تیمور کون تھا؟

تیمور کون تھا؟
عرشہ میر
ایک آزاد اور بے باک میڈیا کسی بھی معاشرے میں ایک بڑی طاقت رکھتا ہے اور اسی میڈیا کو نشانہ بنانا آزادیِ صحافت کو کچلنے کے مترادف ہے۔ گزشتہ روز جب ایک بائیس سالہ تیمور نامی نوجوان اس وقت دم توڑ گیا جب دہشتگرد عناصر سچ کی آواز دبانے کے لیے آئے اور سماء ٹی وی کی ڈی ایس این جی کو نشانہ بنایا۔
سب سے پہلے تو یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ تیمور کون تھا اسکے خواب کیا تھے؟ تیمور بوڑھے والدین کا واحد سہارا تھا جو ماں کے لیے اچھا گھر بنانا چاہتا تھا۔بہنوں کے ہاتھ پیلے کرنا چاہتا تھا۔آخر کیا قصور تھا تیمور کا؟ یہ سوال حکومت میں بیٹھے ان ظالموں سے ہے جو رات میں چین کی نیند سوتے ہیں۔مہنگے کپڑے اور مہنگی گاڑیوں میں گھومتے ہیں۔ انکو کیا پتا کہ کسی گھر کا نوجوان راتوں کو کام کر کے اپنا گھر چلا رہا تھا۔ قہقے لگانے کو جی چاہتا ہے کہ ہم بھی کتنے بیوقوف لوگ ہیں جو ان لوگوں سے امیدیں لگاتے ہیں جنکو خود نہیں معلوم کہ امید ہوتی کیا ہے۔ ہاں یہ سیاستدان اس امید کو ضرور جانتے ہیں جو انکو عوام سے ہوتی ہے الیکشن کے دنوں میں۔ جب یہ امید لیکر ہر روازے پر دستک دیتے ہیں کہ ہمیں ووٹ چاہیے ۔اب مجھے کوئی بتائی کہ کونسا سیاستدان تیمور کے جنازے میں شریک ہوا۔میڈیا پر بیٹھ کر بڑی بڑی باتیں کرنا سب کو آتا ہے۔ میدان میں اترنے کو کہو تو بغلیں جھانکتے ہیں۔ افسوس ہے مجھے یہ کہتے ہوئے کہ تیمور نہ تو آخری ہے اور نہ پہلا جس نے سچ کی آواز بننے کی راہ میں جام شہادت نوش کیا۔کون بنے گا تیمور کے گھر والوں کاسہارا ؟ حکومت؟ عوام؟ یا باقی صحافیوں کی طرح انکا بھی اللہ ہی حافظ ہو گا۔
کون دے گا انصاف ؟عدالتیں یا حکومت؟ کیا کہیں عدالتوں کا بھی اللہ ہی حافظ ہے۔ بے گناہوں کو سزا اور گناہگاروں کو جزا دینے میں سرِ فہرست ہے۔کاش کہ کوئی ایک سیاستدان سامنے آتا اور تیمور کی ماں اور بہنوں کے سر پر ہاتھ رکھتا اور کہتا کہ اب ہم انکی کفالت کریں گے۔مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔
تیمور کی شہادت پر ہر آنکھ اشکبار ہے۔لیکن ہمارے سیاستدان بہت خوش ہیں کیونکہ اب کچھ دن اس خبر کو اچھالا جائے گا اور پنامہ کا ہنگامہ ماند پڑ جائے گا۔ میری گزارش ہے گورنر سندھ سے میئر کراچی سے اور چیف منسٹر سندھ سے کہ خدارا ایک بار تیمور کی ماں کے آنسو پونچھ کر تو دیکھیں شاید تھوڑا قرار آجائے۔ اس ماں کا لختِ جگر چلا گیا مگر ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کے کانوں پر ایک جوں نہیں رینگی،رینگے گی بھی کیوں تیمور کونسی انکی اپنی اولاد تھی۔ کیونکہ انکے اپنے بچے کبھی ایسی وارداتوں کا شکار نہیں ہوئے۔درد اس دن ہو گا جب اپنی اولاد کی میت کو کاندھا دیں گے۔ سماء ٹی وی کی ڈی ایس این جی کو نشانہ تو بنا لیا مگرصحافیوں کے حوصلوں پر حملہ کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔
صحافی برادری کے حوصلے اتنے پست نہیں کہ زبان بند کر کے تماشہ دیکھیں۔ ہمارا قصور ہی کیا ہے کہ ہم ان لوگوں کی اصلیت سامنے لاتے ہیں۔ اور یہ ہمارے نوجوان صحافیوں کو نشانہ بناتے رہیں۔ یہ اب نہیں چلے گا۔ اب حکومت اور عدلیہ کو جواب دینا ہو گا اور تیمور اور دیگر صحافیوں کو انصاف دینا ہو گا۔ میری گزارش ہے وزیر اعظم میاں نواز شریف سے اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے کہ اپنے اختلافات کو بھول کر عوام کےلیے کچھ کر لیں اور اگر نہ کیا تو واہ وقت دور نہیں جب انکی بھی اولادیں یونہی سڑکوں پر سرِ عام ماری جائیں گی اور انکو کندھا دینے کیلئے کوئی نہیں ہو گا۔ سماء ٹی وی سلام پیش کرتا ہے اس بہادر نوجوان کو جس نے دوران ڈیوٹی جان دی۔ اور ہم سلام پیش کرتے ہیں ان بہادر والدین کو جنہوں نے اپنے بیٹے کی شہادت پر کسی کو بدعا نہیں دی۔ بلکہ سب کی سلامتی کی دعا کی۔ ت
یمور ایک ہنستا چہرہ جو آج اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنا قصور ضرور پوچھے گا۔ اور پھر خدا اسے انصاف دے گا۔ کیونکہ جس ملک میں وہ رہتا تھا وہاں انصاف مرنے کے بعد ہی ملتا ہے۔سماء ٹی وی مشکل کی اس گھڑی میں تیمور کے گھر والوں کیساتھ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔تیمور نے کم عرصے میں جو سب کو عزت دی وہ بھلائے نہیں بھولے گی وہ اپنی خوبصورت شکل کی طرح ہمارے لیے خوبصورت یادیں چھوڑ گیا جن کو یاد کریں تو صرف آنسوؤ ں سے ہی ملاقات ہوتی ہے ۔تیمور ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔اللہ اسکو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور اسکے گھر والوں کو صبرِجمیل عطا کرے۔ آمین ! آخر میں یہی کہوں گی کہ اگر آزادیِ رائے جرم ہے تو ہر صحافی یہ جرم بار بار کرے گا ۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply