے۔
لیکن پہلے کی طرح اِس دفعہ بھی وہی ہوا کہ انسانی حریت و اخوت و مساوات کا یہ پودا ابھی درخت بنا ہی نہیں تھا کہ مفادپرست سرمایہ دارانہ نظام کی آکاس بیل نے اِس پودے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ انسانی ارتقا نے چونکہ اب ملوکیت کو ایک گالی بنا دیا ہے تو اب کی بار استحصالی اور جابر قوتوں نے بھی کچھ نئی بیڑیاں ایجاد کی ہیں۔ اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے والوں کو کہیں غدارِ وطن کا لیبل لگا کر راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے تو کہیں ترقی کا دشمن قرار دے کر۔ اور مذہب دشمنی کا ہتھیار تو ازل سے ہی استعمال ہوتا آیا ہے، حتٰی کہ وقت کے نبیوں کے خلاف بھی۔

Facebook Comments

عمران بخاری!
لیکچرار، قومی ادارہءِ نفسیات، قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply