سازش۔۔سید مہدی بخاری

پاکستان میں کولڈ وار داخل ہو چکی ہے۔ عمران خان کی پشت پر چین و روس کھڑے ہو چکے ہیں۔ عمران خان صاحب کو جو بھی کہہ لیں مگر وہ روس و چین کی حمایت سے سیاست میں کافی عرصہ مؤثر رہیں گے۔ خان صاحب نے خود کو روس و چین کا حمایت یافتہ ثابت کر دیا ہے۔

سیاست میں غداری یا حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنا سراسر بیہودگی ہے۔ پاکستان کب امریکی کالونی نہیں تھا اور کونسا حکمران یہاں امریکا نواز نہیں رہا؟ بات تو لیاقت علی خان سے شروع ہوئی۔ تو کیا آج تک سب غدار ہی آئے؟

امریکا کو تو آج بھی آرمی چیف اپنا سٹریٹجک پارٹنر کہہ رہے ہیں۔ عمران خان صاحب کو چاہئیے کہ سیاست کریں مگر یوں مخالفین کو غدار غدار نہ کہیں۔ اگر امریکا ہمارا دشمن ہے تو آج تلک تو دشمن سے ہی ایڈ لیتے تھے اور اسی کی کالونی بنے ہوئے ہیں تو کیا سب غدار تھے یا ہیں ؟ اور کیا روس ہمارا دوست ہے یا بھارت کا؟ روس ہمارا خیر خواہ کیسے ہے؟ کیا ہماری مالی مدد کرتا ہے؟ ان سب سوالات کا جواب “نہیں ” ہے۔

فارن پالیسی فوج کی مشاورت سے بنا کرتی ہے۔ یوں نہیں ہو سکتا کہ اگر غدار تھے تو صرف حکمران ہی غدار تھے۔ بات پھر دور تلک جائے گی۔ لہذا عقل کو ہاتھ ڈالیں اور سیاست کریں۔ گند نہیں۔

کیا امریکا کمزور ممالک میں حکومتیں بدلتا ہے؟ ہاں بدلتا ہے۔ یہ تو سی آئی اے کے منظور شدہ مراسلات میں درج ہے۔ وہ اقرار کرتے ہیں کہ ہاں ہم بدلتے ہیں۔ کیا امریکا عمران خان کو ہٹانا چاہتا ہے؟ ہاں چاہتا ہے۔ کیا اپوزیشن امریکا کے ساتھ مل کر عدم اعتماد لائی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ الزام چاہے جو مرضی لگا لیں مگر ایسے سنگین الزام کو ثابت کس نے کیا ہے؟ نیشل سیکئورٹی کونسل کے اعلامیے میں تو ایسا کوئی ذکر نہیں کہ اپوزیشن ملوث ہے یا تحریک عدم اعتماد کا ذکر اس مراسلے میں ہے۔

میری ناقص رائے میں عمران خان صاحب نے اس مراسلے کو اپنی ڈھال بنایا ہے اور اس چال میں وہ کامیاب رہے ہیں۔ اپوزیشن کو دباؤ میں لے آئے ہیں۔ مگر یہ چال خطرناک ہے۔ یہ وہی حربہ ہے جس کو عرف عام میں پروپیگنڈا کہا جاتا ہے۔

نازیوں کے وزیر اطلاعات جوزف گوئبلز کو جدید پروپیگنڈے کا باوا آدم سمجھا جاتا ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کی نفسیات اور کمزوریاں سمجھ کے ایک ہی بات کی تکرار سے چوکور کو دائرہ ثابت کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔

آگے فرماتے ہیں کہ کامیاب پروپیگنڈے کی بنیاد یہ ہے کہ آپ کتنے مختصر نکات کو کتنے زود ہضم طریقے سے کتنی دفعہ دھرا سکتے ہو۔ حتیٰ کہ لوگ اسے ایک حقیقت کے طور پر قبول کرنے لگیں۔ قبلہ گوئبلز کا ایک قول زریں یہ بھی ہے کہ پروپیگنڈے میں دانشورانہ سچائی نہیں چلتی۔ پروپیگنڈے کو بس مقبول عام ہونا چاہیئے۔

اگرچہ گوئبلز نے کوئی نیا نظریہ پیش نہیں کیا مگر اتنا ضرور کیا کہ صدیوں پرانے ہتھکنڈوں کو سائنسی انداز میں سامنے رکھ دیا۔ پروپیگنڈہ مختصر عرصے میں فوری مقاصد کے حصول کے لئے ایک کامیاب ہتھیار ہے۔ مگر کسی پروپیگنڈے کے پیچھے بدنیتی، سچ اور جھوٹ کا تناسب کیا ہے؟ اس کا عموماً تب پتہ چلتا ہے جب پتہ چلنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا اور تب تک جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کے نئے طریقے پرانوں کی جگہ لے چکے ہوتے ہیں۔

جیسے دسویں صدی میں بغداد کے درباری علماء نے عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کو یہ کہہ کر منصور حلاج کے ٹکڑے ٹکڑے کروا دیئے کہ وہ انا الحق کا نعرہ لگا کے خدائی کا دعوی کر رہا ہے مگر یہ نہیں بتایا کہ منصور حلاج آگے چل کے یہ بھی کہتا ہے کہ میں خدا کے کل کا ناقابل تقسیم جزو ہوں۔ جب لوگ ثواب دارین سمجھتے ہوئے منصور کو پتھر مار رہے تھے تو اسے ان پتھروں سے زیادہ اپنے دوست شبلی کے ہاتھ سے پڑنے والے پھول سے جھٹکا لگا۔ منصور نے زخمی گردن اٹھا کر کہا ” شبلی۔۔ تو تو حقیقت جانتا ہے۔۔ پھر بھی؟”

آج مسلمان خدا کی ہمسری کے دعوے دار اسی مجذوب کے نام پر اپنے بچوں کے نام بخوشی اور فخریہ رکھتے ہیں اور انہیں کوئی پتھر نہیں مارتا۔

جیسے بارہویں صدی کے عظیم فلسفی، ریاضی داں، ماہر علم فلکیات، اور فقیہہ ابن رشد کو اندلس کے حکمراں یعقوب المنصور نے ملک بدر کر کے اس کا پورا کتب خانہ جلوا دیا۔ وجہ یہ تھی کہ ابن رشد کی 68 کتابوں میں سے ایک میں فلاسفہ یونان کے عقائد کا ذکر کرتے ہوئے یہ جملہ بھی موجود تھا کہ “اور پھر یہ ثابت کیا گیا کہ زہرہ (سیارہ) بھی خدا ہے”۔۔ حاسدین نے اس جملے کو سیاق و سباق سے الگ کر کے خلیفہ کو قائل کر لیا کہ ابن رشد کے خیالات مشرکانہ ہیں۔ آج اسی ابن رشد کا فقہی کام بہت سے دینی مدارس کے نصاب کا حصہ ہے۔

جیسے وسطی یورپ میں جب بھی پادریوں کو اپنی کرتوتوں سے توجہ ہٹوانا مقصود ہوتی تو وہ اعلان کروا دیتے کہ فلاں علاقے کا فلاں یخودی ایک عیسائی بچے کو ابال کے کھا گیا اور پھر خلقت پادریوں کی سچی رہنمائی میں یخودیوں کی صفائی کرنے نکل پڑتی۔

جیسے ہمارے بچپن میں کوئی چپکے سے کان میں کہہ جاتا تھا کہ شیعوں کے تعزیے دیکھنے مت جایا کرو نکاح ٹوٹ جاتا ہے اور یہ سنی بچوں کا خون چاول میں ڈال کے نیاز بانٹتے ہیں۔

جیسے مولانا مودودی سے یہ بیان بہت عرصے تک منسوب کیا جاتا رہا کہ کشمیر کے جہاد میں حصہ لینا حرام ہے۔ جیسے بریلوی علما مولانا مودودی کو دشمن صحابہ ثابت کرتے رہے اور دیوبندی علما ان کے خیالات کو خارجیوں سے تشبیہ دیتے مودودی مذہب بتاتے رہے۔ (پھر ایک دن پی این اے اور پھر ایم ایم اے بھی بن گیا)۔

جیسے جماعت اسلامی کی جانب سے یہ بات تواتر کے ساتھ پھیلانے کی کوشش ہوئی کہ بھٹو ایک لادین سرخا ہے اور ایسا نظام لانا چاہتا ہے جس میں عورتیں ہاتھ سے نکل جائیں اور مسجدوں کو تالے لگ جائیں۔ اس کی رگوں میں ہندو خون دوڑ رہا ہے۔ جو اسے ووٹ دے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ پھر بھی ستر کے انتخابات میں کروڑوں ووٹروں نے نکاح تڑوا لیے۔ سرخے بھٹو نے احمدیوں کو اقلیت قرار دے دیا۔ رگوں میں ہندو خون دوڑنے کے باوجود شراب پر پابندی لگا دی اور مساجد کو تالے لگانے کے بجائے جمعہ کی سرکاری چھٹی کر دی اور اب شہید بھی کہلاتا ہے۔

جیسے مولانا فضل الرحمان عمران خان کو یخودی ایجنٹ کہتے رہے اور تحریک انصاف کو ووٹ دینا حرام قرار دیتے ہیں۔ اور جیسے عمران خان مولانا فضل الرحمان کو ان کانگریس نواز علما کا وارث قرار دیتے ہیں جنہوں نے جناح صاحب کو دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا فتوی دیا تھا۔ اور یہ بھی کہ یہ وہی مولانا ہیں جو بقول وکی لیکس وزیراعظم بننے کے لیے ایک خاتون امریکی سفیر کے سامنے دوزانو ہو گئے تھے۔ (پھر بھی دونوں “خالص شریعت” کے داعی سٹوڈنٹس سے مذاکرات کے پرزور حامی اور ڈرون حملوں کے مشترکہ مخالف تھے)۔ آج کے حالات میں خان صاحب مولانا کی ہی پکائی ڈش کا سواد انہی کو چکھا رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایسے میں خان صاحب کی زبان سے “ثابت شدہ” خط کی اصل حقیقت سے کیسے آشنائی ہو؟ جب تک راز آ شکار نہیں ہو جاتا تب تلک غداری یا حب الوطنی کے سرٹیفکیٹس بانٹنے کی بجائے زبان پر قابو رکھنے میں کیا مضائقہ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply